یہ کیسی جمہوریت اور کیسا سیکولرازم ہے؟

محمد صابر حسین ندوی
7987972043
پورے ملک کے کسان احتجاج کر رہے ہیں، جس کی پاداش میں کئی موت کی آغوش میں جاچکے ہیں، متعدد مشاورتی اجلاس کے بعد معاملہ سلجھتا نظر نہیں آتا؛ بلکہ انہوں نے حکومت کی پیش کردہ تمام تجویزیں ٹھکرادی ہیں، وہ اپنے مطالبات پر بضد ہیں، نہ صرف MSP کی ضمانت بلکہ تینوں کسان بل یکسر رد کرنے سے نیچے کسی اور بات پر راضی بھی نہیں ہیں، اب تو انہوں نے سر عام اس کے نقصانات میں سرمایہ داروں کی حقیقت اور ان کے مقاطعہ کا اعلان کردیا، امبانی اور اڈانی کا نام لیتے ہوئے رواں حکومت کو گھیرا ہے، جیو کے سم کارڈ جلاتے ہوئے احتجاج کو سخت موڑ دینے کی بات کہہ دی ہے، ملکی پیمانے پر بی جے پی مراکز کے سامنے دھرنا دیا جائے گا، اور اس تحریک کی مشعل دیگر صوبوں میں بھی جلائی جائے گی، مگر حکومت کا ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ وہ اپنے کسی بھی فیصلہ پر ایک انچ پیچھے نہیں ہٹتی، بالخصوص امت شاہ قوانین کو آر ایس ایس اور حکومت کی ضد سمجھتے ہیں اسے لوگوں کی ضرورت سے ہم آہنگ کرنے کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، اگر حکومت قدم پیچھے لیتی بھی ہے تو اس کا لائحہ ایسا ہوتا ہے جس سے دو قدم زیادہ بڑھ کر چھلانگ لگا جاتی ہے، موجودہ مزاحمت میں کسانوں کو بھی یہی جھانسا دینے کی کوشش کی گئی تھی، کئی صفحات پر تجاویز لائے مگر گنے چنے نقاط تھے، لیکن کسان دانا نکلے، جس سے لوگوں کے درمیان کشمکش دوبالا ہوگئی، تو وہیں ملکی جی ڈی پی منفی میں جاچکی ہے، نوجوانوں کیلئے نوکریاں بھولی بسری بات ہوگئی ہے، لاک ڈاؤن کے بعد بھی زندگی معمول پر نہیں ہے، اس وقت ہر کسی کو ان تمام پریشانیوں کا اندازہ ہے؛ لیکن سوچئے حکومت کیا کر رہی ہے؟ حکومت اپنے ہندو راشٹر کے منصوبے کو بروئے کار لانے میں مصروف ہے، اب اس نے یہ ضد پکڑ لی ہے کہ ملک کا جو بنے یا بگڑے، معیشت اور یومیہ زندگی خواہ تباہ وبرباد ہوجائے؛ انہیں بس اپنی متشددانہ سوچ، قدامت پسندی اور ہندواحیائیت کا کام انجام دینا ہے، اتنا کچھ ہونے کے بعد وزیراعظم نے ایک دفعہ بھی کسانوں سے بات نہیں کی، ان کی پریشانیاں نہیں جانیں، یا اب تک کی کسی بحران کا ذمہ اپنے سر نہیں لیا؛ بلکہ اس کے برعکس وہ بنارس کی گھاٹ پر پوجا ارچنا کرتے پائے گئے، ریزر شو کا لطف لیتے اور دنیا کو یہ بتاتے ہوئے پائے گئے کہ ہندو رسم و رواج اور تہذیب ہی سب کچھ ہے، مزید ملک کا پردھان کوئی سیکولر نہیں بلکہ یہ سب صرف کاغذ کے پرزے پر لکھی گئی اور ٹھکرائی ہوئی باتیں ہیں، اگر کسی زمانے میں اسے سنجیدگی سے لیا گیا ہو تو کوئی اور بات ہے؛ لیکن اب اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اب یہاں اکثریت کا زور ہے، اقلیت خواہ مسلمان ہوں، سکھ ہوں یا کوئی بھی ہوں ان سب کیلئے جد وجہد اور بے قراری ہی ہے، ان کیلئے چین و سکون اور قابل اطمینان کوئی بات نہیں ہے، انہیں دانہ دانہ کیلئے خود کو سڑکوں پر تھکانا پڑے گا، اپنی ہی پولس اور انتظامیہ سے بھڑنا پڑے گا، جن کو ووٹ دیکر آسائش کی زندگی دی انہیں سے زندگی کی بھیک مانگ پڑے گی۔
