جائز کام میں بھی ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے

۔مولانا بدیع الزماں ندوی
شریعت میں اسراف سے مراد یہ ہے کہ جائز کام میں ضرورت سے زیادہ خرچ کیاجائے ۔مثال کے طورپر بچے کی شادی کرنی ہے، جتنی رقم میں اس زمانے ، اس دور یا علاقے کے لحاظ سے شادی کے اخراجات پورے کئے جاسکتے ہوں ، اس سے زیادہ رقم آپ خرچ کریں ، دولت کا مظاہرہ کرنے کے لئے ، اپنی سخاوت کا ڈنکا بجوانے کے لئے ، ایک کی جگہ دو ، دوکی جگہ چار خرچ کریں ، یہ اسراف ہے۔
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
"اورحد سے مت گزرو، یقیناً وہ (الله تعالیٰ)حد سے گزرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔”(انعام :١٤١)
الله تعالیٰ کے اس ارشاد کا منشا یہ ہے کہ حد سے زائد خرچ نہ کرو، کیونکہ الله تعالیٰ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتا،یہاں تک کہ الله کی راہ میں خرچ کرنے میں بھی اعتدال سے کام لے، تاکہ سارے حقوق اداہوسکیں۔ان خیالات کا اظہار اہم افراد پر مشتمل ایک مجلس میں مختلف اخبار کے صحافیوں کے درمیان ملک کے مشہور عالم دین، ممتاز ماہر تعلیم مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی چیرمین انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈریسرچ ٹرسٹ بنگلور ومہتتم جامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور نے کیا۔انہوں نے اپنی گفتگو کاسلسلہ جاری رکھتے ہو ئے کہا کہ تبذیر یہ ہے کہ ناجائز کام میں دولت کو خرچ کیاجائے ، ناجائز کام میں ایک پیسہ بھی خرچ کیاجائے گا تو تبذیر ہوگا۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے۔”بیشک بے موقع مال اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں (یعنی اس کے مشابہ ہوتے ہیں)اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکر ہے۔”(بنی اسرائیل ۔٢٧)
الله تعالیٰ نے شیطان کو عقل کی دولت دی، اس نے اس کو الله تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کیا، اسی طرح فضول خرچی کرنے والوں کو الله تعالیٰ نے مال کی دولت عطافرمائی مگر وہ اس کو الله تعالیٰ کی نافرمانی میں خرچ کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ جائز کام میں حدود کے مطابق ایک لاکھ روپیہ بھی خرچ کریں گےتو اسراف کی حدود میں نہیں آئے گا۔
انہوں بڑے ہی دلنشیں انداز میں کہا کہ اسراف کا تعلق بہت حدتک زمانے کے معیار اور عرف سے ہوتا ہے، جس زمانے کا جو عرف ہے، جس علاقے کا جو معاشی معیار ہے، جس علاقے کی جو سطح ہے، اس سطح کے حساب اور لحاظ سے اسراف کا تعین ہوگا ،پیچھے رہ جانے والے طبقے یا علاقے میں اسراف کا معیار اور ہوگا۔ ایک ترقی یافتہ ملک میں اگر مسلمان ہوں ، ان کے لئے اسراف کا معیار اور ہوگا۔ایک ایسے علاقے میں جہاں لوگ ائرکنڈیشنگ کے عادی ہوں ، پورے گھر کو ائرکنڈیشنڈ کرلینا اسراف نہیں سمجھا جائے گا ، لیکن کسی ایسے گاؤں یا دیہات میں جہاں موسم معتدل رہتا ہو۔ائرکنڈیشن کااہتمام کرنا اور پورے گھر کو ٹھنڈا کرلینا اسراف سمجھا جائے گا ۔
چونکہ شریعت کا منشا یہ ہے کہ مال ودولت ضائع نہ ہو ،مال ودولت کا غلط استعمال نہ ہو ، بلکہ اس کاخرچ، تقسیم اور پھیلاؤ جتنا وسیع ہوسکے اس کو یقینی بنایا جائے ، اور اس کا استعمال صحیح طریقے کے مطابق ہو، عقل ، قانون اور منطق کے مطابق دولت کا استعمال ہو۔
Comments are closed.