خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

 

 

مذہب اسلام نے انسانیت اور ہمدردی، دلبستگی و دلداری کی تعلیم دی ہے، اگر یہ کہا جائے کہ انسانیت کے صحیح و درست مفہوم سے دنیا کو روشناس کرانے والا مذہب اسلام ہی ہے اور کوئی نہیں تو مبالغہ نہ ہوگا، مذہب اسلام نے انسان تو دور جانوروں تک کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنے کی تعلیم دی ہے، اگر کسی جاندار کی تکلیف دیکھکر کوئی تڑپ اٹھے، بیچین ہو جائے، اور اسکی تکلیف کے ازالہ کی تدبیر کرے تو اسلام اسکی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اس کے اس عمل کو سراہتا ہے، چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ ایک بدکار عورت نے شدت پیاس سے جاں بلب سسک رہے کتے کو پانی ہلایا جس سے اسکی جان بچ گئی تو اللہ تبارک و تعالی کو اس پر اس قدر پیار آیا کہ اس کی تمام نافرمانیوں سے در گذر کرتے ہوئے اسے جنت میں داخل فرما دیا، اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ میں نے اس عورت کو جنت میں دیکھا ہے، اور جب صحابہ نے حیرت و استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کتے بلیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے پر اجر ملتا ہے؟

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا مختصر اور جامع جواب دیا جسے پڑھکر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مذہب اسلام میں ہر کسی کی راحت رسانی کی (خواہ وہ کسی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو انسان ہو یا جانور )کتنی اہمیت ہے ، انسانیت کے علمبردار، اللہ کے لاڈلے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا *فی کل کبد رطبۃ اجر* جی ہاں کسی بھی جاندار کے ساتھ اگر شفقت و مہربانی نرمی و رحم دلی اور لطف و احسان کے ساتھ پیش آؤگے تو ضرور اللہ تبارک و تعالی اجر و ثواب سے نوازیگا، جس طرح اللہ تبارک وتعالی مخلوق کے ساتھ رحم دلی سے پیش آنے پر خوش ہوتا ہے، اور بے پناہ اجر و ثواب عطا فرماتا ہے، ایسے ہی اگر کسی جاندار کے ساتھ ظلم و نا انصافی کا معاملہ کیا جائے تو اس کو اسلام بالکل بھی پسند نہیں کرتا بلکہ سختی کے ساتھ اس سے روکتا ہے، اسلام میں کسی جاندار کو ستانے اور پریشان کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، خلق خدا پر ظلم ڈھانے والے خدا کے نزدیک اتنے برے ہیں کہ حدیث پاک میں ہے کہ ایک پارسا اور عبادت گذار عورت صرف اس وجہ سے واصل جہنم ہو گئی کہ اس نے ایک مسکین بلی کو بھوکا مار دیا تھا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس عورت کو جہنم میں دیکھا ہے ، ذرا وہ حدیث یاد کیجئے جو محدثین کی اصطلاح میں مسلسل بالاولیۃ کے لقب سے ملقب ہے، کیونکہ بہت سے محدثین کا معمول یہ تھا کہ جب وہ درس حدیث کا آغاز فرماتے تو سب سے پہلی حدیث جو اپنے طلبہ کو یاد کراتے وہ یہی حدیث تھی، اسی وجہ سے اس کا مبارک نام ہی مسلسل بالاولیۃ پڑ گیا، حدیث پاک یہ ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا *الراحمون یرحمھم الرحمن ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء* حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ رحم دلی کا جذبہ اختیار کرتے ہیں اور خلق خدا کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آتے ہیں ان پر خدائے پاک بھی رحم فرماتا ہے، اسلئے تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کریگا، ایک شعر میں حدیث پاک کے دوسرے جملہ کا کتنا عمدہ ترجمہ کیا گیا ہے *کرو مہربانی تم اہل زمین پر* *خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر*

خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں پر خدائے پاک مہربان کیوں نہ ہو، آخر یہ ساری مخلوق اسی کا تو کنبہ ہے، اور کنبے والوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے والوں سے دل خوش ہوتا ہی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ملاحظہ کیجئے، فرماتے ہیں * *الخلق عیال اللہ فأحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ* مطلب یہ ہے کہ یہ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اور اللہ تبارک و تعالی کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ بہتر سلوک کرے، خدا غریق رحمت فرمائے خواجہ الطاف حسین حالی رحمۃ اللہ علیہ کی روح کو، انہوں نے کتنی عمدگی کے ساتھ حدیث پاک کے پہلے ٹکڑے کو شعر کا جامہ پہنا دیا ہے، *یہ پہلا سبق ہے کتاب ھدی کا* *کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا* معمولی مٹی سے مختلف قسم کی چیزیں تیار کرنے والے کمہار کو اپنی بنائی ہوئی اشیاء کتنی عزیز ہوتی ہیں، اور وہ انہیں کس طرح سے سینت سینت کر پورے جتن کے ساتھ رکھتا ہے، اگر کوئی اسی کی طرح اس کی بنائی ہوئی چیزوں سے پیار کرے ،اور انکی حفاظت کرے تو کمہار کا دل اس سے کتنا خوش ہوگا اس کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں،

