اسلامی صحافت: ماضی کا ورثہ، موجودہ دیجیٹل دور کے تقاضے، مستقبل کی امید

مسعود محبوب خان (ممبئی)
09422724040
تحریر محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ، متحرک اور پُراثر آئینہ ہے جو کسی قوم کے شعور، مزاج، اقدار اور فکری ارتقاء کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ آئینہ ماضی کے تجربات، حال کے احساسات اور مستقبل کی امیدوں کو لفظوں کی صورت میں محفوظ کرتا ہے۔ ہر عہد کی تحریر اپنے دور کے فکری، سماجی، اخلاقی اور تہذیبی رجحانات کی گواہی دیتی ہے، اور یوں یہ صرف تاریخ کا ریکارڈ ہی نہیں بلکہ انسان کے اجتماعی شعور کی داستان بھی ہے۔ صحافت، اس وسیع دائرۂ تحریر میں وہ خاص مقام رکھتی ہے جو زمانے کے دھڑکتے نبض پر ہاتھ رکھتی ہے۔ یہ تحریر کی وہ شکل ہے جو لمحہ بہ لمحہ دنیا کی صورت گری کرتی ہے، شعور کو بیدار کرتی ہے، ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے، اور حق و باطل کے درمیان حدِ فاصل قائم کرتی ہے۔ ایک ذمّہ دار صحافی نہ صرف خبر کا مبلغ ہوتا ہے بلکہ سچائی کا ترجمان، عدل کا داعی اور اصلاح کا علمبردار بھی ہوتا ہے۔
لفظوں میں پوشیدہ ہیں تقدیروں کے راز
قلم وہ ہتھیار ہے جو جنگ کے بغیر جیت دلاتا ہے
اسلام نے قلم اور زبان کو امانت کا درجہ دیا ہے۔ قرآنِ مجید میں ﴿ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ﴾ (القلم:1) جیسی قسموں کے ذریعے قلم کی عظمت کو اجاگر کیا گیا، اور حدیث نبویﷺ میں "کلمۃُ حقٍ عند سلطانٍ جائرٍ” کو افضل جہاد قرار دیا گیا۔ یہ تعلیمات اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کہ قلم اور زبان کا استعمال محض ذاتی اظہار یا دنیاوی منفعت کے لیے نہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر حق گوئی، انصاف، اور خیر کی ترویج کے لیے ہونا چاہیے۔ جب صحافت اس الہامی تصورِ امانت کو اپنی بنیاد بناتی ہے تو پھر وہ صرف ایک پیشہ نہیں رہتی، بلکہ ایک فریضہ بن جاتی ہے۔ ایسی صحافت نہ تو جھوٹ کا سہارا لیتی ہے، نہ سنسنی پھیلاتی ہے، اور نہ ہی کسی باطل قوت کی کاسہ لیسی کرتی ہے، بلکہ "امر بالمعروف و نہی عن المنکر” کا عملی مظہر بن کر سچ کو سچ، اور باطل کو باطل کہنے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے۔
آج کے تیز رفتار، پیچیدہ اور متنوع دور میں جب کہ اطلاعات کا سیلاب ہر سمت رواں ہے، صحافت کی یہ دینی و اخلاقی حیثیت اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ ایسے ماحول میں جہاں خبریں محض تجارت بن چکی ہوں، صحافت کے اس مقدس تصور کو زندہ رکھنا ایک عظیم جدوجہد اور قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ لہٰذا، جو صحافی قلم کی حرمت اور زبان کی امانت کو پہچانتا ہے، وہ نہ صرف سچائی کا محافظ بنتا ہے بلکہ اپنی قوم و ملّت کے فکری اور اخلاقی شعور کو سنوارنے والا بھی ہوتا ہے۔ ایسی صحافت قوموں کو زوال کے اندھیروں سے نکال کر بیداری، فہم و فراست، اور تعمیرِ نو کی روشنی کی طرف لے جاتی ہے۔
اسلامی صحافت: ایک فکری ورثہ
