ہندوستانی کسانوں کی تحریک‘ تاریخ کے آئینے میں

 

عاقل حسین،مدھوبنی

موبائل ۔9709180100

ای میل۔[email protected]

 

اپنے دل سے جانیں پرائے دل کا حال؛ جی ہاں! اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ ملک کو اناج فراہم کرنے والے کسانوں کا حال جو کڑاکے کی ٹھنڈ میں کھلے آسمان کے نیچے دن رات سڑکوں پر بیٹھ کر مرکزی حکومت کے ذریعہ کسانوں سے مشورہ کئے بغیر بنائے گئے 3؍ زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ جس طرح ملک کے کسان آزادی سے قبل انگریزی دور حکومت میں زرعی مخالف پالیسیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے‘ آج پھر اپنی دیسی حکومت سے متاثر ہورہےہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ملک کی آزادی سے پہلے بھی زری پالیسیوں نے کسان تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔ ویسا ہی عالم آج ملک میں مودی کے دور حکومت میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ من مانے ڈھنگ سے چل رہی مرکز کی مودی حکومت نے ملک میں سال 2014؍ سے اب تک ملک میں کئی تحریک کو کچلنے کا کام لیکن انہیں نہیں معلوم کہ سال 1857؍ کی فوجی بغاوت ناکام ہونے کے بعد بغاوت کا مورچہ کسانوں نے ہی سنبھالا تھا، کیوںکہ انگریزوں اور ریاستوں کی سب سے بڑی تحریک ان کے استحصال سے ہی شروع ہوئی تھی۔ آج بھی مرکز کی مودی حکومت اور من مانے قانون اور استحصال کے سبب ملک کے کسان تحریک کو آمادہ ہوئے ہیں۔ ملک کا کسان ایک مرتبہ پھر سڑک پر ہے۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت کی جانب سے لائے گئے 3؍ زرعی قوانین کے خلاف کسان سڑکوں پر اُتر گئے ہیں۔ کسانوں کو ڈر ہے کہ نئے قانون سے منڈیاں ختم ہوجائیںگی ساتھ ہی ایم ایس پی پر ہونے والی خریداری بھی رک جائے گی۔ دوسری جانب حکومت کے دعوے اس کے برعکس ہے۔ یعنی ایم ایس پی پر خریداری بند نہیں ہوگی مگر ملک کے کسانوں کو یہ خوف دامن گیر ہے کہ مودی حکومت نے جس طرح سے سرکاری اداروں کو ملک کے کارپوریٹ کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے کہیں اسی طرح کی سازش کر زرعی سیکٹر کو بھی نئے قانون کے توسط سے گروی نہ رکھ دے۔ ملک میں ’دیس بھکت‘ کا ذکر ہمیشہ ہوتا رہا ہے اور جنگ آزادی میں جن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اپنی جان کی قربانی دی انہیں سچا محب وطن کہا جاتا ہے مگر ہماری نظر میں کسان بھی سچے محب وطن ہیں۔ ملک کے عوام کو نہیں بھولنا چاہئے کہ جنگ آزادی میں ان کسانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں‘ ملک کو جب بھی اناج کی ضرورت پڑی ہے، کسانوں نے اپنی محنت کے بدولت ملک کے عوام کو اشیائے خوردونوش کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ مرکزی حکومت کو سوچنا چاہئے کہ حال ہی میں جب ملک میں کورونا کے سبب لاک ڈائون کیا گیا تو حکومت نے دوسرے ممالک سے اناج لاکر نہیں دی بلکہ انہی کسانوں کی محنت سے پیدا اناج ملک کے عوام کو فراہم کیا۔ آج ملک کی دارالسلطنت کی سڑکوں پر نئے زرعی قوانین کی مخالفت میں تحریک کررہے کسانوں کو مرکز کی مودی حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم منڈیوں میں بہتری کے لئے تینوں زرعی قوانین لے کر آئے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ نئے قوانین میں کہیں بھی منڈیوں کی بہتری کا ذکر نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نیا زرعی قانون کہیں کسانوں کی تباہی کا سبب نہ بن جائے۔ ویسے ملک کے عوام نے مودی حکومت میں اب تک دھوکے ہی کھائے ہیں۔ بہتری کے نام پر ملک کے عوام نے نوٹ بندی کی مار کو برداشت کئے، اس کے نتائج یہ رہے کہ ملک میں چھوٹے چھوٹے کاروبار تباہ ہوگئے۔ بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا۔ عالم یہ ہے کہ آج بھی ملک نوٹ بندی کے نقصانات سے ابھرنہیں سکا ہے۔ جو چھوٹے چھوٹے کاروبار محفوظ رہ گئے تو حکومت ہند نے جی ایس ٹی کو بھارت کی معاشی آزادی بتاکر جی ڈی پی بڑھانے کا دعوی کیا اور نصف شب میں جی ایس ٹی کا نفاذ کردیا گیا ملک کی جی ڈی پی آگے نہ بڑھ سکی اور ملک کی جی ڈی پی کافی نیچے گرتی چلی گئی۔ کورونا دور میں بغیر تیاری ملک میں لاک ڈائون نافذ کردیا گیا۔ کورونا تو ختم نہیں ہوا مگر ملک کے ہزاروں لاکھوں مزدوروں کا مستقبل ملک کی سڑکوں پر تباہ ہوگیا۔ لاکھوں افراد کی نوکری چھن گئی۔ لوگ بے روزگار ہوگئے۔ بے روزگاری کے سبب ہزاروں کنبہ سڑکوں پر آگیا۔ اب مودی حکومت کے نشانے پر ملک کے کسان ہیں۔ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے زرعی قوانین کو کسانوں کے مفاد میں بتاکر ایک نئی آزادی کی حیثیت سے اس کو متعارف کرارہے ہیں مگر اس قانون کو لے کر کئی سوال ہیں۔ کھیتی، کاروبار، انکم ٹیکس ایکٹ 2020؍ اس قانون میں حکومت کہہ رہی ہے کہ کسانوں کی فصلوں کو فروخت کرنے کے لئے متبادل میں توسیع کررہی ہے۔ کسان اس قانون کے توسط سے اب اے پی ایم سی منڈیوں کے باہر بھی اپنے فصل اعلیٰ قیمت پر فروخت کرسکیںگے۔ پرائیوٹ خریداروں سے اچھی قیمت لے سکیںگے مگر حکومت نے نئے قانون کے ذریعہ اے پی ایم سی منڈیوں کو ایک حد میں مقید کردیا ہے جبکہ بڑے کارپوریٹ خریداروں کو کھلی چھوٹ دیدی ہے۔ بغیر کسی رجسٹریشن، بغیر کسی قانون کے دائرے میں آئے بڑے سرمایہ کار کسانوں کی فصل خرید اور فروخت کرسکتے ہیں۔ اے پی ایم سی منڈی کے باہر بازاروں پر پابندی اور نگرانی نہیں ہوگی۔ یعنی کسانوں کی محنت سے ہوئے فصلوں کا فائدہ بڑے سرمایہ کار اٹھائیںگے۔ مجموعی طور پر تینوں قانون میں کہیں نہ کہیں کسانوں کو بڑے سرمایہ کاروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بناکر رکھ دیا گیا ہے اور بڑے سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ ویسے اگر ہم مثال کے طور پر بہار کی بات کریں تو بہار میں سرکاری منڈی نظام نتیش حکومت کے آتے ہی 2006؍ میں ہی ختم ہوچکا ہے۔ تقریباً 14؍ سال گزرجانے کے بعد بہار میں کتنی سرمایہ کاری ہوئی؟ بہار کے کسانوں کو آج کیوں کم قیمت پر فصل فروخت کرنی پڑرہی ہے؟ اگر بہار میں سبز انقلاب آگیا تو پھر بہار کے مزدوروں کو نقل مکانی پر کیوں مجبور ہونا پڑ رہا ہے؟ بہار زرعی آمدنی کے شعبہ میں ملک کی دوسری ریاستوں سے بہتر کیوں نہیں ہوسکا؟ ویسے الگ الگ ریاست میں کسان حکومتوں کے خلاف متحد ہوتے رہے ہیں۔ ان تحریکوں سے اقتدار کے ستون بھی ہلتے اور گرتے رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے مندشور میں سال 2017؍ میں ہوئی کسان تحریک کو لوگ ابھی تک نہیں بھولے ہوںگے۔ جہاں پولس کی فائرنگ میں 7؍ کسانوں کی موت ہوگئی تھی۔ 15؍ سال بعد مدھیہ پردیش میں کانگریس حکومت کی واپسی میں کسانوں کا کردار اہم تھا۔ اسی طرح قرض معافی اور فصل کی ڈیڑھ گنا زیادہ حمایتی قیمت کے مطالبہ پر تمل ناڈو کے کسانوں نے سال 2017؍ اور 2018؍ میں راجدھانی دہلی میں نیم برہنہ ہوکر، ہاتھوں میں انسانی کھوپڑی اور ہڈیاں لے کر تحریک کی تھی۔ آج ملک میں تازہ تحریک کی بات کریں تو پنجاب سے اٹھی تحریک کی چنگاری سے پورا ملک اس کی تپش محسوس کررہا ہے۔ ہریانہ، راجستھان، مہاراشٹر، اتراکھنڈ، اترپردیش، مدھیہ پردیش، اڑیسہ، مغربی بنگال، اندھراپردیش، بہار سمیت ملک کے دیگر حصے میں بھی کسان سڑکوں پر اُتر آئے ہیں۔ دہلی کو چاروں جانب سے تحریک کار کسانوں نے گھیر لیا ہے اور تقریباً 1؍ ماہ سے کڑاکے کی ٹھنڈ میں بیٹھے 42؍ کسان اپنی جان کی قربانی بھی دے چکے ہیں۔ اگر ہم کسانوں کی تاریخ میں جائیں تو جتنی بھی کسان تحریک ہوئی اس میں زیادہ تر تحریک انگریزوں کے خلاف تھی۔ ملک میں نیل پیدا کرنے والے کسانوں کی تحریک، پابنا بغاوت، تیبھاگا تحریک، چمپارن ستیہ گرہ اور باردولی میں تحریک ہوئی۔ ان کی قیادت مہاتما گاندھی اور ولبھ بھائی پٹیل جیسے لیڈروں نے کی۔ دکن کی بغاوت، اس تحریک کی شروعات دسمبر 1874؍ میں مہاراشٹرکے شیرور تالوکا کے کرڈاہ گائوں سے ہوئی۔ دراصل ایک بیاض خور کالو رام نے کسان بابا صاحب دیش مکھ کے خلاف عدالت سے گھر نیلامی کی ڈگری حاصل کرلی۔ اس پر کسانوں نے ساہو کاروں کے خلاف تحریک شروع کردی۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ تحریک ایک دو مقام تک محدود نہیں رہی بلکہ ملک کے مختلف حصے تک پھیلتی چلی گئی۔ یہ تحریک اُترپردیش سے شروع ہوئی۔ ہوم رول لیگ کے کارکنوں کی کوشش اور مدن موہن مالوی کی رہنمائی میں فروری 1918؍ میں اترپردیش میں کسان تنظیم تشکیل دی گئی۔ سال 1919؍ کے آخری ایام میں کسانوں کی بغاوت کھل کر سامنے آئی۔ اس تنظیم کو جواہر لال نہرو نے اپنی تعاون دیا۔ اتنا ہی نہیں‘ کیرالہ کے مالابار علاقے میں موپلا کسانوں کے ذریعہ 1920؍ میں بغاوت کی گئی۔ شروعات میں یہ بغاوت انگریزی حکومت کےخلاف تھی۔ مہاتماگاندھی، شوکت علی، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے لیڈران نے اس تحریک میں اپنا تعاون دیا۔ اس تحریک سے علی موسلیار لیڈر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ سال 1920؍ میں اس تحریک کو ہندو مسلم کی شکل دیدی گئی تھی جیسے آج صاحب اقتدار پارٹی کے نیتائوں کے ذریعہ ملک میں کسانوں کی تحریک کو خالستانی، پاکستانی کے ساتھ ساتھ ٹکڑے ٹکڑے گینگ بتاکر کسان تحریک کو انگریزی حکومت کی طرح کچلنے کی سازش چل رہی ہے۔ لیکن ملک کے تحریک کار کسانوں کے حوصلے کو دیکھ کر ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ وہ اپنی تحریک کو کسی بھی حالت میں کمزور پڑنے دیںگے۔ حکومت نے کسانوں کی تحریک تیز ہوتے دیکھ پارلیمانی سرد سیشن کو کورونا کی دہائی دے کر ٹال دیا لیکن کیا وجہ تھی کہ مرکزی حکومت نے کورونا دور میں خصوصی پارلیامانی سیشن بلاکر زرعی قوانین کو پاس کرایا تھا۔ آج ملک کے کسان تحریک کررہے ہیں، حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ خصوصی پارلیامانی سیشن بلاکر زرعی قوانین کو منسوخ کیا جائے لیکن مرکز کی مودی حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی ہے اور انگریزی دور حکومت کا رویہ اپنے ملک کے کسانوں کے ساتھ اختیار کر رکھی ہے۔ جن کسانوں نے ملک کو کبھی اشیائے خوردونوش کی کمی کا کبھی احساس نہیں ہونے دیا آج وہی کسان بے سہارا بن کر اپنے حق کی لڑائی لڑرہا ہے۔ اگر ہم آزادی سے قبل ملک میں شائع ہونے والے اخبارات کا ذکر کریں تو کسانوں کے استحصال، سرکاری افسران کی زیادتی، امتیازات اور کسانوں کی تحریکات کو ترجیحات کے ساتھ شائع کی جاتی تھی۔ لیکن آج کے نئے دور میں کچھ ہی میڈیا ہائوس کسانوں کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ زیادہ تر میڈیا ہائوس سرکاری ترجمان بن کر حکومت کی زبان بول رہا ہے۔ آزادی سے پہلے کسانوں کی تحریک ایک دو مقامات تک محدود نہیں رہی بلکہ ملک کے کئی حصے تک پھیل گئی تھی۔ جنوبی ہند کے دکن سے پھیلی یہ آگ مہاراشٹر کے پونہ اور احمد نگر سمیت ملک کے کئی حصے میں پھیلی تھی۔ اس کی واحد وجہ کسانوں پر ساہوکاروں کا استحصال تھی۔ آج حکومت کارپوریٹ سے کسانوں کا استحصال کرانا چاہتی ہے۔

Comments are closed.