غیر مسلموں کے درمیان اصول دعوت

محاضر:مولانا عبدالماجد قاسمی چترویدی
مرتب:محمدانتخاب ندوی
گزشتہ یوم مبلغ اسلام نے اپنے سلسلہ دروس دعوت کو جاری رکھتے ہوۓ داعی کے مطلوبہ اوصاف پر روشنی ڈالتے ہوۓ اہم نکات بیان کئے جو حسب ذیل ہیں
1۔ داعی مناظرہ سے اجتناب کرے:
کیونکہ مناظرہ سے انسان میدان تو جیت سکتا ہے لیکن دل پر قبضہ نہیں کرسکتا ہے،اوردعوت سے انسان گرچہ میدان ہار جاۓ مگر *جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ* کا مصداق ہوتاہے،اور قرآن بھی اسی کی تاکید کرتا ہےادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (النحل١٢٥)
ہاں جب مناظرہ کی ضروت پڑے گی تو بوقت ضرورت اور بقدر ضروت اسکا بھی سہارا لیا جاۓ گا،مگر کامیاب داعی کا مزاج مناظرانہ نہیں ہونا چاہیے
2 ۔دھرم پرورتن اور دھرم کی اصلاح کے درمیان فرق
مولانا اس نکتہ کو سمجھاتے ہوۓ کہا کہ اگر ایک قلم میں کوئ نقص پیدا ہوجاۓ،یاتو اسکو بدل کر دوسرا قلم خریدا جاۓ یا اسی کی اصلاح کی جاۓ تو پہلی شکل کو **پرورتن**یا **تبدیلی**اور دوسری شکل کو اصلاح سے تعبیر کی جاۓ گی
اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ اگر کوئ شخص اسلام قبول کرتا ہے تو اسے دھرم پرورتن کہاجاۓگا یا دھرم کی اصلاح
اس اہم نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے آج مسلمانوں کے خلاف طوفان بدتمیزی بپا ہے توآئیے اسکو مسلمانوں کی سب سے بڑی کتاب *قرآن* ،اور برادران وطن کی سب سے مقبول کتاب *بھگوت گیتا مصنف شری کرشن جی* کی روشنی میں اسکا جائزہ لیتے ہیں
*قرآن شریف کی روشنی میں*
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (بقرہ٢١٣)
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (البینة٥)
ان دونوں آیات کی روشنی میں پوری انسانیت ایک کنبہ ہے اور ہرایک کو ایک رخ پرہی چلنے کا حکم دیا گیا ہے،لیکن اتباع شیطان کی وجہ سے کچھ راہ ہدایت سے منحرف ہوجاتے ہیں،چناچہ اگر کوئ داعی بتوفیق الہی اس غافل شخص کو صحیح راستہ پر لاتا ہے وہ *دھرم پرورتن* نہیں بلکہ *دھرم کی اصلاح* کررہاہے،
**بھگوت گیتا*کی روشنی*
راقم اسمیں مذکور عبارتوں کے مفہوم کو حوالہ تحریر کرتا ہے،اور وہ بالترتیب حسب ذیل ہے:
*الف* *دھرم* شاستر (شریعت)کے مطابق چلنا ہے، ناکہ اپنے من کے انوسار
*ب* ۔جوویکتی (شخص)دھرم شاستر کو چھوڑ دے گا وہ نہ یہاں سکھ پاۓ گا اور نہ وہاں
3۔ *وحدت دین اور وحدت ادیان کے درمیان فرق*
*وحدت ادیان* منزل ایک اور راستے الگ الگ
*وحدت دین* منزل ایک اور راستہ بھی ایک
اول الذکر فلسفہ کے ہمارے برادران وطن قائل ہیں اور اسی وجہ وہ دھوکے کے شکار ہیں،لہذا ہمیں پورے وثوق کے ساتھ کہنا چاہیے کہ ہماری منزل بھی ایک ہے اور راستہ بھی ایک،
4۔ *آسان گروپ کا انتخاب*
مولانا نے فرمایا کہ
"داعی اولا نرم مزاج لوگوں کے درمیان کام کرے تاکہ اول وہلہ ہی میں مخاطب کی سخت مزاجی اور تند خوئ کے تیجہ میں مایوسی کا دامن نہ تھامنا پڑے”مولانا نے بتایا کہ”آریہ سماج کا مزاج سخت ہوتا ہے ،لہذا اسکا کا انتخاب بعد میں کرے
5۔ *داعی گروہ میں مسلکی وسعت* اس نکتہ کا تعلق مسلمانوں سے ہے،یعنی داعی کے اندر مسلکی شدت نہ ہو،اور تمام مسالک والوں کو اس میں جوڑ کر چلے
*6۔منصوبہ بندی*
اگر منصوبہ بند طریقہ سے کام کیا جاۓ تو آدمی تو مر جاۓ گا لیکن اسکا کام زندہ جاوید رہیگا یعنی داعی کے پاس ایسے افراد ہوں جو اپنے اپنے میادین کے ماہر ہوں اور وہ اس میدان کے توسط سے اس کام کو آگے بڑھاۓ
7۔ *مثبت دعوت*
داعی کی گفتگو ہمیشہ مثبت ہونی چائیے اور ایسی گفتگو سے شدید اجتناب کرنا چاہیے جو برادران وطن کی دل آزاری کا سبب نہ بنے تاکہ سامعین بعد از گفت و شنید دوبارہ آنے کی دعوت دیں
8۔ *دعوت کی تیاری*
داعی کے ذھن و دماغ میں قرآن وحدیث میں مذکور عقائد مستحضر ہوں،اسی طرح سناتن دھرم میں جو لکھا ہے اسکا بھی مطالعہ کرتا رہے تاکہ داعی مخاطب کی مذھبی کتابوں کی روشنی میں گفتگو کرکے اسکا دل جیت سکے
Comments are closed.