اسلامی تہذیب و تمدّن کی تاریخ جب مطالعے کی نظر سے گزرتی ہے تو اس کے صفحات پر وہ روشن نقوش ابھرتے ہیں جو ہمیں ایک ایسی صحافت کا تصور دیتے ہیں جو محض خبروں کی ترسیل کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک فکری، روحانی اور اخلاقی فریضہ تھی۔ اسلامی صحافت کی بنیاد سچائی، دیانت، علم، فہم، حکمت اور خیرخواہی پر رکھی گئی تھی۔ ایسی صحافت جو دلوں کو روشن کرتی تھی، ضمیروں کو جگاتی تھی، اور معاشروں کو شعور، اتحاد اور عدل کی طرف رہنمائی کرتی تھی۔
میراثِ محمدؐ ہے، صحافت کی روشنی
سچائی، حکمت، عدل و وفا کی ہے یہ زمینی
خلفائے راشدینؓ کا عہد اسلامی صحافت کی اولین اور روشن ترین مثال ہے۔ اس دور میں خطبے صرف مذہبی تعلیمات ہی کا بیان نہ تھے، بلکہ حکومتی پالیسی، معاشرتی اصلاح، اور عدل و انصاف کے پیغامات کے حامل ہوا کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ کے فرامین، حضرت علیؓ کے خطوط، اور دیگر صحابہ کرامؓ کی تحریریں و اقوال ایسی شہادتیں ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ زبان و قلم کو امانت سمجھنے کا عملی مظہر کیا ہوتا ہے۔ ان کی ہر بات میں صداقت کی روشنی، فہم کی گہرائی اور اصلاح کی حرارت دکھائی دیتی ہے۔
اسلامی صحافت کا یہ انداز صرف خلفائے راشدینؓ یا صحابہ کرامؓ تک محدود نہ رہا، بلکہ بعد کے ادوار میں بھی اس کا تسلسل جاری رہا۔ محدثین، مفسرین، سیرت نگاروں اور مورخین نے اپنے قلم کو صرف واقعات کی ظاہری تصویر کشی تک محدود نہیں رکھا، بلکہ صداقت اور تحقیق کی کسوٹی پر پرکھ کر علم و حکمت کے جواہر کو اُمّت کے سامنے پیش کیا۔ ان کے نزدیک خبر صرف اطلاع کا ذریعہ نہیں، بلکہ فکری تربیت کا وسیلہ، اخلاقی پیغام کا پیغامبر اور اصلاحِ احوال کا ذریعہ تھی۔
ابنِ جریر طبری نے جب تاریخ کی کتاب قلم بند کی، تو وہ محض بادشاہوں کے کارنامے نہیں تھے، بلکہ ایک دور کا ایماندارانہ جائزہ تھا۔ ابنِ خلدون نے تاریخ و تمدن کے گہرے تجزیے کے ذریعے ایک فکری صحافت کی بنیاد رکھی، جس میں انسانی سماج کی ساخت، اسبابِ زوال و عروج، اور علمِ عمرانیات کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں۔ شاہ ولی اللّٰہ محدث دہلوی نے اپنے دور کے حالات پر گہری بصیرت سے روشنی ڈالی، اور علم و روحانیت کے امتزاج سے ایسی تحریریں دیں جو آج بھی فکر کی تازگی عطا کرتی ہیں۔ ان عظیم شخصیات کی تحریروں میں جو چیز مشترک ہے وہ صرف معلومات کی ترسیل نہیں، بلکہ حق گوئی، بصیرت، امانت، اور خیرخواہی کا وہ رنگ ہے جس نے اسلامی صحافت کو ایک فکری ورثے کی شکل دی۔ ان کے ہاں لکھنے کا مقصد نہ شہرت تھا، نہ مادی منفعت، بلکہ اُمّت کی اصلاح، سچ کی سربلندی، اور خیر کے فروغ کا جذبہ کارفرما تھا۔