واقعہ یہ ہے کہ اس ملک کی تقدیر ١٩٤٧ میں سیکولر ازم لکھ دیا گیا، ظاہر ہے کوئی بھی وزیر اعظم یا وزیر اعلی بن سکتا ہے؛ لیکن وہ مذہبی امور کو ذاتی حد تک رکھے گا، مگر اب ایسا ہوتا ہوا نہیں دکھتا، چنانچہ ان سب میں میل کا پتھر ثابت ہونے والا اور ملک کا مستقبل طے کرنے والا ایک اور واقعہ ہے، یہ بات تو ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ہندو احیاییت کیلئے یہ ضروری سمجھا جارہا ہے؛ کہ ملک میں قدیم وراثت کو تہہ وبالا کردیا جائے، اب تک مسلمان شکار تھے، بلکہ اس کا تسلسل جاری ہے، ان کے ایک ایک ورثہ کو کھرچ کھرچ کر مٹایا جارہا ہے؛ لیکن اب انگریزوں کی تعمیر کردہ عمارتیں بھی نشانے پر ہیں، حکومت نے ایک بڑا پروجیکٹ پاس کیا ہے جس میں اس منصوبے کا لائحہ پیش کیا گیا ہے، پوری دہلی کی تصویر بدلنے والی ہے، ان سب سے پہلے لوک سبھا کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس کے بالمقابل عمارت کی تیاری کی جاچکی ہے، سپریم کورٹ نے اگرچہ دخل اندازی کی ہے؛ لیکن وہ سب رسمی باتیں ہیں، لوگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ تم جمہوریت اور سیکولرازم کا بھرم پالے رکھو، مگر ہونا وہی جو اعلی حکام نے فیصلہ کر لیا ہے، بلکہ شیلا نیاس کیا جا کا ہے، سیکولر ملک کا وزیراعظم خود پنڈتوں اور ہندوانہ رسم و رواج کے ساتھ، پوجا پاٹ کی رسوم کو ادا کر کے یہ بتا چکا ہے؛ کہ آئندہ بھارت کی شکل ایک ہندو راشٹر کی ہی ہونی ہے، اس پراجیکٹ پر ٩٧١/ کروڑ روپئے خرچ کئے جائیں گے، یہ بات الگ ہے کہ ملک کے تمام سیکٹر گھاٹے میں ہیں، فوری طور پر بڑے پیکجز کی ضرورت ہے؛ لیکن حکومت ہاتھ کھڑے کر کے ہر حال میں نئی عمارت ٢٠٢٢ تک مکمل کرنا چاہتی ہے، اس میں دو باتیں اہم ہیں، ایک یہ کہ اس میں سیٹوں کی تعداد بھی بڑھائی گئی ہے، اب ٨٨٨/ سیٹوں کی جگہ ہوگی، جو پہلے کے مقابلے میں تقریباً دوگنی ہے، دوسری بات اسے مثلث بنایا جارہا ہے، ابھی جو عمارت ہے وہ گول ہے، مثلث ہندوؤں میں اہمیت کی حامل علامات میں سے ہے، ہندو تین اہم دیوتا کو مانتے ہیں، برھما، وشنو اور شیو اور ان تینوں کے مجموعے کو تری مورتی یعنی تین دیو کہتے ہیں، دراصل سمجھنے کی بات یہی ہے کہ حکومت اپنے منصوبے میں رنگ بھر رہی ہے، سو سالہ جہد مسلسل کا پھل توڑ رہی ہے، اب وہ وقت دور نہیں کہ جب ملک میں پارلیمنٹ کی درستگی کے نام پر دستور کو بھی رد کردیا جائے اور اسے انگریزوں کا بتلا کر ایک نئے دستور کی تجویز رکھ دی جائے، اندیشے جو حقیقت کی طرف بڑھ رہے ہیں؛ لیکن اب تک کوئی مضبوط آواز، جماعت، شخصیت یا تحریک ان کی راہ میں رکاوٹ بننے کو تیار نہیں، کاش لوگ سمجھیں کہ تمہارے آباء و اجداد کا لگایا اور سینچا ہوا باغ جس مالی کے ہاتھ میں وہ اسے تہس نہس کرنے والا ہے، اٹھو! اور بچا سکو تو بچا لو!!!!
Comments are closed.