کیاسعودی امریکاتعلقات بدلنے جارہے ہیں؟

سمیع اللہ ملک
شایدہی کوئی سعودی شہزادہ عالمی سطح پراتنی تیزی سے ابھراہوجس طرح محمدبن سلمان کاعروج ہواہے اورشاہ فیصل کے بعد شاید ہی سعودی خاندان کے کسی فردکے متعلق دنیامیں اتنا تجسس پایاجاتاہوجتناولی عہدمحمد بن سلمان کے متعلق پایاجاتاہے۔ 31/اگست1985ء کوپیداہونے والامحمدبن سلمان موجودہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیزالسعودکی تیسری اہلیہ فہدہ بن فلاح کے سب سے بڑے صاحبزادے ہیں۔ہرکوئی ولی عہد کی اتنی تیزی سے قدامت پسندسعودی پالیسیوں میں جوہری تبدیلی کے بارے میں جانناچاہتا تھا۔2013 ء میں مغربی صحافی فرینک گارڈنرکوجدہ میں خودکومحض ایک وکیل کے طورپرمتعارف کروایالیکن آج وہ طاقتورعرب دنیاکاسب سے طاقتورشخص بن کرسعودی بادشاہ کے اہم فیصلوں کی پشت پرنظرآتاہے اوراب حقیقی طورپر تخت سے ایک ہی قدم کی دوری پرہے۔
انہیں2009میں اپنے والدکامشیرِخصوصی مقررکیاگیاجواس وقت ریاض کے گورنرتھے اورشہزادے کے سیاسی سفرمیں ایک اہم موڑاپریل2015میں اس وقت آیاجب شاہ سلمان نے اپنی جانشینی کی قطارمیں نئی نسل کوشامل کیااوراپنے سوتیلے بھائی مقرن بن عبدالعزیزکوہٹاکراپنے بھتیجے محمد بن نائف کوولی عہدمقررکیااوراپنے بیٹے محمد بن سلمان کونائب ولی عہد مقررکردیا۔محمدبن سلمان کی تخت تک رسائی ممکن بنانے کیلئے عارضی تبدیلی لائی گئی اورکچھ ہی عرصہ کے بعدمحمدبن نائف کوہٹاکرشہزادہ کوولی عہدمقررکردیاگیا۔اس طرح ولی عہد29برس کی عمرمیں نائب وزیرِاعظم کے ساتھ ساتھ وزیردنیاکاسب سے نوعمروزیردفاع بھی بن گیا۔وزارتِ دفاع کاقلمدان سنبھالتے ہی اپنے جنوبی ہمسایہ ملک یمن میں عملی طورپرجنگی کاروائیاں شروع کردیں اوراس وقت یمنی تنازع دراصل ایران اورسعودی عرب کے درمیان ایک خطرناک پراکسی وارکی شکل اختیارکرچکاہے۔یمن کی جنگ میں 2015 ء سے اب تک ہزاروں افرادہلاک ہوچکے ہیں جبکہ لاکھوں بھوک کی وجہ سے موت کے دہانے پرہیں لیکن ابھی بھی دونوں فریق جنگ روکنے کا نام نہیں لے رہے۔
ولی عہدنے ایک بہت بڑاجواکھیلتے ہوئے دوسرادہماکہ مئی2017میں کیاجب درجنوں شہزادوں،امرااورسابق وزراکوگرفتار کرنے کاحکم دیاجبکہ اس عمل سے شاہی خاندان کے رشتوں میں دراڑپڑسکتی تھی لیکن وہ نہ صرف اس میں کامیاب رہے بلکہ گرفتارکیے گئے شہزادوں اورامراسے پیسے بھی نکلوائے۔اس طرح سارے حریف راستے سے ہٹاکرولی عہد نے اپنی پوزیشن کوخاصامستحکم کرلیا۔ قدامت پسند ملک میں عورتوں کے حوالے سے کئی اہم اقدامات اٹھاکرمذہبی علما کیلئے تیسرادہماکہ کردیااورعورتوں کوگاڑی چلانے کی اجازت دینے کے ساتھ نہ صرف بغیرمردکفیل کے کاروبارشروع کرنے کا موقع دیابلکہ ایک خاتون سعودی عرب سٹاک ایکسچینج کی سربراہ بھی بن گئی۔آزادخیالی کاسلسلہ جاری رکھتے ہوئے پریل2018میں35برس بعد سعودی عرب کے سنیمامیں دوبارہ فلم دکھائی گئی،اورسعوی عرب میں ہزاروں میل رقبے پرپہلے اینٹرٹینمنٹ سٹی کے منصوبہ کااعلان کردیاگیاجس پر تیزی سے عمل جاری تھالیکن یمن جنگی اخراجات کی بنا پرتعمیرمیں تاخیرہورہی ہے۔
