تاریخ کی تمام سرگرمیوں کا خلاصہ –  

 

محمد صابر حسین ندوی

*دنیا کی تخلیق اور انسان کا ان میں بسنا، آدم اور حوا علیھما السلام سے لے کر اکیسویں صدی کا زمانہ، پتھر، لاٹھی، لوہا اور ذرات تک کا سفر یہ سب یونہی وجود پذیر نہیں ہوگیا، اللہ تعالی نے دنیا میں تمام خزانے رکھ کر انسان کو کنجی کے طور پر عقل، سوجھ بوجھ اور فہم و ذکاوت عطا کی اور اسے مکلف بنایا کہ اپنی محنت، جستجو اور لگن سے ان تالوں کو کھولتا جائے، خزانے حاصل کرتا جائے، نعمتوں کی گنگا بہاتا جائے، ترقی کے نئے معیار طے کرتا جائے، ایسے میں اگر آپ غور کریں گے تو یقیناً پائیں گے کہ دنیا میں ہر دور کے اندر انسانوں نھ انتک کوشش اسی بات کی ہے؛ کہ وہ کیسے دنیا کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں، وہ دنیا کی رعنائی، دلکشی اور رنگ محبت و بو میں کیسے نئے نئے زاویے پیدا کرسکتے ہیں، انسانی سہولت اور زندگی کی مشکلیں کو کیوں کر آسان کیا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کوئی صدی اور کوئی دور ایسا نہیں ملتا جس میں جینیس پیدا نہ ہوئے ہوں، وہ اعلی دماغ نہ ہوں جنہوں نے فکر و فن کا مفہوم ہی بدل کر رکھ دیا، اور زندگی کو ایک نئے دھارے پر ڈال دیا، اگر انبیاء کرام علیھم السلام کے عہد سے کوئی دور خالی بھی رہتا تب بھی اندھیرے میں چراغ کے مثل کچھ روشن اور منور دل خود کو جلاکر زمانے کو اجالا کر رہے تھے، انبیاء کرام نے بہرحال انسانیت کو سب سے اعلی مقام تک پہنچایا، روحانیت سے لے کر مادیت میں انہیں ترقی کی راہ سجھائی، وہ اگر نہ ہوتے تو ایک رب کی جستجو کے ساتھ ساتھ لوہے کو پگھلانا، پہاڑ کاٹ کر گھر اور راستے بنانا، کشتیاں بنانا وغیرہ بھی کہاں سے سیکھتے؟ یہی جد وجہد جس نے دنیا کو اس مقام سے ہمکنار کیا کہ اب اس میں عروج کی نئی نئی بلندیاں پائی جاتی ہیں، اور انہیں بنیادوں پر جدید تعمیراتی کام کئے جاتے ہیں، ایسا بھی نہیں ہے کہ ترقی کا یہ دور ختم ہوگیا ہے؛ بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ اب اس نے تیزی پکڑی ہے، اور ایسا مانا جاتا ہے کہ اگلے پچاس سالوں میں دنیا تکنیکی لحاظ سے حد درجہ ہائی ٹیک ہوجائے گی، اس ترقی میں اگر کوئی ایک شخص یا قوم اپنا حصہ متعین کرے اور دنیا کے عروج کو خود کی طرف منسوب کرے تو وہ لغو کام ہوگا، اگرچہ تناسب میں کمی و بیشی ہوسکتی ہے لیکن دنیا مشترک محنت اور دماغی کدو کاوش سے مالا مال ہورہی ہے، کوئی علاقہ، ملک اور قوم اس سے بانجھ نہیں ہے، بلکہ بانجھ سمجھنا اللہ تعالی کی مخلوق کو عبث جاننا ہے، مولانا وحیدالدین خان نے تاریخ کا تجزیہ نقل کیا ہے، اور ایک بہترین نتیجہ اخذ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:*

*”تاریخ کے ہر دور میں تمام سوچنے والے انسان ایک ہی آبسیشن (obsession) میں مبتلا رہے ہیں ——- موجوده دنیا کو کس طرح بہتر دنیا بنایا جائے- ہر دور کے انسانوں کا یہ ایک مشترک خواب رہا ہے- مذہبی لوگ اپنے اس خواب کے لیے صالح نظام کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں- اور سیکولر لوگ اس کو آئڈیل سسٹم کا نام دیتے ہیں- تاریخ میں جتنی کتابیں لکهی گئی ہیں، خواه وه فکشن هو یا نان فکشن، تقریبا ان سب کا خلاصہ یہی ہے- کوئی کتاب براه راست طور پر لکهی گئی ہے اور کوئی کتاب بالواسطہ طور پر اس موضوع سے متعلق ہے- یہ بهی ایک واقعہ ہے کہ تاریخ کی تمام سرگرمیوں کا نشانہ (goal) عملا یہی ایک تها- مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اس سلسلے کی تمام انسانی سرگرمیاں نتیجے کے اعتبار سے، ناکام هو کر ره گئیں، کوئی بهی کوشش اپنے مطلوب نشانے تک نہیں پہنچی، نہ سیکولر لوگ اپنا مفروضہ آئڈیل سسٹم بنا سکے اور نہ مذہبی لوگ اپنا مزکوره صالح نظام بنانے میں کامیاب هوئے- یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا سوال ہے- اس سوال کا جواب معلوم کرنا خود انسان کی وجود کی معنویت کو معلوم کرنا ہے اور بلاشبہہ اس سے بڑی کوئی دریافت نہیں هو سکتی کہ انسانی وجود کی معنویت کو حقیقی طور پر دریافت کیا جائے- سیکولر مفکرین اور مذہبی مصلحین کی اس عمومی ناکامی کا سبب یہ ہے کہ ان کا منصوبہ خالق کے منصوبہ تخلیق سے مطابقت نہیں رکهتا تها، اور جو منصوبہ خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق نہ هو، اس کے لیے دنیا میں ناکامی کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں-خالق کے منصوبے کے مطابق، یہ دنیا ایک جوڑا دنیا (pair world) کی صورت میں بنائی گئی ہے- ایک دنیا دوسری دنیا کا تکملہ (complement) ہے- اس تخلیقی منصوبے کے مطابق، کره ارض (planet earth) کی حیثیت ایک وقتی نرسری کی ہے، اور دوسری دنیا کی حیثیت ایک ابدی باغ (eternal garden) کی، جس کو معروف طور پر جنت (paradise) کہا جاتا ہے-"* (الرسالہ، مئی 2014)

 

 

Comments are closed.