نئے پارلیمنٹ سے آرہی ہے ہندو راشٹر کی بو

ازقلم: امام علی مقصود شیخ فلاحی
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
قارئین! ملک ہندوستان ایک سیکولر ایکٹ کے تحت چلتا ہے، جسے آئین کی بیالیسویں ترمیم کے تحت 1976 میں نافذ کیا گیا تھا، جیسا کہ تمہید آئین ہند بھی اس بات پر دال ہے۔
گویا کہ ملک ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور سیکولر ملک ایسے ملک کو کہتے ہیں جہاں مذہب و ملت سے بالا تر ہوکر حکومت کی جاتی ہے، جہاں ذات پات سے الگ تھلگ ہوکر حکومت کی جاتی ہے، جہاں عوام کی خدمت اسکے شہری ہونے پر دی جاتی ہے نہ کہ ذات پات اور مذہب و ملت پر۔ سیکولر ازم ایک ایسا نظام عمل ہے جو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ ملک کا حاکم جب بھی کوئی تقریب رکھے تو اسے مذہب و ملت سے بالا تر ہوکر ادا کرے ورنہ سیکولر ازم کی جو سندرتا ہے وہ پژمردہ ہو جائے گی، سیکولر ازم ایک ایسا پھول ہے جو سارے باغیچے کو معطر رکھتا ہے، اور اسی میں سارے باغیچے کی تحسین برقرار رہتی ہے، اور اسی سے غنچے پھلتے اور پھولتے ہیں اور ترقی پر ترقی ہوتی چلی جاتی ہے، دوسری جگہوں پر اسکی واہ واہی شروع ہوجاتی ہے، لیکن جب سیکولر ازم کو پس پشت رکھا جاتا ہے اور اسکی دھجیا اڑا کر کوئی عمل کیا جاتا ہے تو ملک ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے، اسکی خوبصورتی میں رعنائی آجاتی، اسکی معطر کلیاں متعفن شئی میں متغیر ہو جاتی ہے، اور اسکی واہ واہی بھی رسوائی میں تبدیل ہو جاتی ہے، اسکے علاوہ فرقہ پرستی عام ہوجاتی ہے، اکثریت کا غلبہ ہوجاتا ہے۔
اور یہی چیز حکومت حاضرہ بھی چاہتی ہے کہ اکثریت کا غلبہ، دادا گیری عام ہو، لعن و طعن جاری ہو، پسماندہ طبقہ ختم ہو، اپنا ہی راج ہو، اپنا ہی تاج ہو‌۔
یہی وجہ رہی کہ چند دنوں قبل جب ملک کا وزیر اعظم ، جسکے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہے، اس نے ایک نئے پارلیمنٹ کا افتتاح کیا ہے، اور افتتاحی تقریب بھی ایسی جو سرا سر سیکولر ازم کے خلاف تھی، جمہوریت کے خلاف تھی۔
یہ تقریب واضح طور پر یہ ثابت کر رہی تھی کہ سیکولر ازم کی دھجیا اڑائی جارہی ہے۔
کیونکہ تقریب افتتاح کے وقت وزیراعظم نریندرمودی نے برہمن پنڈتوں کی رہنمائی میں نئے پارلیمنٹ کا افتتاح کیا، گویا کہ ہندو مذہب کے مطابق پارلیمنٹ کا افتتاح بھومی پوجن سے کیا گیا، علاوہ ازیں سیکولر ازم کا دشمن ملک کا وزیر اعظم اپنے بیان میں نئے پارلیمنٹ کو مندر سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ پارلیمنٹ ہاؤس ایک نئے‌ بھارت کا رخ ہوگا۔
