گناہ سے بچنا اور بچانا دونوں ضروری ہیں !

(یہ تحریر خاص طور پر علاقہ کے علماء کرام ، اصحاب دانش اور حفاظ کرام کی خدمت میں پیش ہے)
محمد قمر الزماں ندوی ۔۔۔۔۔۔۔
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725
آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی و رسول تھے ، قرآن مجید نے آپ کو خاتم النبیین کا لقب دیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے آخری نبی ہونے اور آپ پر نبوت کا اختتام ہوگیا ہے ،بار بار اس کا تذکرہ فرمایا ہے ، ایک موقع پر فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوسکتا تھا تو وہ عمر تھے ، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔
نبوت کا سلسلہ تو ختم ہوگیا اور ختم نبوت پر ہم سب کا حتمی ایمان و یقین ہے ۔
لیکن کار نبوت یہ ختم نہیں ہوا ہے ، یہ قیامت تک چلتا رہے گا ، اور نبوت والا کام یعنی معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا یہ کام علماء کے ذمہ اصلا رکھا گیا ہے اور ان کو سپرد کیا گیا ہے اور پھر ان کے بعد پوری امت مسلمہ کو اس کی حیثیت کے مطابق یہ ذمہ داری دی گئی ہے، کہ وہ بھی اس دعوتی ذمہ داری کو ادا کریں، کیونکہ یہ امت ، امت دعوت ہے ، اسی دعوت و تبلیغ کے لئے یعنی معروف کے حکم اور منکر کی نکیر کے لئے ، اس امت کی بعثت ہوئی ہے۔
علماء کرام یہ جانشین انبیاء اور نائبین رسول ہیں ، ان کے ذمہ وہ سب کام سپرد ہیں، جو ان انبیاء کرام اور رسولان عظام کیا کرتے تھے، اور جس فریضہ کو وہ انجام دیتے تھے ۔
اس وقت دیکھا یہ جارہا ہے کہ طبقئہ علماء اپنے فرض منصبی اور اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برت رہے ہیں اور معروف کا کام تو کچھ حد تک انجام دیتے ہیں ، لیکن منکر پر نکیر نہیں کرتے اور برائی سے معاشرہ کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے، بلکہ بعض جگہ منکر کے کاموں میں خود شریک رہتے ہیں، اور اپنی پوری برادری کو ملوث رکھتے ہیں اور اس کو سیاسی مجبوری کا نام دیتے ہیں اور اس کو فخریہ اپنی عقلمندی و دانش مندی بتاتے ہیں، جبکہ بعض علماء کرام پہلو تہی اپناتے ہیں کہ مجھے ان جمھیلوں میں نہیں پڑنا ہے ، جو جیسا کرتا ہے ،کرے ، مجھے کوئی مطلب نہیں، وہ عافیت چاہتے ہیں اور شہر میں مکان بنا کر اپنے بیوی بچوں میں مست ہیں ، انہیں کبھی احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم فارغین ندوہ دیوبند مظاہر اور شاہی ہیں، ہماری بھی کچھ ذمہ داری ہے، اور جو کچھ ہیں، انہیں اداروں کی وجہ سے ہیں ، ایک تعداد تو ان علماء کی ہے جو بڑے بڑے ادارے سے فارغ ہیں اور اب سرکاری ملازمت کررہے ہیں ، انہوں نے تو اپنی شباہت اور شکل و صورت بھی بدل ڈالی ہے ، ان میں اور عام آدمی میں کوئی فرق ہی نہیں معلوم پڑتا ، محسوس ہی نہیں ہوتا کہ دیوبند ندوہ مظاہر اور شاہی کے خوان علم سے انہوں نے استفادہ اور خوشہ چینی کی ہے ۔
بھاگلپور ، بانکا، مہگاواں ، سنہولہ، گڈا ، پتر گاواں مہرما اور آس پاس کے جتنے بلاک ہیں ، اس کے تحت جتنے گاؤں ہیں ، وہاں سے محرم الحرام جیسے پاکیزہ مہینے میں رسوم و رواج اور اوھام و خرافات، ناچ گانے ڈھول تماشے اور ڈیجے پر تڑھکنے اور ناچنے کی جو خبریں مل رہی ہیں ، اس نے سر شرم سے جھکا دیا اور افسوس کہ اس میں ایک بڑی تعداد داڑھی کرتے والے بلکہ علماء اور حفاظ کی بھی تھی ۔ ہم سب دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم علماء دیوبند کے مسلک پر ہیں اور اپنے اکابرین سے محبت کرتے ہیں ، ہمارا دعویٰ ہے کہ اس علاقہ پر تبلیغی جماعت،دیوبند اور ندوہ و مظاہر کی چھاپ ہے ۔
ہمیں یہ کہتے وقت اپنے گریبان میں جھانکنے کی بھی ضرورت ہے کہ میرا یہ دعویٰ صحیح بھی یا صرف زبانی جمع خرچ ہے ۔
