امر، اکبر ، انتھونی نے رابرٹ سیٹھ کو پٹخنی دے دی

ڈاکٹر سلیم خان
مہاراشٹر کی مہاوکاس اگھاڑی حکومت نے ایک ہفتہ قبل اپنا ایک سال پورا کیا ۔ اس موقع پر ریاست کی عوام نے حالیہ قانون ساز کونسل کے ضمنی انتخاب میں ایم وی اے کو 6میں سے 4حلقوں میں کامیاب کرکے اس کی خدمت میں بہترین تحفہ پیش کردیا ۔ یہ اس حکومت کے حق میں عوامی تائید کی دلیل ہے ۔ سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فردنویس نے پہلی سالگرہ کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ بہت جلد بی جے پی کے ۱۰۵ ارکان اسمبلی کی تعداد بڑھ کر ۱۵۰ پر پہونچ جائے گی ۔ اس طرح مہاراشٹر میں کمل کھل جائے گا وہ وزیر اعلیٰ بن جائیں گے ۔ فردنویس کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کےسپنوں میں دن رات بلی کے خوابوں کی مانند کرسی ناچتی رہتی ہے ۔ وہ اقتدار گنوانے کے ایک سال بعد بھی ’امید سے ہیں‘ لیکن حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج نے ان کے ارمانوں کا اسقاط حمل کر دیا۔ ویسے تو یہ صرف ۶ حلقوں کے ضمنی انتخابات تھے لیکن اس سے مہاراشٹر کے اندر سیاسی ہوا کے رخ کا پتہ چلتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ نتائج اس دن آئے جب بی جے پی حیدرآباد میں اپنی زبردست کامیابی کا جشن منارہی تھی ۔ حیدرآباد کی کامیابی پر تو امیت شاہ سے لے کر جے پی نڈا تک سب نے تبصرہ کیا لیکن مہاراشٹر کو یکسر نظر انداز کردیا لیکن سچ تو یہ ہے ان نتائج نے بی جے پی کی حالیہ کامیابی پر گرہن لگا دیا ۔
بی جے پی بنیادی طور پر شہروں کے سیاسی جماعت ہے دیہاتوں میں اس کا رسوخ کم ہے ۔ اس لیے مہاراشٹر کے تین بڑے شہروں پونے، اورنگ آباد اور ناگپور میں بی جے پی شکست خاصی اہمیت کی حامل ہے ۔ متوسط طبقات اور امیر کبیر لوگوں میں تعلیم یافتہ لوگوں کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ یہ چونکہ عام انتخابات نہیں تھے بلکہ ان میں سے تین گریجویوٹ حلقوں اور دو اساتذہ کے لیے مختص تھے اس لیے ان پانچوں پر بی جے پی کی ہار اس بات کا ثبوت ہے کہ اب شہروں کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی سوچ بدل رہی ہے۔ بی جے پی کے پسِ پشت آر ایس ایس کے کیڈر کی بڑی تعریف ہوتی تھی اور اس طرح کے خصوصی انتخابات میں ان کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ اس شکست نے آر ایس ایس کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی۔ امت کے وہ مایوس دانشور جو سنگھ پریوار کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگے ہیں انہیں آر ایس ایس کے گڑھ ناگپور کے اندر بی جے پی کی کراری شکست سے ہوش میں آنا چاہیے اور امت کے اندر حزن و ملال پیدا کرنے کے بجائے حوصلہ اور امید پیدا کرنا چاہیے تاکہ عوام میں جذبۂ عمل پیدا ہو ، بقول دانش نورپوری؎
برگ و بار کی خاطر کیجیے عمل صاحب حسرتوں سے دنیا میں کھیتیاں نہیں ہوتیں