اس وقت ایک نئی امریکی انتظامیہ وائٹ ہاس میں آنے کی تیاری کررہی ہے اورنومنتخب صدرجوبائیڈن نے واضح کیا ہے کہ وہ کچھ سعودی معاملات پر اپنے پیش روسے زیادہ سخت مؤقف رکھیں گے۔امریکانے ٹرمپ کے دورحکومت میں عرب اسرائیل تعلقات کے سلسلے میں خاصی کامیابیاں حاصل کیں اب مزیدبازومروڑنے کیلئے سعودی قیادت اور بالخصوص طاقتورولی عہد کیلئے خاصے کٹھن اوربے چینی سے بھرپوردورکاآغازمتوقع ہے۔ولی عہدسعودی نوجوانوں میں آج بھی مقبول ہیں لیکن بین الاقوامی طورپر2018ء میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق شبہات دورنہیں کرسکے۔علاوہ ازیں وہ کون سے ایسے مسائل ہیں جوغورطلب ہیں اورواشنگٹن اورریاض میں انہیں کیوں اہمیت دی جا رہی ہے؟
یمن میں جاری جنگ ان تمام ممالک کیلئے ایک سانحے سے کم نہیں ہیں جواس کاحصہ ہیں تاہم اس کاسب سے زیادہ نقصان یمن کی غریب اورخوراک کی کمی کاشکارآبادی کواٹھانا پڑا ہے۔دراصل سعودی عرب نے اس تنازع کی شروعات نہیں کی تھیں،اس کا آغازحوثی باغیوں نے اس وقت کیاتھاجب وہ2014کے اواخرمیں یمن کے دارالحکومت صنعاتک مارچ کرتے ہوئے پہنچ گئے تھے اورانہوں نے ایک قانونی یمنی حکومت کاتختہ الٹ دیاتھا۔حوثی باغی دراصل ملک کے شمال میں موجودپہاڑی علاقے میں رہنے والے قبیلوں میں سے ہیں اوریہ ملک کی15فیصدسے بھی کم آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔
مارچ2015میں موجودہ ولی عہد اوراس وقت کے وزیرِدفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے خفیہ اندازمیں عرب ممالک کاایک اتحاد قائم کیااوربھرپورفضائی قوت کے ساتھ جنگ کاحصہ بن گئے۔انہیں امیدتھی کہ وہ چندہی ماہ میں حوثی باغیوں کوہتھیارڈالنے پر مجبورکردیں گے۔آج تقریباًچھ برس اورہزاروں افرادکی ہلاکتوں،نقل مکانی اوردونوں اطراف سے کیے جانے والے جنگی جرائم کے بعدبھی سعودی عرب کی سربراہی میں موجودیہ اتحادصنعااورگنجان آبادمغربی یمن سے حوثی باغیوں کونکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ایران کی مددسے حوثی باغیوں نے سعودی عرب پرمیزائل اورڈرون حملے بھی کیے اورسعودی عرب میں تیل کی تنصیبات کونشانہ بھی بنایاہے۔یہ تنازع یقیناایک مہنگاتعطل ہے اوراس حوالے سے وضع کیے جانے والے اکثرامن کے منصوبے ناکام ہوچکے ہیں۔
یمن جنگ کے باعث جہاں ہلاکتیں ہورہی ہیں وہیں سعودی عرب اورایران کے خزانے سے اس جنگ پرایک خطیررقم بھی خرچ ہورہی ہے اوربین الاقوامی میڈیامیں اس حوالے سے شدیدتنقیدبھی کی جارہی ہے۔سعودی قیادت اس جنگ سے پروقاراندازمیں نکلنا چاہتی ہے تاہم ان کامؤقف ہے کہ وہ اس جنگ کاحصہ اس لیے بنے تھے تاکہ’’اپنی جنوبی سرحدپرایران کے بڑھتے اثرورسوخ کوروک سکیں‘‘اس لیے وہ ایرانی حمایت یافتہ مسلح ملیشیاکواقتدارمیں نہیں دیکھ سکتیتاہم اس حوالے سے اب سعودی عرب کے پاس وقت خاصا کم رہ گیاہے۔
2016ء تک اپنی صدارت کے اواخرمیں سابق امریکی صدراوباماسعودی عرب کوامریکی حمایت دینے سے پیچھے ہٹ رہے تھے۔ جب ٹرمپ اقتدارمیں آئے توانہوں نے آتے ہی اس پالیسی کوختم کرکے ریاض کادل جیتنے کیلئے وہ تمام خفیہ معلومات اوراشیامہیا کیں جس کی انہیں ضرورت تھی،دراصل ٹرمپ کی یہ پالیسی دومسلمان ملکوں کے مابین خونریزجنگ جاری رکھنے کی تھی جیساامریکانے عراق اورایران کے مابین جنگ میں گھناؤناکرداراداکیاتھاتاہم اب بائیڈن انتظامیہ نے یہ عندیہ دیاہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔اس جنگ کوجیسے تیسے ختم کرنے کے حوالے سے دباؤبڑھ رہاہے۔
دوسرااہم مسئلہ جو سعودی قیادت کیلئے بین الاقوامی تعلقات عامہ کی حیثیت میں ایک سانحے سے کم نہیں،وہ سعودی جیلوں میں ان13خواتین سماجی کارکنوں کاہے اورکچھ کیسزمیں تو ان پرتشددبھی کیاگیاہے حالانکہ ان کاظاہری جرم صرف یہی تھاکہ وہ خواتین کیلئے ڈرائیونگ کاحق یامردوں کی سرپرستی کے غیرمنصفانہ نظام کاخاتمہ چاہتی تھیں۔اب تک 13 پرامن سعودی خواتین سماجی کارکنان میں سے متعدد ایسی بھی ہیں جنہیں2018ء میں خواتین پرسے ڈرائیونگ کرنے کی پابندی ہٹانے سے کچھ عرصہ قبل گرفتارکیاگیاتھا،جیسے مقبول سماجی کارکن’’ لجین الھذلول‘‘لیکن سعودی حکام یہ دعوی ٰکرتے ہیں کہ لوجین الھذلول جاسوسی کرنے کی مرتکب ہو چکی ہیں اوراس ضمن میں’’غیرملکی قوتوں سے رقم بھی لے چکی ہیں‘‘ لیکن اس حوالے سے ان کی جانب سے کوئی ثبوت سامنے نہیں آئے۔ان کے دوست بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایک غیرملکی انسانی حقوق کی کانفرنس میں شرکت کرنے اوراقوامِ متحدہ میں نوکری حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔
ان کے خاندان کی جانب سے ملنے والی معلومات کے مطابق ان پرتشددکیاگیاہے،انہیں بجلی کے جھٹکے دیے گئے ہیں،حراست کے دوران ریپ کرنے کی دھمکی دی گئی ہے اورجب ان سے آخری ملاقات ہوئی تووہ بری طرح سے کانپ رہی تھیں۔ یمن جنگ کی طرح یہ وہ گڑھاہے جوسعودی قیادت نے اپنے لیے خودکھوداہے اوراب وہ جیسے تیسے اس سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اتنے لمبے عرصے تک کوئی ایساثبوت منظرعام پرلائے بغیران خواتین کوحراست میں رکھنا،جس کی ملک کی آزاد عدالتوں میں کوئی اہمیت ہو،سعودی قیادت کے پاس اب اس سے نکلنے کا سب سے واضح حل ایک عام معافی ہے۔عین ممکن ہے کہ بائیڈن انتظامیہ بھی اس مسئلے کواجاگر کرے گی۔
تیسرااہم مسئلہ قطری بائیکاٹ کاہے جوظاہری طورپرتوپردے کے پیچھے کویت کی جانب سے کی جانے والی جامع ثالثی کے بعد حل ہونے کوہے تاہم اس مسئلے کی جڑیں خاص گہری ہیں ۔2017میں ٹرمپ کے ریاض کے دورے کے کچھ ہی روزبعدسعودی عرب نے متحدہ عرب امارات،بحرین اورمصر کے ساتھ مل کراپنے خلیجی ہمسائے قطرکابائیکاٹ کرنے کا اعلان کردیاتھا۔وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ قطراسلام پسندگروہوں کی حمایت کررہاہے جودہشتگردی کے مترادف ہے اورناقابل قبول ہے۔متحدہ عرب امارات کی جانب سے دستاویزات کاایک مفصل مجموعہ بھی شائع کیاگیاجس میں ان مبینہ دہشتگروں کاذکرتھاجوقطرمیں مقیم ہیں تاہم قطر کی جانب سے دہشتگردی کی حمایت کرنے کے الزام کومستردکیاگیا۔انہوں نے ان چارممالک کے مطالبوں پرعمل کرنے سے بھی انکارکیاجن میں ملک کے ٹی وی براڈکاسٹرالجزیرہ کومحدودکرنے کامطالبہ بھی شامل تھا۔
