مسئلہ فلسطین کا حل مشکل نہیں۔

محمد صابر حسین ندوی
7987972043
حقیقت یہ ہے کہ مسجد اقصی اور فلسطین کے مسئلہ کو موجودہ عرب نے کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں، عرب اتحاد اور عربی قومیت کی بنیاد پر جو کچھ کیا گیا وہ کوئی ایمانی حمیت، اسلامی غیرت اور سرفروشی کی تمنا کے ساتھ نہیں کیا گیا؛ یوں تو وہ اسرائیل سے نفرت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس کے وجود کو برداشت کرنا نہیں چاہتے؛ لیکن اس کے خلاف متحدہ محاذ تیار کرنے اور ایک سر ہو کر اسے پٹخنی دینے کی کوشش ہی نہیں کرتے، اور آج نوبت تو یہ ہے کہ کھلے عام اسرائیل کے حق میں قصیدہ خوانی کی جارہی ہے، دبے الفاظ نہیں بلکہ صریح لفظوں اسے قبول کرنے کی شرطیں اور اپنی مجبوریاں شمار کروائی جارہی ہیں، ایک زمانہ تھا جب اخوان المسلمین کے جاں باز اور نوجوانوں نے سربکف ہو کر علم جہاد بلند کیا تھا، اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مسئلہ کا حل نکال لیں گے؛ مگر مصر جمال عبدالناصر کے قدموں میں بچھا ہوا تھا، ہر کسی زبان پر ان کا چرچا تھا، محبت و شغف کی قسمیں کھائی جارہی تھیں، مگر اپنے مسیحا کی حقیقت نہ جاننے کی بنا پر وہ مایوس ہوئے؛ البتہ جب نوبت آئی تو انہوں نے فوجیوں کے ساتھ دوش بددوش کھڑے ہو کر اسلامی علم تھامے رکھا؛ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی، روس، برطانیہ اور امریکہ بھی اپنی قوت و طاقت کے ساتھ اسرائیل کی حمایت میں تھا، اگرچہ کوئی علی الإعلان اپنے عشق کا اقرار کرتا ہو یا کوئی درپردہ اپنے محبوب کے سحر کا گن گاتا ہو، جب مسجد اقصی یہودیوں کی بربریت اور سنگ دلی کی شکار ہوئی اور انہوں نے اس پر اپنا دعوی مضبوط کر لیا تو اس کے بعد رہی سہی امید بھی منقطع ہوتی ہوتی گئی، رفتہ رفتہ عرب ممالک ہی اسرائیل کو اپنا محبوب ماننے لگے، چونکہ وہ عربیت کے نشہ میں تھے اس لئے ایک مذہبی مقام نے ان کے دل پر کوئی چوٹ نہ لگائی، اگر کسی باحمیت نے اف کی تو اس کی زبان کاٹ لی گئی، جیلوں میں ٹھونس دیا گیا، اور دردناک اذیتوں سے دوچار کیا گیا، یہ تسلسل اب بھی باقی ہے؛ بلکہ اب تو بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے، جو کچھ کبھی پس دیوار ہوا کرتا تھا اب وہ سب کچھ ڈنکے کی چوٹ اور شرم کا پردہ چاک کرکے ہوتا ہے، اب شاید ہی کسی دانا کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہو کہ فلسطین عرب ممالک کیلئے ایک عام مقام اور بیت المقدس ایک عام مسجد سے بڑھ کر نہیں ہے، بلکہ گاہے گاہے ایسی خبریں آتی رہی ہیں جن میں خود عربی اسکالر ان مقدس مقامات کی توہین کرتے نظر آتے ہیں.
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمانوں کے پاس اس وقت وہ تمام وسائل ہیں جن سے فلسطین کی بازیابی آسان ہے، سب سے بڑھ کر دولت کی ایسی ریل پیل ہے کہ دنیا کی دوسری قومیں اس کے ثلث کو بھی نہیں پہونچتیں، اگر وہ ان ذرائع کو ایمانداری کے ساتھ صحیح مقام میں صرف کریں تو دنیا ان سے ہیبت کھائے گی، ساتھ وہ صرف اتنا گرہ باندھ لیں کہ ان کا قومی افتخار اسلام ہے، دین ہی ان کیلئے سب کچھ ہے، اور مخلص بھائی مسلمان کے سوا کوئی نہیں ہے، وہ اگر مظلوم ہے تو اس کی مدد کرنا بلا کسی تفریق و امتیاز کے فرض ہے؛ خواہ وہ دنیا کے کسی جگہ اور خطہ سے تعلق رکھتے ہوں، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ نے تو بہت پہلے ہی بتایا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ کس طرح حل ہوسکتا ہے، یہ نصف صدی سے بھے پہلے کی بات ہے، اسے آپ جدید دور پر قیاس کریں گے تو مزید احساس ہوگا کہ واقعی اس بنیاد پر تو فلسطین اور بیت المقدس کی بازیابی کہیں زیادہ آسان ہے، آپ رقمطراز ہیں: "یہود آج تک اپنے منصوبوں میں اس بنا پر کامیاب ہوتے رہے ہیں کہ دنیا کی بڑی طاقتیں ان کی حامی اور مددگار بنی رہی ہیں اور ان کی اس روش میں آئندہ بھی کسی تغير کے امکانات نظر نہیں آتے، خصوصاً امریکہ کی پشت پناہی جب تک اسے (اسرائیل کو) حاصل ہے، وہ کسی بڑے سے بڑے جرم کے ارتکاب سے بھی باز نہیں رہ سکتا…… اقوام متحدہ ریزولوشن پاس کرنے سے بھی بڑھ کر کچھ نہہ کرسکتی، اس میں یہ دم خم نہیں ہے کہ اسرائیل کو کسی مجرمانہ اقدام سے روک سکے، دنیا میں اگر ایک کروڑ چھیاسٹھ لاکھ یہودی اگر ایک طاقت ہیں، تو ستر /پچھتر کڑور مسلمان بھی ایک طاقت ہیں، اور ان کی تیس / بتیس حکومتیں اس وقت انڈونیشیا سے مراکو اور مغربی افریقہ تک موجود ہیں، ان سب کے سربراہ اگر سر جوڑ کر بیٹھیں اور روئے زمین کے ہر گوشے میں بسنے والے مسلمان ان کی پشت پناہی پر جان و مال کہ بازی لگا دینے کے لئے تیار ہوجائیں تو اس مسئلہ کو حل کر لینا ان شاءاللہ کچھ زیادہ مشکل نہ ہوگا” (ترجمان القرآن- ستمبر ١٩٦٩)
Comments are closed.