عنادِل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

 

محمد اعظم ندوی

استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

ایسا لگتا ہے ابھی کل کی بات ہے، اور سچ پوچھئے تو کل ہی کی ہے، ایک سال قوموں کی تاریخ میں کوئی بڑی مدت نہیں ہوتی،١٥دسمبر٢٠١٩ء کی کربناک رات یاد کیجئے، جب دہلی پولس اہلکاروںنے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کتب خانہ میں گھس کر طلبہ وطالبات پر ظلم وبربریت کے پہاڑ ڈھائے تھے،اور انہیں بہیمانہ انداز سے زدوکوب کیا تھا، اور اس رات آنکھیں کھلی تھیں ہم جیسے تھکے ہارے لوگوں کی بھی جو چند دنوں پہلے شروع ہوئے شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے احتجاجات کو ایک عارضی واقعہ سمجھ رہے تھے، اور روز مرہ کی سینکڑوں خبروں کی طرح ایک سرسری خبر گمان کر رہے تھے۔

اس دن سے ہر درد مند زبان پر یہی تھا کہ اب اس ملک کا خدا حافظ ہے، اور فسطائی حکومت کے خلاف کھڑا ہونا، اور اس کی ملک دشمن، سماج دشمن اور اقلیت دشمن پالیسیوں کے خلاف تحریک چھیڑ کر اس پر ثابت قدم رہ جانا اس وقت کا سب سے اہم کام ہے،اس واقعہ کو ایک سال مکمل ہونے پرڈاکٹر خالد مبشر صاحب استاذ شعبۂ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی نے خوب خراج تحسین وتشجیع پیش کیا ہے:”آج پندرہ دسمبر٢٠٢٠ء ہے، آج ہی کے دن بیتے برس جامعہ پر فسطائی راکچھسوں کا وحشیانہ حملہ ہوا، وہ ٹھٹھرتی ہوئی شام__جامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین سینٹرل لائبریری__مطالعے میں منہمک معصوم طلبہ و طالبات__ دنیا جہان کی کتابیں__اور وہاں وحشی درندروں کا خونی جشن۔ لیکن یہی معصوموں کے لہو سے نہائی ہوئی شام ہندوستان کی تاریخ میں ایک نئے انقلاب کا پیش خیمہ بن گئی۔اس لہو رنگ شام نے ملک بھر کی صنفِ نازک کو صنف آہن بنادیا۔اے دیارِ شوق میں خیمہ زن دیوانگانِ تحریکِ حریت کے سپوتو!تمہیںمبارک ہو کہ پندرہ دسمبر٢٠١٩ء کی شام کو اپنے لہو سے لالہ زار بنادینے کی تمھاری اس عظیم قربانی کو مادرِ ہند کی تاریخ نے اپنے سینے میں صبحِ قیامت تک کے لیے محفوظ کرلیا ہے”۔

جب اس تحریک کا آغاز ہوا تو شروع شروع میں لوگ تین خیموں میں بٹ گئے، کچھ وہ تھے جنہوں نے سی اے اے کے ظالمانہ قانون اور اس سے مربوط این آر سی اور این پی آر جیسے مجوزہ منصوبوں کا حل مختلف قسم کے کاغذات تیار کرنے کو بتایا تھا، دوسرے وہ تھے جو مانتے تھے کہ اس کا فوری حل تو احتجاج ہی ہے، اور پھر منو واد اور مٹھی بھر برہمنوں کے خلاف تمام اقلیتوں کو مل کر منصوبہ بندی کرنی ہے، تیسرے وہ تھے جو بے خطر میدان میں کود پڑے تھے، ان کا سکون زندگی غارت ہوگیا تھا ،انہوں نے خرد کو سلام کرکے جنوں سے رشتہ جوڑ لیا تھا اور خود کو چیلنجز کے لیے ذہنی طور پر تیار کرلیا تھا، رفتہ رفتہ انہیں ”جنوں جولاں گدائے بے سروپا” کی تائید میں پہلے اور دوسرے طبقے کے لوگ بھی آئے، کچھ کھل کر، کچھ احتیاط ومصلحت کی رعایت کرتے ہوئے،عصری جامعات اور بنات اس میں پیش پیش رہیں،طلبۂ مدارس نے بھی ان کے پیروں میں ڈالی گئی مصلحتوں کی بیڑیوں کے باوجود مقدور بھر حصہ لیا۔

