ہماری زندگی میں دین کے دو اہم مراکز

محمد صابر حسین ندوی
7987972043
قافلہ سے جو الگ ہوجائے اسے بھیڑئے اپنا شکار بنا لیتے ہیں، جس نے صحیح خطہ چھوڑ دیا وہ بھٹک جاتا ہے، شاہ راہ کو ترک کرنے والا گلیوں، کوچوں اور تنگ راہوں میں حیراں ہوجاتا ہے، اسی طرح اگر انسان اپنے مرکز سے دور ہوجائے، نقطہ اصل کو کھودے، تو اس کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے، جب اصل اور جڑ ہی ہاتھ سے چھوٹ جائے تو پھر راہ کی گرد، شاخوں کی گرفت اور تل چھٹ اسے کوئی سہارا نہیں دے سکتے، بالخصوص اسلام کو ماننے والے توحید، سنت، قرآن و رسالت کے دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں، جنہیں زمینی طور پر برتنے کیلئے بھی کچھ اہم مقامات بھی ہیں، جن میں مسجد تو ہے ہی؛ کیوں کہ یہ اللہ تعالی کے نزدیک دنیا میں سب سے محبوب جگہ ہے، اور اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی سرزمین سب سے پہلی فکر تعمیر مسجد نبوی کی فرمائی، تو وہیں تعلیم و تعلم کی آماجگاہ، انسانی تراش و خراش اور اشرف المخلوقات بنانے والی یونیورسٹی، کالج، مدرسہ اور مرکز صفہ کی حیثیت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے، اسلام کے اس طویل ترین تاریخ میں یہ دونوں ہی عناصر ہمیشہ شیر و شکر رہے اور مسلمانوں کی زندگی میں نمایاں کردار عطا کرتے رہے، مساجد کی شکلیں، شباہتیں بدلتی رہیں مگر اس کی حقیقت، روح اور فیض برابر جاری رہا، تعلیمی نظام اور تحریک بھی اپنے نام اور قالب کے اعتبار سے ہمیشہ ایک نئی صورت لیتے رہے؛ لیکن اس کی اصلیت یعنی انسان سازی، انسانیت اور محبت کا چشمہ جاری کرنے اور پوری انسانیت کو ہدایت و رشد اور نور الہی سے روشناس کرانے کی کوشش ختم نہ ہوئی، اور پھر ان میں موجودہ دور کی مادیت میں اپنی لاکھ کوتاہیوں اور انتظامی کمیوں کے باوجود مدارس کی اہمیت سے کیسے غفلت برتی جاسکتی ہے، غور کیجئے! آج مسلمانوں کا اگرچہ زوال ہے، شاید ہی دنیا کا کوئی گوشہ ہو جہاں سے قابل اطمینان باتیں سننے کو ملتی ہوں، مساجد اور تعلیم گاہیں بالخصوص مدارس دہشتگردی کی آڑ میں نیزے پر ہیں، انہیں شکست خوردہ اور لایعنی بنا کر مسلمانوں کو ان کے مراکز سے دور کرنے کی انتھک کوشش جاری ہے، سچ جانئے! مادیت، شیطانیت اور روحانیت سے دور بھاگتی دنیا میں اگر یہ دونوں مراکز نہ ہوں تو خیر و صلاح کا نور آنکھوں کو چبھنے لگے اور انسانیت کہیں دور پڑ جائے، استاد گرامی قدر فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ نے ان دونوں شعبوں کو دین کے اہم مراکز میں شمار کرتے قابل قدر باتیں تحریر فرمائی ہیں، آپ فرماتے ہیں:
ہماری زندگی میں دین کو قائم رکھنے کے بنیادی طور پر دو مراکز ہیں: مسجدیں اور مدرسے، مسجدیں اصل میں تو مسلمانوںکے ہمہ مقصدی مراکز ہیں، عہد نبوی میں مسجدیں تعلیم گاہ بھی تھیں، یہ صلح سینٹر بھی تھے، جس میں مسلمانوں کے باہمی اختلافات طئے کیے جاتے تھے، یہیں عدالتیں قائم ہوتی تھیں اور ہر طرح کے فیصلے ہوتے تھے، امور سلطنت پر مشورے ہوتے تھے، جنگ و امن کے فیصلے کئے جاتے تھے، غرض کہ مسلم سماج اوراسلامی مملکت کے تمام ضروری امور یہیں طئے ہوا کرتے تھے، آہستہ آہستہ مسجدوں کی یہ ہمہ گیر خدمت محدود ہوتی گئی؛ لیکن اب بھی یہ مسلم سماج کا ایک اہم مرکز ہے، اور کم سے کم چار ضروری کام مسجدوں ہی سے انجام پاتے ہیں: اول: نماز اور اعتکاف جیسی عبادت، دوسرے: اصلاح معاشرہ اور مبادیات دین کی دعوت، جمعہ کا تو اس سلسلہ میں ہے ہی بہت اہم رول؛ لیکن اس کے علاوہ درس قرآن، درس حدیث اور فقہی مسائل کی رہنمائی کے لئے بھی مسجدیں ہی سب سے اہم مراکزہیں، تیسرے: مسلمانوںکے باہمی ربط کو باقی رکھنے میں بھی مساجد کا اہم کردار ہے، چوتھے: مکاتب کے ذریعہ بنیادی دینی تعلیم کا انتظام، مسلمان کو دین سے جوڑے رکھنے میں ان کاموں کا اہم حصہ ہے۔مدارس کا وجود یوں تو ہر جگہ اہم ہے؛ لیکن جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں، وہاں تو ان کی حیثیت شہ رگ کی ہے، ہندوستان میں مدارس کا قیام ہی اس پس منظر میں ہوا کہ مسلمانوں کو فتنئہ ارتداد سے بچایا جائے اور دین پر ثابت قدم رکھا جائے،موجودہ حالات میں مدارس بھی دین کے چار بنیادی کاموں کو انجام دے رہے ہیں اور شب و روز ان مقاصد کے لئے افراد کار تیار کرنے میں مشغول ہیں: اول: دین کی اعلی تعلیم، دوسرے: احکام شریعت کی تحقیق؛ تاکہ لوگ اس بات کو سمجھ سکیں کہ اسلام زندگی سے مربوط نظامِ زندگی ہے، اور ہر عہد میں رہنمائی کی صلاحیت رکھتا ہے، تیسرے: اسلام کا دفاع اور اسلام کے خلاف اٹھائے جانے والے فتنوں کا علم اور دلیل کے ذریعہ رَد، چوتھے: دینی تحریکات کی علمی وفکری مدد اور ان کے لئے افرادی وسائل کی فراہمی، مدارس کے نصابِ تعلیم اور نظامِ تربیت میں قدم قدم پر ان ا مور کا لحاظ رکھا گیا ہے، اور اس میں شبہ نہیں کہ مدارس ان تمام کاموں کو بڑی حد تک خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔” (شمع فروزاں – ١٦/١٠/٢٠٢٠)
Comments are closed.