اگر اب بھی نہ جاگو تو

 

محمد انتخاب ندوی 

 

آج مؤرخہ ٢٠/دسمبر/٢٠٢٠بوقت صبح بوقت از ٨ تا٩ اگر اب بھی نہ جاگو تو کے موضوع کے تحت جناب مولانا عبدالماجد قاسمی کی نگرانی میں غیر مسلموں میں طریقہ دعوت کے سلسلہ کی پہلی کڑی کا آغاز ہوا جس میں مہمان محاضر مبلغ اورماہر ڈاکٹر جناب جمشید صاحب نے قرآن وحدیث کی روشنی میں جامع ومانع اور قیمتی محاضرہ پیش کیا جسکا خلاصہ حسب ذیل ہے

 

آپ نے The Importants of Dawat کے ذیل میں سب سے پہلے تین قرانی آیات کی تلاوت کی 

 

1۔واذ قال ربک للملئکة انی جاعل فی الارض خلیفة: سورہ بقرہ ٣٠

 

2۔وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ: المنافقون٨

 

3۔ولاتھنوا ولاتحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنون آل عمران ١٣٩

 

مذکورہ آیات قرانیہ کی روشنی میں فرمایا کہ آج پوری دنیا پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جاۓ تو کہیں بھی مسلم قوم اس معیار پر پوری نہیں اتر رہی ہے؛ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے بذات اس کا جواب دیتے ہوۓ فرمایا کہ آج مسلمانوں نے اپنی مفوضہ ذمےداریوں سے مکمل طور پر پہلو تہی اختیار کر لیا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ ان پر بھی وہی حالات آرہے ہیں جنکی طرف اللہ کے  نبیﷺ نے اشارہ فرمادیا تھا عن ابي سعيد رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:” لتتبعن سنن من قبلكم شبرا بشبر وذراعا بذراع حتى لو سلكوا جحر ضب لسلكتموه، قلنا: يا رسول الله اليهود والنصارى، قال: فمن”. رواہ البخاری٣٤٥٦

 

 ترجمہ :حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم لوگ پہلی امتوں کے طریقوں کی قدم بقدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی ساہنہ کے سوراخ میں داخل ہوئے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کی مراد پہلی امتوں سے یہود و نصاریٰ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کون ہو سکتا ہے؟“

 

آپ نے مزید فرمایا کہ ایک زمانہ میں اللہ تعالی نے یہودیوں کو بھی افضل امت بنایا تھا جسکی طرف قران اشارہ کرتا ہے یا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ:بقرہ(47)

 

بلکہ خود بھی یہودیوں کو اپنے تئیں افضلیت کا احساس تھا وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً (بقرہ ٨٠)لیکن جب بنی اسرائیل نے میثاق کو تار تار کیا،اپنی مقدس کتاب کی پامالی کی،اپنی مفوضہ ذمےداریوں کے ساتھ کھلواڑ کیا تو اللہ تعالی نے ان پر تاقیامت لعنت وذلت کی مہر ثبت کردی ارشاد باری ہے ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ(آل عمران١١٢)

 

ڈاکٹر صاحب نے ہمیں مخاطب کرتے ہوۓ ہوۓ فرمایا اللہ تعالی نے اس امت کو خیر امت کے لقب سے ملقب کیا ہے اور اسکی وجہ اسکا الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کے عظیم فریضہ کو انجام دینا ہے اور اگر معروف کی فہرست تیار کی جاۓ تو یقینا توحید کو اولیت حاصل ہوگی اور اسی طرح اگر منکر کی فہرست تیار کی جاۓ تو شرک کو اولیت حاصل ہوگی،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس امت نے اس فہرست کو مد نظر رکھتےہوۓ اپنے فریضہ کو کس حد تک انجام دیا ہے،آپ نے فرمایا کہ یقینا آج یہ امت پابندی سے مساجد میں دووقت کی تعلیم،ہفتہ کا گشت،مہنہ کا جوڑ،جلسوں کے منعقد کرنے پر سوفیصد پابند ہے مگر اسکا فائدہ صرف اور صرف ٢٠ فیصد مسلمانوں کو پہنچتا ہے اور ٨٠  فیصد غیر مسلم محروم ہیں حالانکہ توحید اور شرک کو اولیت کا مقام دیتے ہوۓ ان کے درمیان محنت کرنے کی ضرورت تھی اور ہے

 

آپ نے مزید فرمایا کہ اگر یہ امت دعوت کے فریضہ سے پہلو تہی اختیار کرے گی تو مندرجہ ذیل اللہ کے عذاب نازل ہونگے

 

1۔اللہ کی لعنت

 

2۔ذلت وخواری

 

3۔اختلاف

 

4۔ظالم بادشاہ کا مسلط ہونا

 

5۔نیک لوگوں کی دعاؤں کا قبول نہ ہونا 

 

اگر مذکورہ عذاب الہی پر نظر ڈالی جاۓ تو تقریبا تمام عذابوں کا نزو ہوچکا ہے، آخر کیوں؟اسکا واحد جواب ہے  معروف اور منکر کی فہرست میں مذکور پہلی صنف سے اعراض 

 

آپ نے اپنی بات کو مدلل انداز میں پیش کرتے ہوۓ قران میں مذکور بنی اسرائیل کے تینوں فرقوں کے واقعہ کوبیان کیا آپ نے تواصوا بالحق وتوصوا بالصبر کو مد نظر رکھتے ہوۓ فرمایا کہ اس راہ میں اولا پریشانیاں آئیں گی، انسان گرے گا چوٹ لگے گی، پھر اٹھے گا یہاں تک وہ اس میدان کا مردمجاہد ہوجاۓ گا جیسے ایک بچہ جب سائکل چلانا سیکھتا ہے تو پہلے گرتا ہے پھر اٹھتا ہے اور بتدریج ماہر ڈرائیور بن جاتا ہے

 

خلاصہ یہ ہے کہ اس امت مسلمہ بالخصوص علماء کرام کو موجودہ احوال کے پیش نظر اس نازک اور اہم ترین ذمے داری کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے

Comments are closed.