Baseerat Online News Portal

آمدنی ” آٹھ آنہ” اور خرچ روپیہ

 

نور اللہ نور

ہمارے ملک کی حالت اور عزت مآب وزیراعظم کے کارنامے دیکھ کر مجھے یہ محاورہ سچ ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ ہم نے گزشتہ چھ سات سالوں میں کمایا تو کچھ نہیں مگر بہت کچھ گنوا بیٹھے جس کی تلافی ممکن نہیں۔
اب دیکھیں! کہ ہم ابھی بھی کورونا کی ویکسین تیار نہیں کر سکے؛ اس سے نجات کے لئے کوئی حتمی لائحہ عمل تیار نہیں کیا؛ بلکہ پورا ملک اب بھی اس کے خوف سے ہراساں ہے ان سب پر توجہ کے بجائے ہمارے پردھان منتری جی نے نئے ایوان کی سنگ بنیاد رکھ دی ہے جس کا تخمینہ اتنا ہے کہ اگر اسے درست استعمال میں لایا جائے تو یقینی طور پر کچھ ریاست کو بھکمری سے آزادی مل سکتی ہے۔

مودی جی نے جب سے اقتدار میں قدم رکھا ہے کوئ بھی ایسا کام انجام نہیں دیا جو تسکین خاطر کے لیے کافی ہو بلکہ اس کے برعکس انہوں نے ہمیشہ ملک اور ملک کے باشندے کو اذیت میں ڈالا ہے اور احمقانہ فیصلے سے سب کے مشقت میں اضافہ کیا ہے۔
مودی جی کا موجودہ کارنامہ کوئ تعجب خیز امر نہیں ہے بلکہ انہوں نے تو اس وقت بھی جس وقت ملک معاشی بحران سے گزر رہا تھا اور ہماری معیشت حاشیے پر کھڑی تھی اس وقت انہوں نے وافر رقم صرف ایک مجسمے پر صرف کردی تھی اور آمدنی کچھ نہیں اور صرفہ ڈھیر سارا ان کا پرانا فارمولا ہے۔

پردھان منتری جی کے ضروری مسائل سے چشم پوشی اور غیر ضروری اقدام سے ملک کا کس قدر نقصان ہوگا اس کا اندازہ مشکل ہے اور ہم اتنے سال پیچھے چلے جائیں گے کہ جس کی تلافی ممکن نہیں ہوگی۔
مکان بنانے سے پہلے مکیں کی حالت پر غور کرنا چاہیے اور تدبر و تفکر کرنا چاہیے کہ اسے کن چیزوں کی حاجت ہے اور پیش آمدہ مسائل سے خلاصی کی سبیل نکالنی چاہیے اس کے ازالے کی تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔
صحیح بات یہی ہے کہ ہمارے ملک کو اس وقت نہ کسی پارلیمنٹ کی ضرورت ہے اور نہ ہی مندر و مسجد کی بلکہ اس وقت سب سے بڑا مسلہ کسب معاش ہے تعلیمی نظام میں اصلاح کی ضرورت ہے ، افلاس و بھکمری سے جنگ جیتنا ہمارا مقصد اصلی ہے اور بے آسروں کو چھت مہیا کرنا وقت کی ضرورت ہے
تعلیمی نظام پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو ناخواندگی کا تناسب گزشتہ سالوں سے کئی گنا بڑھا ہوا نظر آئے گا. تعلیم امیر و غریب سب کا یکساں حق ہے مگر ہمارے ملک میں امیر زادے تو تعلیم سے بہرہ ور ہو رہے ہیں مگر غریب عوام اب بھی تعلیم کی روشنی سے نابلد ہے اور اب تک ناخواندگی کی تاریکیوں میں گھری ہوئی ہے
ملک کا ہر جوان روزگار کا شکوہ لئے گھوم رہا ہے اور نوکری نہ ملنے پر حکومت سے نالاں بھی ہے مگر ہمارے پردھان منتری جی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ؛ ان کے اس عدم توجہی کا نہ جانے کتنی جوان شکار ہو چکے ہیں اور نوکری نہ ملنے کے ملال سے اپنی زندگی سے دستبردار ہوگئے
آج کے دور میں ملک کا ہر دوسرا شخص پریشاں ؛ نالاں اور اضطراب کا شکار ہے اور اپنے مسائل کے حل کے جستجو میں تگ و دو کرتے نظر آرہے ہیں۔
اور ایسا نہیں ہے یہ مسائل حال فی الحال پیش آمدہ ہیں بلکہ ہم ان مسائل سے گزشتہ کئی سال نبرد آزما ہیں اور ہمارے پریشانی کی ایک وجہ یہ ہیکہ موجودہ حکومت نے تو کوئ خاطر کام نہیں کیا اور جو پہلے سے لگے ہوئے پودے تھے ان کو بھی اپنے اجارہ دار دوستوں کے ہاتھ فروخت کر کے ہمیں مشقت میں ڈال دیا ۔
جب ملک اتنے مسائل سے جوجھ رہا ہو حالات میں سدھار کے کوئ امکان نہ ہو معاشی اعتبار سے حاشیے پر ہونے کے باوجود مندر کی تعمیر اور پارلیمنٹ کا سنگ بنیاد اس محاورے سے مختلف نہیں ہے کہ ( آمدنی آٹھ آ نہ اور خرچہ روپیہ ) حیرت ہوتی ہے کہ ملک کے لوگ بھکمری سے جان دے رہے ہیں ایسے وقت میں کوئ سنجیدہ شخص یہ کیسے سوچ سکتا ہے ؟
خلاصہ یہ ہیکہ ہماری آمدنی تو کچھ نہیں مگر خرچ اوقات سے زیادہ ہے اگر ملک کی یہی روش رہی تو مباداں کہ ملک قلاش اور توانگری کی فہرست میں سب سے نمایاں رہے گا کیونکہ جب اوقات سے پاؤں دراز کیا جاتا ہے رسوائی مقدر ہوتی ہے۔
خدا خیر کرے! اس ملک کا اور یہاں باشندوں کا

Comments are closed.