سنگھ کی بات نکل آئی تو دیکھیں اس بار سنگھ کے گڑھ ناگپور میں کیا ہوا ؟ یہ حلقہ اس لیے اہم ہے کہ یہاں سے پہلی بار دیویندر فردنویس کے سنگھ پرچارک والد گنگا دھر راو فردنویس کامیاب ہوکر ایم ایل سی بنے تھے یعنی والد کی برسوں پرانی میراث دیویندر فرد نویس نامی ناخلف اولاد نے گنوا دی ۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ جب بی جے پی کے لیے مہاراشٹر میں عام انتخاب جیتنا بہت مشکل ہوا کرتا تھا ۔ اس کے او بی سی رہنما مثلاً گوپی ناتھ منڈے اور ایکناتھ کھڑسے تو پھر بھی کسی طرح جیت جاتے تھے لیکن نتین گڈکری جیسے برہمن کے لیے اس کا امکانمفقود تھا۔ یہی وجہ ہےکہ نتین گذکری نے 1989کے بعد چار مرتبہ اس حلقہ سے کامیابی حاصل کی اور منوہر جوشی کی سرکار میں وزیر بھی بنے ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ ایک ایسے آدمی کو جو اسمبلی الیکشن جیتنے کا روادار نہیں تھا آر ایس ایس نے اپنے رسوخ کا استعمال کرکے قومی صدر بنادیا ۔ اب زمانہ بدل گیا نریندر مودی نے سنگھ کی داداگیری بھی ختم کردی ہے۔ 2014 میں پہلی بار نتین گڈکری نے ناگپور سے ہی پارلیمانی انتخاب میں کامیابی حاصل کی اور مرکزی وزیر بن گئے۔ اسی ناگپور سے اسمبلی کا انتخاب جیت کر دیویندر فردنویس 2014 میں وزیر اعلیٰ بن گئے اس لیے بی جے پی کے نقطۂ نظر سے ناگپور زبردست اہمیت کا حامل ہے ۔ اسی لیے اس شکست کو گھر میں گھس کر مارا سے تعبیر کیا جارہا ہے۔
مہاراشٹر وکاس اگھاڑی نے جب ابھجیت ونجاری کو ناگپور ڈویژن کے گریجویٹ انتخابی حلقہ سے نامزد کیا تو دیویندر فردنویس نے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے دست راست اور شہر کےمیئر سندیپ جوشی کو میدان میں اتاردیا ۔ اس وقت بہت سارے لوگ اسے یکطرفہ جنگ سمجھ رہے تھے مگر نتائج نے ان لوگوں کو چونکا دیا۔ اس الیکشن میں ابھجیت نے 55947 ووٹ حاصل کیے جب کہ بی جے پی امیدوار سندیپ کو صرف 41540 ووٹ ملے۔ اس طرح 14 ہزار 440 ووٹوں کے فرق سے سنگھ کانمائندہ سندیپ دیواکر جوشی اپنے ہی قلعہ میں منہ کے بل گر گیا ۔ کانگریس کو ۵۸ سال کے بعد یہ کامیابی ملی ۔ پونے شہر کو مہاراشٹر کی ثقافتی راجدھانی کہا جاتا ہے۔ اس شہر میں سب سے زیادہ تعلیمی ادارے ہیں اور دنیا بھر سے طلبا پڑھنے کے لیے آتے ہیں ۔ پونہ کی پیشوائی کے سبب وہاں کا برہمن مشہور ہے ۔ اربن نکسل نامی فتنہ پروری کو یہیں سے رائج کیا گیا اور یلغار پریشد کا بہانہ بناکر دانشوروں کو پابندِ سلاسل کرنے کی سازش رچی گئی ۔ ویسے یہ شہر جیوتی با پھلے ، گوپال کرشن گوکھلے اور بال گنگا دھر تلک سے بھی منسوب ہے اس لیے یہاں کے گریجویٹ حلقے میں بی جے پی کی شکست کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
پونے گریجویٹ انتخابی حلقہ کی سیٹ پر ایم ایل سی انتخاب میں مہاراشٹر وکاس اگھاڑی نے راشٹر وادی کانگریس کے ارون لاڈ کو میدان میں اتارا تو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے این ڈی اے امیدوار سنگرام دیشمکھ میدان میں آئے۔ اس دنگل میں ارون لاڈ کو ایک لاکھ 22 ہزار سے زیادہ ووٹ ملے جبکہ سنگرام دیشمکھ کا سنگرام 73ہزار 321پر سمٹ گ۔ اس طرح لاڈ کو 48800 سے زائد ووٹوں کے فرق سے غیر معمولی کامیابی ملی۔ اورنگ آباد ڈویژن گریجویٹ انتخابی حلقہ کا حال بھی مختلف نہیں تھا ۔ یہاں سے این سی پی امیدوار ستیش بھانوداس راؤ چوہان کے مقابلے میں بی جے پی کے سریش بورلکر اپنی قسمت آزما رہے تھے ۔ اس انتخاب میں جہاں چوہان نے ایک لاکھ 16 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے وہیں بورلکر کی گاڑی 58 ہزار 743پر رک گئی ۔ اس طرح 48,824 ووٹ کے فرق ہار گئے ۔ اساتذہ کے حلقوں میں سے دو آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ان میں سے ایک کو مہا وکاس آگھاڑی کی حمایت حاصل تھی ۔ بی جے پی کو دھولیہ نندوربار کے حلقہ میں کانگریس چھوڑ کر اس میں آنے والے امیدوار امبریش پٹیل نے کامیابی دلائی ۔ امبریش پٹیل کو اب غلط پارٹی میں جانے احساس اور افسوس ہورہا ہوگا ۔ وہ دوبارہ لوٹ کر کانگریس میں آئیں گے تو پھر سے جیت جائیں گے ۔
بی جے پی کی اس ہار پر تبصرہ کرتے ہوئے مہاراشٹر کا نگریس کے جنرل سکریٹری وترجمان سچن ساونت نے نامہ نگاروں کو یاد دلایا کہ سنگھ پریوار مہاراشٹر وکاس اگاڑھی سرکار کو ’امر،اکبر، انتھونی‘ کی حکومت قرار دے کر تضحیک کیا کرتا تھا ۔ لیکن جس طرح امراکبر انتھونی فلم ہٹ ہوئی تھی اسی طرح کانگریس، این سی پی وشیوسینا کا امتزاج بھی کامیاب ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا قانون ساز کونسل کے نتائج سے ثابت ہوتا ہےکہ امراکبرانتھونی کے اشتراک نے رابرٹ سیٹھ کو کراری شکست سےدوچار کردیا ہے۔ سچن ساونت نے بی جے پی کو جمہوریت کے لیے خطرناک قرار دیا اور اس کو اقتدار سے دور رکھ کر قومی مفادات کی خاطر کانگریس، این سی پی وشیوسینا کے اشتراک عمل کی ضرورت پر زور دیا۔ اس انتخاب میں این سی پی کو دونوں مقامات پر زبردست فرق کے ساتھ کامیابی ملی مگر اس کے رہنما شرد پوار نے اس کا کریڈٹ یکساں طور تمام فریقوں میں تقسیم کیا نیز ناگپور میں کانگریس کی کامیابی کو قومی رحجان کی تبدیلی کا غماز بتایا ۔
اس تناظر میں کابینی وزیر برائے اقلیتی بہبود نواب ملک کا یہ بیان درست معلوم ہوتا ہے کہ مہاداشٹر میں بی جے پی کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس انتخاب میں مہاوکاس اگھاڑی کے امیدوراوں کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ تعلیم یافتہ رائے دہندگان اگھاڑی حکومت کے قیام اور اس کے ایک سال کے کام کاج سے مطمئن ہیں۔ نواب ملک نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی عام لوگوں کی نہیں بلکہ صنعتکاروں وسرمایہ داروں کی پارٹی ہے اور ان کے مفاد کی نگہبانی کرتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دیگر پارٹیوں سے نکل کر بی جے پی میں شامل ہونے والےرہنماوں کو وہ اطمیان دلاتے رہے ہیں کہ ریاست میں جلد ہی ان کی حکومت قائم ہوگی، مگر اس انتخابی ہزیمت کے بعد اب ان کے حوصلے پست ہوگئے ہیں جس کا اثر تنظیمی سطح پر بھی ظاہر ہوگا۔ القصہ مختصر یہ کہ آج مہاراشٹر میں رابرٹ سیٹھ کا جو حال ہوا ہے کل دلی کے ڈان اور اس کے نٹور لال کا بھی یہی حشر ہوگا۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری )
Comments are closed.