اویسی کے مخلص مخالفین کی خدمت میں چند گزارشات

محمد سعیدالحق ندوی ،خادم التدریس جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم ،بنگلور

‌آج کل سیاست کی دنیا میں غیر تو غیر، اپنوں کے نشانہ پر جو سب سے زیادہ ہے، اس کا نام اسد الدین اویسی ہے. اویسی اس وقت بھی نشانہ پر تھے جب ہار رہے تھے کہ خود تو جیت نہیں رہے ہیں، بی جے پی کو جیتنے میں مدد کر رہے ہیں، جب جیتنا شروع کیا تو اب یہ اعتراض کیا جارہا ہے کہ جن سیٹوں پر نہیں جیت سکے، اس پر بی جے پی کو جتادیا جب کہ یہ بات خلاف واقعہ یعنی جھوٹ تھی، اب تمام سیٹوں پر جیت درج کرنے کے بعد بھی نشانہ پر ہے کہ کے سی آر کی سیٹیں بی جے پی نے کیوں جیتی، اویسی ہی اس کا ذمہ دار ہے، اور دو سیٹ رکھنے والی کانگریس نے 150 سیٹوں پر امیدوار کھڑا کیوں کیا، اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے، 148سیٹوں پر ہار کر کس کو فائدہ پہنچایا اس سے کوئی مطلب نہیں، متحدہ آندھرا پردیش پر مکمل کنٹرول رکھنے والی پارٹی دوسیٹ جیت کر بی جے پی کو فائدہ پہونچائے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا جب کہ 51 سیٹوں میں 44 سیٹوں پر جیت درج کرنے والے اویسی سے اس کا مواخذہ ہورہا ہے کہ بی جے پی کیوں جیتی، اب اس طرح کے اعتراض کرنے والوں کوکیا کہا جائے

جو لوگ بھی اویسی کی مخالفت کر رہے ہیں وہ اویسی کی سیاست کی تو مخالفت کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتاتے ہیں کہ آخر ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے استحصال سے مسلمان خود کو کیسے بچائیں؟٠ جو لوگ بھی اس طرح اویسی اویسی کی رٹ لگائے ہوئے ہیں ان سے گزارش ہے کہ کوئی ایسا متبادل بتائیں جس ہم ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے استحصال سے بچ جائیں، اور بی جے پی بھی مضبوط نہ ہو.چھوٹی سے چھوٹی ذات کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے پارٹیاں دس بار سوچتی ہیں ان سے معاہدے کرتی ہیں، ان کے مطالبات مانتی ہیں، ان کے لحاظ سے ان کو ٹکٹ سے لے وزارت تک میں نمائندگی دیتی ہیں لیکن چونکہ ہمارے بارے میں ان کو یقین کامل ہے کہ وہ ہمارے خلاف سینکڑوں چالیں چلیں، ہمارے حق میں نہ آواز اٹھائیں اورنہ اٹھانے والوں کو آواز اٹھانے کی اجازت دیں، بلکہ وہ خود بھی ہمارے خلاف کھل کر کام کریں، پھر بھی مسلمانوں کا ووٹ ان کے لئے یقینی ہے. لہٰذا آپ حضرات ایسا روڈ میپ ضرور پیش کریں جس سے ہم اویسی کے سائیڈ ایفکیٹ سے بھی بچ جائیں، ہمارے ووٹ کی اہمیت بھی باقی رہے اور بی جے پی مضبوط بھی نہ ہو، ورنہ آپ کتنا ہی ایجنٹ ایجنٹ چلائیں، چیخیں، اویسی کی طاقت بڑھتی ہی جائے گی اور مسلمان اس کی طرف بڑھتے ہی جائیں گے، کیوں کہ ان کو کوئی متبادل نظر نہیں آرہا ہے.