اس تحریک میں ایسی قوت تھی کہ تھکے ہارے سست اورپست ہمت قسم کے لوگ بھی سرگرم ہوگئے، دیکھتے دیکھتے پورے ملک میں شاہین باغ کے طرز پر احتجاج گاہیں بنا لی گائیں، ہر جگہ آزادی کے نعرۂ مستانہ کی گونج سنائی دینے لگی، بچے بوڑھے، خواتین اور معذورین بھی پورے جوش وجذبہ سے ان میں شریک ہونے لگے، بلکہ تاریخ یہ بھی یاد رکھے گی کہ جہاں مرد پیچھے ہٹ گئے وہاں عورتیں اپنے بچوں کو گود میں اٹھائے دسمبر اور جنوری کی یخ بستہ راتوں میں شاہین باغوں میں نکل آئیں، لکھنؤجیسے ”کوچۂ قاتل” میں بھی ناز ونعمت میں پلی ہوئی بہو بیٹیوں نے مورچہ سنبھال لیا اور بھارت کا پرچم لہرا دیا، جانیں گئیں، پولس کے مظالم کا سامنا ہوا؛ لیکن شاہین باغوں کے جوش وجذبہ میں طوفان بڑھتا ہی رہا، اور دیکھتے دیکھتے اس پرتین مہینے گزر گئے۔

سپریم کورٹ سے نمائندے بھیجے گئے، ان کے اور شاہین باغ کے پر امن انقلابیوں کے درمیان بات چیت ناکام رہی، یہ احتجاج دھمکیوں اور دھماکوں کے باوجود جاری رہے، ٢٤ فروری ٢٠٢٠ء کوشمال مشرقی دہلی کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کی نسل کشی کے ارادہ سے منظم فساد برپا کیاگیا،یہاں سے فسادات اورپرتشدد واقعات کا سلسلہ شروع ہوا،جن میں ٥٣ سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں ٤٠ کے قریب مسلمان تھے،دہلی پولس کی جانب سے معصوموں کے حق میں بد ترین وحشیانہ سلوک روا رکھا گیا،بد ترین مظالم کو دیکھ کر روح کانپ گئی،ثبوت موجود ہونے کے باوجود کہ اس کا آغازبی جے پی کے مقامی رہنما اور سابق ایم ایل اے کپل مشرا کی صاف صاف دھمکیوں سے یک طرفہ طور پر ہوا،گرفتاریاں مسلمانوں کی گئیں جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے،افسوس اس کامیاب انقلاب کے بارے میں کوئی یہ بھی کہنے والا نہیں کہ یہ مسلم نوجوانوں کا اپنے بل بوتے پر لایا ہوا انقلاب تھا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایجی ٹیشن کامیاب رہا،اورحکومت کو شکست ہوئی۔

بالآخر کورونا کی وبا کے پیش نظر شاہین باغ کے انقلابیوں نے احتجاج کو موقوف کیا، پھر ایک نیا دور شروع ہوا، ٹارگٹ کرکے مسلمانوں اور اقلیتی طبقہ کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں، دہلی فسادات کا ذمہ دار صاف صاف مسلمانوں کو قرار دے دیا گیا، ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں صاحب جیسے قد آور عالم ومفکر اوردہلی اقلیتی کمیشن کے چیٔرمین کے خلاف ان کے صرف ایک ٹوئٹ کو بہانہ بناکر دہلی پولس کی جانب سے ملک سے غداری کا مقدمہ درج کرلیا گیا ۔

لاک ڈاؤن کے دوران نفرت کی نئی لہر چلی، تبلیغی جماعت کو بلی کا بکرا بنایا گیا، جس کا بعد میں مہاراشٹر ہائی کورٹ نے اعتراف بھی کیا، جماعت کے لوگوں پر فوٹو شاپ کے ذریعہ جعلی ویڈیوز تیار کرکے رذیل اور نیچ حرکتوں کے مرتکب ہونے کا الزام لگایا گیا، خلیجی ممالک سے بھی کچھ غیور مسلمانوں نے کچھ دن ٹیوٹر کے ذریعہ اس کا سخت نوٹس لیا، مسلمان سبزی فروشوں کو صرف مسلم نام کی وجہ سے کورونا دور میںغیر مسلم محلوں سے ان کے شناختی کارڈ دیکھ کرباہر نکال دیا گیا، اور اب شرجیل امام اور عمر خالد کے طرز پر جھوٹے الزامات لگا کر نوجوانوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری ہے،مخلص مسلم لیڈروں پر خطرناک قسم کے الزامات لگائے جارہے ہیں تاکہ دوبارہ کوئی ہمت نہ کرسکے،اور ابھرتی ہوئی قیادت کو کچل دیا جائے؛لیکن قیادتیں تو مصائب وآلام کی کوکھ سے ہی جنم لیتی ہیں۔