یمن کے حوثی باغیوں کی طرح قطری حکومت سے بھی یہی توقع کی گئی تھی کہ وہ بالآخر گھٹنے ٹیک دیں گے جوغلط ثابت ہوئی۔اس کی ایک وجہ ان کے پاس موجوددولت کی فراوانی ہے ۔ قطرکے پاس سمندر میں گیس کے ذخائرہیں اوراس نے صرف برطانیہ کی معیشت میں40ارب پانڈکی سرمایہ کاری کی ہے اوروہ ترکی اورایران کی مددبھی کرتاہے۔اسی کے باعث مشرقِ وسظی میں ایک واضح دراڑ دکھائی دے رہی ہے۔ ایک طرف توقدامت پسند سنی اکثریتی خلیجی ممالک سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،بحرین اورمصرہیں جبکہ دوسری جانب قطرترکی اورمتعددسیایسی اسلام پسندتحریکیں جن کی یہ دونوں حمایت کرتے ہیں جیسے اخوان المسلمین اور حماس۔ان تحریکوں کو یہ چار ممالک اپنی سالمیت کیلئے خطرہ سمجھتے ہوئے تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ساڑھے تین سال طویل قطری بائیکاٹ دونوں اطراف کے ممالک کیلئے معاشی اورسیاسی اعتبارسے نقصان دہ ثابت ہوا ہے لیکن اس بہتی گنگامیں امریکااورمغربی ممالک نے خوب مال کمایاہے اوربدقسمتی سے یہ ممالک اس جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔
اس بائیکاٹ نے عرب خلیجی ممالک کے اتحادکوبھی کمزورکیاہے جبکہ عرب خلیجی ممالک کی قیادت میں ایران کے جوہری اورمیزائل پروگرام کے حوالے سے بڑھتی تشویش پائی جاتی ہے حالانکہ اس سوچ کوتبدیل ہونے کی اشدضرورت ہے۔بظاہرتو ٹرمپ کایہودی نژادداماداورسفارتی نمائندہ جیرڈکشنر مشرقِ وسطی میں اس بائیکاٹ کے خاتمے کیلئے کوشاں رہاہے
اور بائیڈن انتظامیہ بھی اس کافوری حل چاہے گی۔قطرالعبید میں پینٹاگان کی سب سے بڑے غیرملکی فوجی اڈے کی میزبانی کرتا ہے۔
تاہم مذاکرات کے دوران جن باتوں پر بھی اتفاق ہواان پرحقیقت میں عمل کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔ قطرکواپنے ہمسائیوں کو معاف کرنے اورانہیں قطرپراعتبارکرنے میں شاید برسوں لگ جائیں لیکن اپنے قارئین کیلئے سب سے اہم سوال یہ چھوڑکرجارہا ہوں کہ ورلڈآرڈرکے مطابق عرب بہارکے نام پرکئی مسلمان ملکوں کوتاراج کیاجاچکاہے اوراب عربوں سے سفارتی تعلقات استوارکرنے کے بعداسرائیلی مداخلت کیلئے خطرناک جوازپیداکرکے گریٹراسرائیل کاسفرآنکھوں سے محونہیں ہوناچاہئے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے2020 ء کی انسانی حقوق کی پامالی کی رپورٹ جاری کرکے مطلوبہ ٹارگٹ کا تعین توکرلیاہے لیکن کیاہی اچھاہوتاکہ خودامریکی حکومت کی طرف سے دنیابھرمیں انسانی حقوق کی پامالی کاتذکرہ بھی اسی شدومدسے کیاجاتا۔جوبائیڈن انتظامیہ کواس طرف بھی متوجہ ہوناچاہئے جس میں ان تمام سازشی عناصرکے ہولناک چہروں سے نقاب تارتارکئے جائیں اور یقیناً یہ ایک تاریخی دستاویزکادرجہ حاصل کرسکتی ہے۔
Comments are closed.