کرناٹک ہائیکورٹ کا شاندار فیصلہ ۔۔۔. @Wadoodsajid

ایم ودود ساجد
کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی بینچ نے حکومت کرناٹک کے اس حکمنامہ پر اسٹے لگادیا ہے جس کے تحت اس نے بی جے پی کے لیڈروں’ ممبران اسمبلی اور وزیروں کے خلاف عاید 61 مجرمانہ معاملات واپس لے لئے تھے۔۔۔
پچھلی سماعت میں ہائیکورٹ نے نچلی عدالتوں کو بھی ہدایت دی تھی کہ وہ حکومت کے اس فیصلہ کی پابند نہیں ہیں اور انہیں اپنا آزاد تجزیہ کرنا چاہئے ۔۔ ہائیکورٹ نے سرکاری وکیلوں (پبلک پراسکیوٹرس) کو بھی ہدایت دی تھی کہ اگر حکومت ان سے مجرمانہ معاملات کو واپس لینے کیلئے کہے تب بھی انہیں اپنا دماغ لگانا چاہئے اور مقدمات کا اپنے طور پر جائزہ لینا چاہئے ۔۔۔
یہ ایک بہت تفصیلی فیصلہ ہے۔۔ اس فیصلہ سے کرناٹک کی بی جے پی حکومت کے سامنے ایک پریشان کن صورتحال کھڑی ہوگئی ہے۔۔۔ ممکن ہے کہ حکومت اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔۔۔ لیکن سپریم کورٹ سے شاید ہی راحت ملے۔۔۔ وجہ یہ ہے کہ کرناٹک ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کے ہی ایک فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ فیصلہ دیا ہے۔۔
2017 میں یوپی کا وزیر اعلی بنتے ہی یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی اپنے علاوہ بی جے پی کے 13 لیڈروں کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے تمام مقدمات واپس لے لئے تھے۔۔۔ یوگی نے اسمبلی میں خود بتایا تھا کہ 1995 میں یوپی بھر میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہوں نے "دھرنا پردرشن” کیا تھا اور ان کے خلاف 20 ہزار مقدمات درج کئے گئے تھے۔۔
اب سوال یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ اس سلسلے میں فیصلہ دے چکا ہے تو کیوں کر یوگی اپنے خلاف معاملات کو ختم کرانے میں کامیاب ہوگئے ۔۔جبکہ خود یوگی حکومت نے یوپی کے مختلف گروپوں اور خاص طور پر سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والے سینکڑوں لوگوں کو درجنوں مقدمات لگا کر جیلوں میں ٹھونس دیا۔۔
کیا یہ سب گروپ اور ماخوذ افراد اب کرناٹک ہائیکورٹ کے مذکورہ فیصلہ کی روشنی میں سپریم کورٹ کے ماضی کے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے الہ آباد ہائیکورٹ میں یوگی کے اس فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کرسکتے جس کے تحت انہوں نے اپنے خلاف درج ہونے والے اتنے سارے معاملات بیک جنبش قلم واپس لے لئے تھے۔۔۔؟
Comments are closed.