کورونا دور میں سی اے اسے، این آر سی، اور این پی آر کے ایشوز ہی سرے سے بحث سے خارج ہوچکے ہیں، مسلمانوں کو بھی شک آمیز اطمینان اور اضطراب آمیز سکون حاصل ہوگیا ہے کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا، دوسری طرف نئی قومی تعلیمی پالیسی کا مسئلہ ہے جو اپنے ساتھ کچھ خوبیوں کے ساتھ بہت سی مشکلات پیدا کرنے والی ہے، اس پر کچھ دن بحث ومباحثہ کی فضا نظر آئی، پھر وہ موضوع بھی ٹھنڈے بستہ میں ہے، اور ہر طرف سناٹا ہے،الا ماشاء اللہ۔

ادھر کسان آندولن نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پھر ایک حرکت پیدا کی ہے، جب تین سیاہ قوانین کے ذریعہ پوراملک کارپوریٹ سیکٹر کو دینے کی تیاری ہے، اور ہمیں بھی اپنے انقلاب انگیز اور پر آشوپ دور کی ایک سالہ قدیم بھولی بسری یادیں آنے لگی ہیں، اور پھر گھروں سے نکلنے کی آرزوئیں کروٹیں لینے لگی ہیں،اللہ اس کی نوبت نہ آنے دے،اورعافیت نصیب فرمائے،اورخدا نخواستہ ایسا دن آہی جائے تو ہمارے نام آگے بڑھ جانے والوں میں لکھ دے۔

حکومت کے لیے کورونا ایک رحمت بن کر آیا،بحران ایک موقع ہے (Crisis is an opportunity)اس حکومت کا پرانا اصول رہا ہے، اس نے اپنی تمام تر ناکامیوں کو کورونا پر ڈال دیا ہے،اسے صرف واجبات اور ذمہ داریوں پر بات کرنی ہے،شہریوں کے حقوق پر نہیں،افسوس کہ یہ وبا ہمارے دینی حلقوں میں بھی عام ہورہی ہے، کورونا کی دوسری لہر آنے پر معاشی بحران کے اس دور میں حکومت نے لوگوں کو بے سہارا اور حقائق سے ناواقف بنا کر چھوڑ دیا ہے، چھوٹے بڑے الیکشن جاری ہیں؛ تاکہ کرسی کا معاملہ کھٹائی میں نہ پڑے، تعلیمی ادارے بند ہیں، ٹرینیں بند ہیں، کورونا پر قابو کے ساتھ ساتھ نہ جانے حکومت اور کس کس چیز پر قابو کررہی ہے۔

مسلمان پہلے بھی اپنے سینے پر دسیوں زخم لئے بیٹھے ہیں، طلاق ثلاثہ اور فوری طلاق کے سخت قانون کے ذریعہ شریعت اسلامی میں کھلی مداخلت، بابری مسجد کا قانونی راستوں سے غیر قانونی غصب، اور اس میں بھومی پوجن کے بعد رام مندر کا سنگ بنیاد، بابری مسجد شہادت کے تمام ملزمین جو اصل میں مجرم تھے ان کو صاف بری کرنے کا فیصلہ،بھارتی آئین کی دفعہ ٣٧٠اور آرٹیکل٣٥۔اے کے خاتمہ کا اعلا ن کرکے پورے کشمیر کو کھلی جیل میں تبدیل کرنے کا سنگین فیصلہ، گھر واپسی، سوریہ نمسکار،گاؤکشی،ہجومی تشدد اور لو جہاد جیسے فتنے، جوگاہے گاہے اٹھتے ہی رہتے ہیں۔

