موجودہ دور کی نئی نسل اور مدرانڈیا کا بیرجو

خصوصی تحریر :سعید پٹیل جلگاؤں
موجودہ دورکے پیچیدہ حالات کے تعلق سے یا اس کے پس منظر میں موجودہ دور کی نئ نسل کا نوجوان کیاسوچتا ہے۔اس کے دل میں کس بات کا ڈر پیدا ہوگیاہے۔اس کے خواب کیا ہے۔اس کی تعبیر کیا ہوسکتی ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ نوجوان بھارت میں ہے۔لیکن کیا یہاں کی نوجوان نسل واقع بیراہروی کا شکارہیں۔؟ بیروزگار ہیں۔؟ ہنرسے خالی ہیں۔؟ یہ اور ایسے بیشمار سوالات آج کے سنجیدہ ذھن و دانشوروں کے ذھن میں آئے دن پیدا ہوتے رہتے ہیں۔لیکن ان کےلئے کیا کیاجاسکتا ہے۔اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ہاں نوجوانوں کا استعمال ہمارے ملک عزیز میں سبھی سیاسی جماعتیں چناؤ سے پہلے ماحول بنانے کےلئے بہت ہی اعلی ذہانت سے استعمال کرکے چناؤ میں فتح حاصل کرنے اور مقابل کو شکست دینے کےلئے بخوبی کرتی ہیں۔چار دہائی قبل کا نوجوان یا اس سے قبل کا نوجوان پورے گاؤں و قصبات کا بیٹا ہوا کرتا تھا۔وہ عوام کی بےلوث خدمت کیا کرتا تھا۔اسی طرح کسی کی بھی بیٹی پورے گاؤں اور علاقہ کی بیٹی ہوا کرتی تھیں۔یہ نوجوان نسل اس وقت کےسماج کے ساتھ بندھے ہوتے تھے۔اس وقت کی نوجوان نسل ملک ، قوم و سماج کے مستقبل کے تعلق سے سوچتا تھا۔ملک ، قوم و سماج کے نفع کے خواب دیکھتا تھا اور اس پر کام کرنا پسند کرتا تھا۔نقصان سے کیسا بچایا جاسکتا ہےاس کی اسے فکر ہوتی تھی۔وہ اپنے دور کے ظالموں ،جابروں کےطریقہ کار سے ناراض ہوکر سن ١٩٥٧ میں آئی فلمساز محبوب خان کی مشہور زمانہ فلم مدرانڈیا کا بیرجو کا کردار ادا کیا کرتا تھا۔سسٹم کو بہتر بنانے کےلئے انتظامیہ کا تعاون کیا کرتا تھا۔منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے اقدامات کیاکرتا تھا۔مدر انڈیا کا بیرجو یہ کردار مخالفت کا علامتی کردار تھا۔جس کی لڑائ مہاجن سہوکار کےساتھ تھی۔جو اس کے خاندان کو ستاتا ہے ۔اس لئے بیرجو سے سہوکار کا یہ ستانا اور ظلم کرنا برداشت نہیں ہوتا اور وہ باربار مہاجن کے خلاف ہوجاتا ہے۔لیکن اسے ایسا کرنے سے اس کی ماں اسےاعلیٰ اخلاقی تعلیم وتربیت کی روشنی میں روکتیں ہیں۔یہی برجو کا کردار بعد میں بہت سی فلموں ، ڈراموں ،کہانیوں اور افسانوں کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کرتارہا اور اس دور کے نوجوانوں میں امید پیداکرنےاور جوش بھرنے کے کام کرتا رہا۔لیکن گذشتہ تین دہائیوں کے اور موجودہ دور کی نئ نسل کا نوجوان سماج ،ملک اور قوم کےلئے ایسا کرتے ہوئے نظر نہیں آتا ہے۔آج وہ سستی شہرت ، عاشق و معشوق ،چمک دمک ،بیراہروی ،بوریت ، مایوسی ،چاپلوسی ،اپنے چہیتے نیتاؤں کی سالگرہ مناتے ہوئے دیکھائی دیتاہے۔وہ واٹس۔ایپ ،فیس بک اور ٹیوٹر کا ہیرو بناہوا ہے۔اس میں سوچ اور سمجھنےکا فقدان نظرآتا ہے۔اس کی نوجوانی کی عمر کا پہلا ہدف صرف اور صرف عاشق اور معشوق بنکر زندگی کو انجوائے کرنا ہے۔اسے سماج کی اخلاقی گراوٹ کو پٹری پرلانے کی کوئ فکر نہیں ہے۔وہ ایسا راستہ بھٹک گیاہےکہ وہ کسی کی بھی کوئ اچھی بات بھی سننے کوتیار نہیں۔اسے خود پتہ نہیں کہ وہ کیا کررہاہے ،کہاں جارہا ہے۔ملک عزیز کا سفینہ موجِ حوادث کی زد میں ہے۔کیا بزرگوں کی یوم سالگرہ منانے سے کوئ تقویٰ اور پرہیزگاری کی مسند پر جابیٹھتا ہے۔؟ آج مظلوم طبقات ،کسان ،مزدور ، ہاکرس ،غریب ،ضرورت مندوں ، تعصب ،سماجی اور مذہبی ،ذات و برادری کی بنیاد پر نفرت کے شکار افراد ، ادارے کشمکش سے دوچار ہیں۔ہر سو ں عوام میں خوف پایا جاتا ہے۔گنگاجمنی تہذیب کے معاشرے کو ایک عدد نہیں بلکہ بہت سے بیرجوں کی اشد ضرورت ہیں۔آج انسانیت سسک رہی ہیں۔ان کےپاس مسائل کا انبار لگاہوا ہے۔اسے امّید ہےکہ اس کے زخموں سے چھلنی جسم پرکوئی مرہم لگائے۔ کوئ تو ہو جو مفکر ، دانشور اور منصوبہ ساز قائد ہو جو قدرت کی پھیلی ہوئ زمین پرسکون و چین قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو۔تاکہ عام آدمی سکون کی زندگی جئیں ۔ایسے کاموں کےلئے آج کی نئ نسل کے نوجوان کو کمربستہ ہونا پڑےگا۔اعلیٰ اخلاقی تربیت کو قبول کرنا پڑے گا۔یہ سستی شہرت اور فضول کی وقت گذاری ترک کرنا ہوگی۔ہم سب مل کر باالخصوص سرپرست حضرات نئ نسل کے نواجوانوں کے عظیم سرمائے کی عصمت و عزت بچانے اور انھیں بےراہ روی سے محفوظ رکھنے کی فکر کریں۔
Comments are closed.