قارئین! اب ذرا غور کریں کہ جب پارلیمنٹ کا آغاز ہی برہمن پنڈتوں کی رہنمائی میں کی جائے گی اور اسکی افتتاحی تقریب بھی بھومی پوجن سے ادا کی جائے گی، علاوہ بریں اس پارلیمنٹ کو مندر سے تشبیہ دی جائے گی، اور اس سے ایک نئے بھارت کی امید کی جاے گی تو بھارت کا مستقبل کیسا ہوگا؟
کیا یہ اس بات کی مشرح شناخت نہیں ہے کہ آئندہ چل کر نئی پارلیمنٹ میں پنڈتوں کا قبضہ ہوگیا؟
جی ضرور ہوگا! انہیں کا قبضہ ہوگا ،انہیں کا دعویٰ ہوگا، جب بھی کوئی مسئلہ پیش آے گا فوراً بھومی پوجن کو دہرایا جائے گا، جب بھی کوئی قضیہ لاحق ہوگا تو ڈنکے کے چوٹ پر یہ بتایا جائے گا کہ ہم ہی اسکے حقدار ہیں، اسکی تقریب ہمارے ہی ذریعے ہوئی تھی، ہم نے ہی اس پارلیمنٹ کا آغاز بھومی پوجن سے کیا تھا، پھر لڑائی پر لڑائی اور دنگے پر دنگے ہوتے چلے جائیں گے، کالے اور سیاہ دن کے زمانے پھر دہرائے جائیں گے۔
ارے ذرا غور کرو جب ابھی سے اس پارلیمنٹ کو مندر کا درجہ دے دیا گیا تو کیا مستقبل میں تمہیں اس میں کوئی حصہ مل سکتا ہے؟ کیا تم اسکے ممبر بن سکتے ہو؟ کیا تم ایوان بالا میں بحیثیت ممبر بیٹھ سکتے ہو ؟ کیا تم ایوان زیریں میں بحیثیت ممبر اپنی بات رکھ سکتے ہو؟ کیا تم مستقبل میں ایک قوم و ریاست کی نمائندگی کرسکتے ہو؟ کیا تم مستقبل میں جمہوری نظام سے فائدہ اٹھا سکتے ہو؟ نہیں ہرگز نہیں کیوں ؟
اس لئے کہ ملک کا وزیر اعظم نریندرمودی نے نئی پارلیمانی افتتاحی تقریب کے وقت جو باتیں اور جو حرکتیں کی ہے وہ قابل غور ہیں۔
اول یہ کہ نریندرمودی نے نئی پارلیمنٹ کا آغاز برہمن پنڈتوں کی رہنمائی میں رہ کر اسکی تقریب میں بھومی پوجن کیا، وید اور منتر کا بازار گرم‌ کیا، جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ یہ ملک ایک سیکولر ملک ہے اور آئین ہند بھی سیکولر ازم کی دعوت دیتا ہے، جو ائین یہ چاہتا ہے کہ ملک کا حاکم کبھی بھی کسی مذہب کی طرف مائل نہ ہو جو بھی کام کرنا ہو مذہب سے بالا تر ہوکر ہو، ارے جس آئین کی حلف خود نریندرمودی نے اٹھائی تھی، آج اسی کو بھول بیٹھا ، آج اسکے سیکولر ازم کو پس پردہ رکھتے ہوئے ایسا کام‌ کیا ہے جو ناقابل برداشت ہے۔
ارے اگر کچھ پڑھنا ہی تھا تو آئین‌ کی تمہید پڑھ لیتے ، بابا صاحب امبیڈکر کی دی ہوئی پوری کتاب موجود تھی اس‌ میں سے کچھ پڑھ لیتے، یا جو قوانین پارلیمنٹ کے تعلق سے تھے اسکو پڑھ لیتے ! لیکن نہیں مودی جی نے ایسا بالکل نہیں کیا بلکہ بھومی پوجن کرکے بھاجپا کا مقصد پورا کیا، اور مستقبل کا راستہ صاف کیا۔
دوم یہ کہ نریندرمودی نے اس نئے پارلیمنٹ کی تشبیہ ایک مندر سے دی جو کہ سراسر غلط ہے، جو کہ مستقبل میں ہندوستانی قوم کے لئے ایک خطرناک معاملہ ثابت ہوگا، شرپسندوں کا کہنا رہے گا کہ یہ پارلیمنٹ اصل میں مندر ہے ،اسکی بنیاد ہی بحیثیت مندر کی گئی ہے، ملک کے وزیراعظم نے اسے مندر سے تشبیہ دی ہے، اسکی تقریب میں فلاں فلاں پنڈتوں نے حصہ لیا تھا، وید اور منتروں کے ذریعے اسکا آغاز کیا گیا تھا۔ اور بعض لوگوں کا خیال ہوگا کہ یہ مندر نہیں بلکہ یہ خالص پارلیمنٹ ہے۔ جسکی وجہ سے پھر ہنگامے پر ہنگامے ہونگے ، قتل غارت گیری عام ہوگی۔