اتنے چیلنجز کے بیچ مرکزی نقطہ کہیں غائب ہوگیا ہے کہ اس ملک میں پر امن بقائے باہم کا کیا ہوگا، چند فیصد برہمنوں کے زیر شمشیر ستم مسلمان اور دوسری اقلیتیں کب تک تڑپتی رہیں گی، اور اس کے سد باب کا کیا ہوگا،یہاں اقلیت اکثریت پر حاوی ہے،یہاںجاتی یودھ اورکاسٹ وارجاری ہے،یہاںغلامی سب سے بڑا مسئلہ ،اورنیشنل ایجنڈا ہے،بی جے پی چانکیائی اصول سام دام دنڈ بھیدکا بھرپور استعمال کررہی ہے،اس بیچ ملک کی مسلم مذہبی قیادت کی جانب سے بھی عجیب سی خاموشی اختیار کی گئی ہے، خاموش رہنا برا نہیں، ان لوگوں کا خاموش ہوجانا جن کا بولنا ضروری ہو، اطمینان دلاتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے،یا یہ کہ حالات بہت سنگین ہیں۔

اس وقت کی خوف وہراس، تذبذب اور بے فکری کی ملی جلی کیفیتوں اور غیر یقینی صورت حال میں تین کاموں کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے:
-ہماری نمائندہ تنظیموں اور جماعتوں کو قوم کے ساتھ کیا غلط ہورہا ہے، اس کا نوٹس لینا ہوگا، لو جہاد کے نام پر بجرنگ دل کے غنڈے قانون اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں، اور نو مسلم لڑکیوں کے ساتھ بد ترین سلوک کررہے ہیں، انہیں پولس اور قانون کا سپورٹ حاصل ہے، ہم ایک لفظ نہیں بولتے، سوال یہ ہے کہ ہم دعوت کی بات بھی کرتے ہیں، اب ایک لڑکی اگر اسلام قبول کرتی ہے،تو شادی تو اس کی کسی مسلمان سے ہی ہوگی،ایسے میں اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوسکتا ہے، ہمیں لازماً نو مسلموں کے لیے دستور کی روشنی میں مضبوط مستحکم قدم اٹھانا ہوگا، ورنہ دعوتی کاموں کے سر ایسے ہی دھرم پریورتن کا الزام آتا رہے گا اور ان کے پاس کہنے کو کچھ ہوگا بھی نہیں۔

-دوسرے نئی قومی تعلیمی پالیسی کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا، جس مطالعہ سے یکساں نتائج دریافت ہوسکیں اور ان کی روشنی میں ہم اپنے دینی مدارس اور پرائیویٹ اسکولوں کے لیے کیا تیاریاں کرسکتے ہیں، ان کے منصوبے بنانے پڑیں گے، ورنہ جتنے منہ اتنی باتیں، تو ایک نقطہ پر توجہ مرکوز نہیں ہوسکے گی اور حکومت اپنا کام کرتی رہے گی۔
-سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے، نہ یہ مسائل ٹھنڈے بستے میں رکھے گئے ہیں، ان پر بدستور کام جاری ہے، اور حکمراں جماعت کے نمائندے جلد ہی ان کے نفاذ کا پھر سے اعلان بھی کرچکے ہیں، اور ماہرین یہ مانتے آئے ہیں کہ ویکسین آتے ہی اس کے چرچے شروع ہوجائیں گے تو کیا ہم اس وقت اس موقف میں ہوں گے کہ٩ مہینوں سے سوئی ہوئی قوم کو دوبارہ جگا سکیں، اور ان میں عزم وہمت کی وہ روح پھر سے پھونک سکیں جس سے انقلابی دورکے شاہین سرشار نظر آتے تھے، طلبہ تنظیموں میں یہ جذبات کروٹیں لینے لگی ہیں، اس بار ہمارے بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کا منظم خاکہ بنا کر دوبارہ اس کا آغاز کریں، امیر شریعت بہار واڑیسہ نے بھی امارت شرعیہ کے ایک اعلامیہ (٢٩ نومبر٢٠٢٠ء )میں اس کی اپیل کی ہے کہ اس کے لیے تیار رہا جائے، بہر حال کچھ تو کرنا ہوگا، بیٹھ جانا مسئلہ کا حل نہیں، اور یہاں کوئی مسئلہ آخری مسئلہ نہیں، بربادیوں کے مشورے تو پہلے ہی ہوچکے ہیں، منصوبے بھی نفاذ کے لیے تیار ہیں:

چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے

عنادِل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

 

Comments are closed.