آج کے دور میں جب کہ صحافت اکثر و بیشتر تجارتی دباؤ، سیاسی وابستگیوں اور سنسنی خیزی کی نذر ہو چکی ہے، اسلامی صحافت کا یہ تاریخی و فکری ورثہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل صحافت وہی ہے جو "قولِ سدید” پر قائم ہو، جو حق کا ساتھ دے، جو مظلوم کے ساتھ کھڑی ہو، اور جو معاشرے کے بگاڑ کو اصلاح کی راہ پر ڈالے۔ یہ ورثہ صرف ماضی کی عظمت کا آئینہ نہیں، بلکہ حال کے صحافیوں کے لیے ایک مشعلِ راہ بھی ہے۔ اگر آج کے صحافی اس صحافتی میراث کو اپنا لیں تو صحافت دوبارہ ایک باوقار، مؤثر اور تعمیری قوت بن سکتی ہے ایسی قوت جو ملت کو فکری، اخلاقی اور تمدّنی بلندیوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنے۔
عصرِ ڈیجیٹل: اطلاعات کی یلغار، اخلاق کی آزمائش
ہم ایک ایسے عہد میں داخل ہو چکے ہیں جہاں الفاظ کی بازگشت پلک جھپکتے میں سرحدیں پار کر جاتی ہے، اور ایک معمولی تحریر یا ویڈیو لمحوں میں کروڑوں ذہنوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں صحافت صرف اخبارات اور ٹی وی اسٹوڈیوز تک محدود نہیں رہی، بلکہ موبائل فون، سوشل میڈیا ایپس، اور ویب پورٹلز کے ذریعے ہر شخص "اطلاعات کا مبلغ” بن چکا ہے۔ معلومات کی اس برق رفتار دنیا نے انسانی شعور کو نئی وسعتیں بخشی ہیں، مگر ساتھ ہی فکری، اخلاقی اور روحانی سطح پر کئی گہرے سوالات بھی جنم دیے ہیں۔ یہ انقلاب جو بظاہر آزادیِ اظہار کی جیت ہے، درحقیقت ایک آزمائش بھی ہے۔ جب ہر ہاتھ میں کیمرہ ہو، ہر ذہن ایک رائے ساز بن جائے، اور ہر انگلی خبر کی ترسیل کا ذریعہ بن جائے، تو پھر سچائی کی حرمت، نیت کی پاکیزگی، اور اثرات کی فکر ایک نئے درجے کی ذمّہ داری مانگتی ہے۔ آزادی اگر اخلاقی شعور سے خالی ہو جائے تو وہ فتنہ پروری کا ذریعہ بن سکتی ہے، اور یہی کچھ ہمیں موجودہ ڈیجیٹل صحافت میں دکھائی دیتا ہے۔
زمانہ برق رفتار ہے، فتنہ ہر دہلیز پر
قلم اگر بیدار نہ ہو، تباہی ہے ہر تجویز پر
آج کے میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ سچائی پسِ پشت چلی گئی ہے، اور "وائرل” ہونا اصل معیار بن چکا ہے۔ سنسنی، تعصب، نفرت انگیزی، اور کردار کشی کو "مواد” سمجھا جانے لگا ہے۔ کسی کی زندگی برباد کرنا، عزت کو خاک میں ملانا، اور جھوٹی شہرت کے بل پر فتنہ برپا کرنا معمولی بات نہیں رہی۔ مگر قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ: "وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ”۔ (تباہی ہے ہر اس شخص کے لیے جو طعن و تشنیع کرتا ہے اور لوگوں کی عیب جوئی میں لگا رہتا ہے)۔ یہ آیت فقط قدیم زمانوں کے عیب جو افراد کے لیے نہیں، بلکہ آج کے ہر اس ڈیجیٹل "صحافی” کے لیے ایک تنبیہ ہے جو بغیر تحقیق کے، بغیر احساسِ جواب دہی کے، محض شہرت یا تعصب کی خاطر دوسروں کے خلاف زبان یا قلم اٹھاتا ہے۔
اسلامی صحافت کا بنیادی اصول "قولِ سدید” ہے۔ ایسا کلام جو سیدھا، سچا، نفع بخش اور نیتاً خالص ہو۔ دیجیٹل عہد میں اس اصول کو اپنانا اور بھی ضروری ہو گیا ہے، کیونکہ اب ہر تحریر یا پوسٹ صرف ایک شخص تک محدود نہیں رہتی، بلکہ ہزاروں، لاکھوں انسانوں کے افکار و اعمال پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لیے ہر صارف، ہر قلمکار، اور ہر وی لاگر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی بات کے محرکات، اثرات، اور اخلاقی وزن کو پہچانے۔ رفتار کا یہ انقلاب اگر بصیرت اور اخلاق سے عاری ہو جائے تو تہذیبوں کو بگاڑ دیتا ہے۔ مگر یہی رفتار جب سچائی، حکمت اور فلاحِ عامہ کی خدمت میں آئے تو علم کا چراغ، شعور کا مینار، اور اصلاح کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ چنانچہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ دیجیٹل دور کی صحافت کو صرف ٹیکنالوجی کے کمالات سے نہ ناپا جائے، بلکہ اس کے ساتھ کردار، نیت اور حق پسندی کی کسوٹی بھی لازماً شامل کی جائے۔
اسلامی صحافت کی بنیادیں اور رہنما اصول
دیجیٹل دنیا میں اسلامی صحافت کی سمت کا تعین ان قرآنی و نبوی اصولوں سے ہونا چاہیے جو ہمیں سچائی، عدل، اور نرمی کا درس دیتے ہیں:
صدق و امانت: "اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو…” (سورۃ الحجرات: 6)
حکمت اور نرم گفتاری: "اپنے ربّ کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ…” (سورۃ النحل: 125)
عدالت اور غیر جانب داری: "…اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کے قریب تر ہے”. (سورۃ المائدہ: 8)
مقصدیت اور فلاحِ عامہ: اسلامی صحافت کا ہدف فتنہ انگیزی یا سنسنی خیزی نہیں، بلکہ معاشرتی اصلاح، فکری تربیت، اور اُمّت کی وحدت ہونا چاہیے۔
آوازِ حق، زبانِ حکمت: مؤمن صحافی کی پہچان
آج کے دور میں، جہاں میڈیا اور صحافت ایک طاقتور ذریعہ بن چکا ہے، ہر فرد کو اپنی آواز دنیا تک پہنچانے کا موقع ملتا ہے، وہاں ایک مسلمان صحافی کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنے قلم کی طاقت کو محض ذاتی منفعت یا شہرت کے لیے نہ استعمال کرے، بلکہ اسے ایک امانت سمجھ کر، ایک ذمّہ داری کے تحت استعمال کرے۔ ایک مسلمان صحافی کی تحریر میں صرف الفاظ کی ترکیب نہ ہو، بلکہ ان الفاظ میں اخلاقی اور فکری گہرائی، صداقت کی روشنی، اور اصلاح کی جستجو ہو۔
ایسا ہو ہر صحافی، جو چراغ بنے راہوں کا
نہ باندھے گرہ فساد کی، نہ بچھائے جال گمراہی کا
پہلا تقاضا جو ایک مسلمان صحافی کے لیے ضروری ہے وہ ہے "شعور”۔ شعور صرف علم نہیں، بلکہ حالات کی گہرائی میں جا کر ان کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ ایک مسلمان صحافی کا قلم اگر حقیقت سے عاری ہو، اگر وہ محض جھوٹی معلومات پھیلائے، یا کسی کی عیب جوئی میں مشغول ہو، تو وہ نہ صرف اپنی ذاتی امانت کو ضائع کرتا ہے بلکہ پورے معاشرتی تانے بانے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس، ایک مسلمان صحافی اپنے الفاظ میں اس شعور کا عکس پیش کرتا ہے جو قرآن اور سنّت کی رہنمائی سے حاصل ہو۔ وہ حالات و واقعات کو ایسے بیان کرتا ہے کہ ہر لفظ میں صداقت کی جھلک، حکمت کا تاثر اور فہم کا رنگ ہوتا ہے۔
دوسرا تقاضا جو ایک مسلمان صحافی پر عائد ہوتا ہے وہ ہے "علم”۔ صحافت میں علم کی اہمیت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب صرف معلومات کا پھیلاؤ کافی نہیں، بلکہ ان معلومات کا تصدیق شدہ، تحقیق شدہ اور جامع ہونا ضروری ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں علم کو اہمیت دی گئی ہے۔ قرآنِ مجید میں "اقْرَأْ” (پڑھ) کے ذریعے علم کا آغاز کیا گیا، اور حضرت محمدﷺ نے فرمایا: "علم کا طلب ہر مسلمان پر فرض ہے”۔ اس علم کا نہ صرف حصول ضروری ہے، بلکہ اس علم کی بنیاد پر سچ کو بیان کرنا اور معاشرتی اصلاح کی طرف رہنمائی کرنا بھی ایک مسلمان صحافی کی اوّلین ذمّہ داری ہے۔