سوم اور کہا کہ یہ پارلیمنٹ نئے بھارت کا‌ رخ ہوگا۔
کیا تمہیں معلوم نہیں کہ مودی سرکار مستقبل میں بھارت کو کس طرح دیکھنا چاہتی ہے؟ اور بھارت کو کیا رخ دینا چاہتی ہے؟
ارے اس بات سے تو بچہ بچہ واقف ہے کہ بھاجپا کا مقصد کیا ہے؟ اسکا مقصد تو صرف اور صرف ملک کو ہندو راشٹر بنانا ہے، وہ خود اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ملک کو ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں، اور مودی جی تو بی جے پی کے بڑے عزیز ہیں، جب وہ خود یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ نئی پارلیمنٹ بھارت کو ایک نیا رخ دے گی۔ جو کہ اس بات کی بین علامت ہے کہ مستقبل میں ملک کو ہندو راشٹر بنانے میں نیا پارلیمنٹ کا ایک اہم رول ہو گا۔
قارئین کرام! کیا تم نے کبھی غور کیا کہ اس نئی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں جو 345 سیٹیں بڑھائی جائے گی اور ایوان بالا میں جو 139 سیٹیں وہ کس بنیاد پر بڑھائی جا رہی ہیں؟ اس پر کون لوگ ہوں گے ؟ وہ سیٹیں کس کے حوالے ہوگی ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ پنڈتوں کے حوالے کر دی جائے؟ یہ ایک قابل باز پرس معاملہ ہے۔
بہر حال نئی پارلیمانی عمارت "سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کے تحت” کا ایک حصہ ہے، اور اس پروجیکٹ کے تحت صرف پارلیمنٹ ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی کئی مرکزی عمارتوں کو منہدم کرکے از سر نو تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے، اس پروجیکٹ کے تحت پارلیمنٹ ہاؤس سے لیکر انڈیا گیٹ تک کے فاصلے میں کافی چیزوں کو تبدیل کیا جائے گا ۔
اسکے علاوہ نئی پارلیمانی عمارت پر 179 کروڑ روپئے خرچ ہونگے، اور یہ عمارت 2022 میں بن کر تیار ہوگی۔ اسی بنا پر سپریم کورٹ میں سنٹرل وسٹا پروجیکٹ کے خلاف مقدمہ بھی چل رہا ہے، اسی وجہ سے سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو یہ کہا ہے کہ جب تک یہ مقدمے ختم نہیں ہوں گے تب تک کچھ نہیں ہوگا ۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب بھومی پوجن کی اجازت مل گئی تو ظاہر بات ہے کہ آگے کے کام بھی سب ہو جائیں گے اور تعمیرات کی بھی اجازت مل جاے گی۔پھر دھیرے دھیرے بھاجپا کا مقصد پورا ہوتا چلا جائے گا اور ملک جمہوریت سے نکل کر تانا شاہی کا شکار بن جائے گا۔

Comments are closed.