آپ حضرت کی خدمت میں ایک مزید سنجیدہ سوال ہے، امید ہے کہ تسلی بخش جواب دیں گے

وہ سوال یہ ہے کہ کیا صرف مسلمان اپنے بل بوتے پر سیکولرزم نامی چیز کی اگر وہ باقی ہے تو اس کی حفاظت کرسکتے ہیں؟ اگر کرسکتے ہیں تو کیسے ضرور بتائیں؟

احقر کا ماننا ہے کہ بی جے پی نے ضرورت سے زیادہ طاقت حاصل کرلی ہے، اگر اس کو کمزور کرنا ہے تو کسی نہ کسی پارٹی کو قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے کو اس کے مقابلے کے لئے سامنا آنا ہوگا اور یہ کام ملکی سطح پر کانگریس ہی کرسکتی تھی اور کرسکتی ہے لیکن اب اس کی حالت یہ ہے کہ پہلے اس نے اپنے دور میں حکومت میں ہندتوا وادی طاقتوں کو تمام طرح کی چھوٹ دے کر خوب سے خوب مضبوط کیا اور اب 2014 کے بعد سے حالت یہ ہے کہ اس نے مقابلہ کرنا ہی چھوڑ دیا، بلکہ اب تو ہول سیل میں ایم ایل اے فراہم کرنے کا کام کر رہی ہیں اور دیگر علاقائی پارٹیاں یا تو بی جے پی کی ہمنوائی میں عافیت سمجھ رہی ہیں یا پھر اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے سی بی آئی، ای ڈی وغیرہ کے ڈر سے خاموشی میں ہی اپنی نجات سمجھ رہی ہیں اور بی جے پی یعنی برہمنوں نے سب سے بڑی کامیابی یہ حاصل کی کہ 97/فیصد غیر ہندوؤں کو ہندو بناکر اپنی صفوں میں شامل کرلیا، اب صورتحال یہ ہے کہ کہ ہندو قوم پر مذہب کا نشہ سر چڑھ کر بول رہا ہے اور وہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو اپنا نجات دہندہ سمجھ رہی ہیں،مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی ہر کاروائی اس کے لیے سنجیونی بوٹی کا کام کر رہی ہے . مسلمانوں کے خلاف کام کرنا ہی یہاں کی بڑی آبادی کے لیے کافی ہے، ان کو بے روزگاری سے، آسمان چھوتی قیمتوں سے، ملک کو چند ہاتھوں میں سونپ دینے سے کوئی مطلب نہیں ہے.

اس صورت حال میں کیا یہ مسلمانوں کے لئے مناسب نہیں ہے کہ ذلت کی زندگی جینے کے بجائے عزت کے ساتھ جینے کی کوشش کرنا شروع کریں؟ اور سیاسی طور پر یہ کام اپنی قیادت کے قیام کے علاوہ ممکن نظر نہیں آرہا ہے. چونکہ ہم نے بڑے بڑے سیکولرزم کے نمائندوں کو آزما کر دیکھ لیا، سب نے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا. اب یہ بتائیں کہ کیا اب بھی اپنی قیادت کا قیام اور اس کی مضبوطی ضروری نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر اس کا بدل کیا ہے؟ اور اگر آپ حضرات کو لگتا ہے کہ اپنی قیادت کا قیام ضروری ہے، اور اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے؟ تو پھر کوئی نہ کوئی قائد بھی چاہیے اور سیاست کے میدان میں ہمارے پاس اویسی سے بڑھ کر کوئی امیدوار نظر نہیں آتا ہے. ایک بات واضح کردوں کہ میں اویسی کا بھکت نہیں ہوں بلکہ کئی چیزوں میں شدید اختلاف رکھتا ہوں، لیکن ان تمام اختلافات کے باوجود اس کی خوبیوں کا قائل ہوں اور اس کا متبادل نہ ہونے کی وجہ سے غنیمت سمجھتا ہوں.

آخری بات یہ ہے کہ جیسا اب تک کے تجربات سے یہ بات دن کے اجالے کی طرح سے صاف ہوگئی ہے کہ موجودہ سیکولر جماعتیں ہمارے لئے نافع نہیں بلکہ مضر بن چکی ہیں اس صورت میں ہماری قیادت کے قیام کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا ہے، ایسا احقر کا ماننا ہے تو پھر کوئی بھی ہماری قیادت کے قیام کے لئے اٹھے گا اس پر ایسا ہی الزام لگے گا، اور پھر اس سے بی جے پی مضبوط ہوگی، اس وقت کیا کریں گے؟

یہ احقر کی ذاتی رائے ہے جسے آپ حضرات کے سامنے پیش کردیا ہے، تہذیب کے دائرے میں اس سے اختلاف کی گنجائش ہے.

وماتوفیقی الا باللہ.

Comments are closed.