تیسرا تقاضا جو ایک مسلمان صحافی کے کردار میں جھلکتا ہے وہ ہے "اخلاق”۔ اسلامی صحافت کی بنیاد اخلاقی اقدار پر ہے۔ ایک مسلمان صحافی کا قلم کبھی فتنہ، فساد یا بدنامی کی طرف نہیں لے جا سکتا۔ اس کے الفاظ معاشرتی ہم آہنگی اور تعمیر کی سمت میں رہنمائی کرتے ہیں۔ اس کی تحریریں تفریق یا تقسیم نہیں، بلکہ تعمیر اور وحدت کی راہ دکھاتی ہیں۔ قرآن میں جہاں بھی انسانوں کے درمیان اختلافات کو بیان کیا گیا، وہاں پر ہمیشہ صلح اور دوستی کی بات کی گئی ہے۔ لہٰذا، ایک مسلمان صحافی کو اپنے قلم کے ذریعے اپنی قوم کو اتحاد کی طرف دعوت دینی چاہیے، نہ کہ اسے آپس میں لڑا کر فتنہ و فساد کی طرف دھکیلنا چاہیے۔
چوتھا تقاضا جو ایک مسلمان صحافی کے کردار سے جڑا ہے وہ ہے "احتجاج اور حکمت کا فرق” سمجھنا۔ ہر مسئلے پر فوری رد عمل دینا یا بغاوت کی آواز بلند کرنا کبھی بھی دانشمندی نہیں ہو سکتی۔ ایک مسلمان صحافی کو نہ صرف حالات کی حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے، بلکہ اس کے پاس وہ حکمت بھی ہونی چاہیے کہ وہ کس انداز میں بات کرے، کس طریقے سے اس کی آواز عوام تک پہنچے، اور کس بات کا کس وقت کیا رد عمل ضروری ہے۔ احتجاج کی جگہ حکمت، صبر اور تدبر کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اسلام نے ہمیشہ عقل اور تدبیر کی طرف رہنمائی کی ہے، اور وہ صحافت کی دنیا میں بھی ضروری ہے۔
آخرکار، ایک مسلمان صحافی کا کردار صرف ایک رپورٹنگ کا عمل نہیں، بلکہ ایک ایسی تحریک کا آغاز ہوتا ہے جو اصلاح، اتحاد، اور خیر کی طرف رہنمائی کرے۔ جب ایک مسلمان صحافی قلم اٹھاتا ہے، تو اس کے لیے یہ ایک فریضہ ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی لکھے، اس میں معاشرتی انصاف، فلاحِ انسانیت اور اسلامی اخلاقیات کی جھلک ہو۔ اس طرح، ایک مسلمان صحافی کا کردار نہ صرف معاشرتی بگاڑ کو روکنا ہوتا ہے، بلکہ اس کے الفاظ میں اصلاح کا پیغام، فہم کا اجالا اور خیر کا عمل بھی ہوتا ہے۔ اس کی تحریر صرف ایک اطلاع نہیں، بلکہ ایک پیغامِ اصلاح، ایک دعوتِ حق، اور ایک ذمّہ دارانہ عمل ہوتا ہے۔
صحافتِ نو: دین، دانش اور دیجٹل دور کا امتزاج
ہر عہد کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں، اور ہر دور اپنی ایک مخصوص فکری، سائنسی اور سماجی فضا میں سانس لیتا ہے۔ آج ہم ایک ایسے زمانے میں زندہ ہیں جہاں اطلاعات کی فراہمی اور خبروں کی ترسیل نے برق رفتاری اختیار کر لی ہے۔ جہاں ایک کلک، ایک لفظ، یا ایک تصویر کروڑوں ذہنوں میں بیک وقت داخل ہو سکتی ہے۔ اس تغیر یافتہ منظرنامے میں صحافت ایک محض پیشہ نہیں رہی، بلکہ ایک طاقتور فکری ہتھیار بن چکی ہے۔ ایسا ہتھیار جو بگاڑ بھی پیدا کر سکتا ہے، اور اگر دیانت، بصیرت اور ایمانی شعور سے آراستہ ہو تو اصلاح و تعمیر کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