پہر خدائے پاک کیوں نہ خوش ہو اپنے ان بندوں سے جو اس کی بنائی ہوئی شاہکار و بے نظیر مخلوق سے رحم دلی سے پیش آتے ہیں، ان سب باتوں کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ایک صاحب ایمان بندے کا دل مخلوق کے تئیں جذبۂ ہمدردی و غمخواری سے سرشار ہوتا، خلق خدا سے اسے بے پناہ لگاؤ ہوتا، انہیں خوش دیکھکر اس کا دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا ، اور غمزدہ پاکر تڑپ اٹھتا، اس کا دل خلق خدا ہی کیلئے دھڑکتا، اور نسل انسانی کی فلاح و بہبود کیلئے ہر وقت کوشاں رہتا، اس کا تن من دھن خلق خدا کی کامیابی و کامرانی کیلئے نثار ہوتا، اس کی تمام تر توانائیاں خلق خدا کی راحت رسانی میں صرف ہوتیں، اگر وہ انکے لئے کچھ کر پاتا تو مسرت و شادمانی سے اسکی طبیعت جھوم جھوم اٹھتی، اور کچھ نہ کر پانے کی صورت میں افسردہ اور بجھا بجھا رہتا، بالکل کھویا کھویا سا جیسے کسی بیش قیمت چیز کی فکر و جستجو میں سرگرداں ہو، خدائے پاک کی پیدا کی ہوئی ہر مخلوق کی محبت سے اس کا دل معمور و آباد ہوتا، خلق خدا میں سے ہر کسی کی تکلیف اسے بے قرار کر دیتی، کسی کو مصیبت میں دیکھکر اسے یوں لگتا کہ وہ مصیبت خود اسی پر ٹوٹی ہے، درد خواہ کسی کا بھی ہو وہ اسے اپنے سینے سے لگاتا، اور اس سے چھٹکارا پانے کیلئے رات دن ایک کر دیتا، اسے اس بات کا یقین کامل ہوتا کہ اگر اللہ تبارک و تعالی تک پہنچنا ہے، اسکی محبت حاصل کرنی ہے، اس کے چہیتے بندوں کی فہرست میں نام لکھوانا ہے، تو خلق خدا کی خدمت کرنی ہوگی، خدمت خلق خدائے تعالی تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے، اس راستے پر چلنے والوں کا منزل مقصود تک پہنچنا بالکل یقینی بات ہے، سچ کہا ہے *خدمت خلق سے خدا ملتا ہے* مگر رونا تو اس بات کا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے، ایسے لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو سارے جہاں کا درد دل سے لگائے منزل کی طرف رواں دواں ہیں، جنکی زندگی اس شعر سے عبارت ہے *خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر* *سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے* برا ہو خود غرضی کا، اس نے لوگوں کو ایسا قابو کیا ہوا ہے کہ کوئی اس کے خول سے باہر آ ہی نہیں پا رہا، اکثریت اسی روگ میں مبتلا ہے ، مطلب پرستی لوگوں کی زندگی سے ایسے چمٹ گئی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی طرف توجہ کر ہی نہیں پاتے جن سے انکی کوئی غرض وابستہ نہ ہو، ان کے درد کو اپنا درد انکے غم کو خود کا غم سمجھنا تو دور رہا، بلکہ بہتیرے تو ایسے ہیں جنہیں دوسروں کی تکلیف سے خوشی ہوتی ہے، جبکہ معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے شماتت سے منع فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ،، کسی کو تکلیف میں دیکھکر خوشی کا اظہار مت کرو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی اس کو اس مصیبت سے نجات عطا فرما دے ، اور تمہیں مبتلا کردے ، کسی شاعر نے کہا ہے *بربادئ گل پہ ہنسی جب کوئی کلی* *آواز دی خزاں نے کہ تو بھی نظر میں ہے* کتنوں کا حال تو یہ ہے کہ وہ اپنی دنیا میں مگن ہیں، انہیں بس خود سے سروکار ہے، کسی سے کوئی واسطہ نہیں، انہونے اپنی زندگی کا اصول یہ بنایا ہوا ہے کہ ہمیں کسی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ،اس میں بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جنہیں لوگوں سے بہت اذیتیں پہنچی ہیں، حالات کے ستائے ہوئے ہیں، لیکن کیا اس بنیاد پر اسکی گنجائش ہے کہ اس طرح بن جایا جائے کہ کسی سے کوئی ہمدردی ہی نہ رہے، الفت و محبت سے بیگانہ ہوں، نہ یہ کسی سے تعلق رکھیں نہ کوئی ان سے، اس کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ اسلام میں اس طرح زندگی گزارنے کی کوئی گنجائش نہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں * *المؤمن یألف و یؤلف ولاخیر فیمن لا یألف ولا یؤلف*اسلئے اگر مومن کامل بننا ہے تو لوگوں سے الفت کرنی ہوگی، لوگوں سے مل جل کر سماج اور معاشرہ کا ایک حصہ بنکر رہنا ہوگا، لوگوں سے کٹ کر ان سے دوری اختیار کرکے زندگی گزارنا اخلاق نبوی کے خلاف ہے، جو دل بندگان خدا کو مبتلائےمصیبت دیکھکر تڑپتا نہ ہو وہ دل دل نہیں پتھر کی سل ہے *تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی* *نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینے میں* *محمد غفران قاسمی استاذ جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڈھ*

Comments are closed.