میں خود بھی مجرم ہوں اور اپنی غلطی اور جرم کا اعتراف کرتا ہوں کہ خود ہم نے بھی اپنے علاقہ کی اصلاح کے لیے کچھ نہیں کیا اور اپنے فرض منصبی کو ادا نہیں کیا ۔ وطن سے دوری ، بچوں کی مجبوری، معاش کی فکر اور اب طبیعت کی ناسازی بھی اس میں آرے آرہی ہے ۔
لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ علاقہ کے علماء حفاظ کرام، اصحاب دانش ،اور تمام معلمین و اساتذہ اس برائی اور خرافات کے خاتمہ کے لیے کھڑے ہوں اور منکر پر نکیر کیسے ہو ؟ اس کے لئے مل بیٹھ کر سوچیں ۔ میں ہر طرح سے اس کے لئے تیار ہوں اور مجھ سے جیسی قربانی، دامے درمے قدمے اور سخنے چاہیں گے ،میں دینے کے لیے تیار ہوں ۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام سے دین سے تو ہمارا رشتہ کمزور ہو رہی رہا ہے ، اپنے اکابر علماء اور مشائخ سے اور دیوبند ندوہ و مظاہر سے بھی ہمارا رشتہ کمزور ہو رہا ہے ، ہم اپنے بڑوں کی تربیت اور رہنمائی سے کافی دور ہیں ۔
اس لئے ضرورت ہے کہ علماء کرام اکابر ملت سے ہمارا رشتہ مضبوط ہو ، ان کی آمد و رفت کا سلسلہ اس علاقہ میں کثرت سے ہو ، ہم ان سے جڑیں اور گاؤں میں ان کے نقش قدم پڑیں، ان کے بیانات یہاں کثرت سے ہوں اور ان سے اپنا روحانی تعلق جوڑیں اور استوار کریں ۔
اس سلسلہ میری رائے ہے کہ حضرت مولانا سید محمد ارشد مدنی صاحب ، حضرت مہتمم صاحب دار العلوم دیوبند مولانا ابو القاسم نعمانی ، مولانا راشد صاحب ، مولانا سلمان بجنوری صاحب، مہتمم صاحب دار العلوم دیوبند وقف مولانا سفیان صاحب قاسمی مولانا عبد اللہ مغیثی صاحب ، مولانا سید بلال ندوی صاحب، مولانا زکریا صاحب، ندوی قاسمی ، مولانا سید محمود مدنی صاحب، مولانا اخلد رشیدی صاحب اور بھی جتنے ہمارے بڑے ہیں، ان کو باری باری علاقہ میں بلائیں ،ان کا دورہ اور ان کے بیانات کرائیں۔۔
محترم علماء کرام !
میں خاص طور پر آپ سب سے مخاطب ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام نے جہاں خود گناہ سے بچنے کی تلقین کی ہے، وہیں دوسروں کو گناہ سے بچانے کی بھی تعلیم دی ہے۔ ایک عالمِ دین کی ذمہ داری صرف یہی نہیں کہ وہ خود گناہوں سے بچے، بلکہ یہ بھی لازم ہے کہ اس کا کوئی قول، فعل، یا طرزِ عمل کسی دوسرے کے گناہ میں مبتلا ہونے کا سبب نہ بنے۔
حضرت امام اعمشؒ (وفات: 148ھ) اور حضرت امام اعرجؒ (وفات: 117ھ) اپنے وقت کے جلیل القدر محدثین اور علما میں شمار ہوتے ہیں۔ "اعمش” کا معنی ہے: جس کی بینائی میں ضعف ہو یا بھینگا ہو، اور "اعرج” کا مطلب ہے: لنگڑا۔ امام اعرج، امام اعمش کے استاد تھے، اور یہ دونوں اکثر ساتھ بازار جایا کرتے تھے۔
لوگ ان کے ناموں اور جسمانی کیفیت کو لے کر آوازیں کستے: "اعمش اعرج، لنگڑا بھینگا!” ان حضرات نے طویل عرصے تک اس کی پروا نہ کی، مگر جب تمسخر حد سے بڑھ گیا تو امام اعمشؒ نے اپنے شاگرد سے فرمایا:
*بیٹا! اب تم میرے ساتھ مت چلا کرو، لوگ ہمیں دیکھ کر مذاق اڑاتے ہیں، اور اس طرح وہ گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔*
شاگرد نے سادگی سے جواب دیا:
"حضرت! اس میں ہمارا کیا قصور؟ اگر لوگ گناہ کرتے ہیں تو وہ خود ذمہ دار ہیں، ہم کیوں اپنی صحبت ترک کریں؟
اس پر امام اعمشؒ نے نہایت بصیرت افروز بات ارشاد فرمائی:
*بیٹا! عالم کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی گناہ سے بچے اور دوسروں کو بھی گناہ سے بچائے۔ نیز، کوئی ایسی بات، طرزِ عمل یا رویہ بھی اختیار نہ کرے جو دوسروں کے گناہ کا سبب بنے۔ اگر ہمارا ساتھ چلنا لوگوں کو گناہ میں مبتلا کرتا ہے، تو ہمیں علیحدگی اختیار کرنی چاہیے تاکہ وہ گناہ سے بچ سکیں۔*
عربی کا مقولہ ہے:
*کونو قُدْوَةً وَلا تَکُونُوا سَبَباً فِي الضَّلَالِ*
یعنی: "تم نمونہ بنو، گمراہی یا گناہ کا ذریعہ نہ بنو۔”
نوٹ/! (تحریر کا آخری حصہ مولانا ابن الحسن قاسمی کی تحریر سے مستفاد ہے)
Comments are closed.