ایسے میں اسلامی صحافت کی نئی تعبیر کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی صحافت جو صرف معلومات فراہم کرنے پر اکتفا نہ کرے، بلکہ اخلاق، علم اور روحانی بصیرت کو بنیاد بناتے ہوئے انسانیت کو روشنی کی طرف لے جائے۔ یہ نئی صحافت صرف خبریں نہ دے، بلکہ خبر کے پیچھے چھپے محرکات، اثرات، اور نتائج کا تجزیہ بھی پیش کرے۔ ایسی صحافت جو سچ کو فتنہ نہ بنائے، اختلاف کو دشمنی نہ سمجھے، اور آواز کو شور کی بجائے حکمت کا جامہ پہنائے۔
اسلام نے زبان و قلم کو امانت قرار دیا ہے۔ قرآنِ مجید میں نہ صرف قلم کی قسم کھائی گئی بلکہ اس کی حرمت کو فکر، علم اور عدل سے جوڑا گیا۔ نبی کریمﷺ کی سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ ایک مسلمان کا ہر لفظ یا تو خیر کا سبب بنے یا خاموشی بہتر ہو۔ اسی بنیاد پر اسلامی صحافت محض تجارتی یا سیاسی مصلحتوں کی اسیر نہیں ہو سکتی، بلکہ وہ اُمّتِ مسلمہ کے فکری، اخلاقی، اور روحانی شعور کی نمائندہ ہونی چاہیے۔
آج کے اس منتشر فکری ماحول میں، جہاں سچ اور جھوٹ کا امتیاز دھندلا چکا ہے، جہاں سوشل میڈیا پر ہر شخص خودساختہ تجزیہ کار بن بیٹھا ہے، وہاں ایک مسلمان صحافی کی ذمّہ داری عام صحافی سے کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس کا قلم صرف اطلاع دینے والا نہیں، بلکہ فہم و فراست، عدل و انصاف، اور اصلاح و خیرخواہی کا چراغ بننا چاہیے۔
ایک نئی اسلامی صحافت کا آغاز اسی وقت ممکن ہے جب ہم درج ذیل بنیادوں پر اسے استوار کریں:
اعلیٰ اخلاق: کہ زبان نرم ہو، انداز شائستہ، اور نیت خالص؛ نہ کسی کی تضحیک، نہ بلاوجہ تنقید؛
گہری تحقیق: کہ خبر ہو یا تبصرہ، تجزیہ ہو یا رپورٹ، سب حقائق کی بنیاد پر ہو، بے بنیاد قیاس آرائی نہ ہو؛
دینی بصیرت: کہ ہر موضوع کا تجزیہ صرف دنیاوی زاویے سے نہ کیا جائے بلکہ اس میں آخرت کی فکر، شریعت کی رہنمائی، اور اُمّت کی فلاح کو مرکزی مقام حاصل ہو۔
ایسی صحافت ہی آج کی دنیا میں بکھرے ہوئے اذہان کو ایک مرکز پر لا سکتی ہے، اختلاف کے شور میں حکمت کی آواز بن سکتی ہے، اور مایوسی کے اندھیروں میں امید کی روشنی پھیلا سکتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اسلامی صحافت کو محض کاغذوں، اسکرینوں یا ویب سائٹس کا کھیل نہ سمجھیں، بلکہ اسے اُمّت کی فکری رہنمائی، نوجوان نسل کی تربیت، اور معاشرے کی اصلاح کا مؤثر ذریعہ بنائیں۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہمارا ہر قلم، ہر مائک، اور ہر اسکرین سچ، خیر اور اتحاد کا ترجمان بن جائے۔ یہی ایک نئی صحافت کا آغاز ہے۔ جہاں دین، دانش اور ڈیجیٹل دور ایک ساتھ آگے بڑھیں، اور مسلمان صحافی اپنے کردار کے ذریعے دنیا کو بتا دے کہ قلم اگر امانت ہو تو وہ انقلاب لا سکتا ہے۔
اُٹھا ہے وقت کا تقاضا، بدلو صحافت کی راہ
سچائی ہو شعار، عدل ہو نگاہ، اور فکرِ الٰہ
✒️ Masood M. Khan (Mumbai)
Comments are closed.