اورنگ آباد: تابش سحر کے قلم سے

تحریر :عبد الرحیم ندوی!
قلمی نام : تابش سحر
احمدنگر کے بادشاہ مرتضی نظام شاہ ثانی کے وزیراعظم ملک عنبر نے اورنگ آباد کا رخ کیا اور اسے دارالحکومت بنایا اس وقت یہ "کھڑکی” کے نام سے موسوم تھا، ملک عنبر فن تعمیر میں دلچسپی رکھتا تھا لہذا آج بھی کئی عمارتیں اس کے ذوق کی شہادت پیش کرتی ہیں، شہر کی تاریخی جامع مسجد کا ابتدائی حصّہ ملک عنبر ہی نے تعمیر کروایا تھا، اس کے علاوہ سولہویں صدی میں شہر بھر میں "نہرِ عنبری” کا جو جال بچھایا گیا تھا وہ دانش مندوں کو حیران کردیتا ہے، آج بھی مختلف علاقوں میں پانی کے منبع موجود ہیں اور شہریان کو سیراب کررہے ہیں، ڈاکٹر رمضان کی تحقیق کے مطابق اس زمانے میں تقریباً ۱۰۰ منبع بنائے گئے تھے مگر مرورِ زمانہ اور انتظامیہ کی لاپرواہی کے سبب کئی منبع دفن ہوکر رہ گئے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ آج بھی اگر نہر کی جانب توجہ دی گئی تو پانی کا مسئلہ کافی حد تک حل کیا جاسکتا ہے۔ ملک عنبر کے بعد ان کے فرزندِ ارجمند فتح خان نے کھڑکی پر قبضہ جمایا اور پھر کھڑکی "فتح نگر” کہلائی بعد ازاں مغلوں نے احمد نگر کی سلطنت کو سبوتاز کردیا اور اورنگ زیبؒ فاتح بن کر ابھرے، انہوں نے فتح نگر کو "اورنگ آباد” کا نام دیا اور آج تلک وہ اسی پیارے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اورنگ زیبؒ نے جامع مسجد کی توسیع کروائی بایں وجہ مسجد کے بانی کے طور پر ملک عنبر اور اورنگ زیب دونوں کو یکساں یاد کیا جاتا ہے، شہر کی سب سے خوبصورت، پرشکوہ اور عظمتِ رفتہ کی یادگار عمارت "بی بی کا مقبرہ” ہے جو اورنگ زیب کے بیٹے شہزادہ اعظم شاہ نے اپنی والدہ کی یاد میں تعمیر کروایا تھا، ان کی والدہ دل رَس بانو تھیں جن لقب رابعہ درّانی خاتون تھا، بی بی کا مقبرہ’ تاج محل کی بہترین نقالی ہے البتہ وہ محبوبہ کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا یہ ممتا کی یادگار ہے۔ مغل حکمراں آصف جاہ اوّل نے اپنی خود مختاری کا اعلان کر کے آصف جاہی سلطنت کی بنیاد رکھی جو بعد میں نظام حکومت کہلائی جس کا دارالخلافہ "حیدرآباد” تھا، اورنگ آباد بھی اسی نظام حکومت کا ایک اہم شہر تھا بعد ازاں ہندوستان آزاد ہوگیا اور اورنگ آباد جمہوری ملک کا ایک شہر کہلایا،{البتہ نظام حکومت کو ختم کرنے کے لیے امن پسند، جمہوری ملک نے جو خونی سازشیں رچیں اور خون کی ہولی کھیلی وہ کسی اور داستان کا تقاضہ کرتی ہے۔} الغرض سترہویں صدی سے اسے اورنگ آباد کہا جاتا ہے اور باشندگانِ شہر بھی فخر کے ساتھ یہ نام بولتے اور استعمال کرتے ہیں البتّہ یہ نام شرپسندوں کو کھٹکتا ہے، وہ آئے دن سگانِ بازاری کی طرح بھونکتے ہیں اور شہر کا نام تبدیل کرنے کی مانگ کرتے رہتے ہیں، ان دنوں کارپوریشن کی جانب سے شہر کے کئی اہم چوراہوں اور مقامات پر "لَو اورنگ آباد” کے نام سے سائن بورڈ نصب کیا گیا جسے دیکھ کر شرپسندوں کے سینوں میں بغض کی آگ بھڑک اٹھی، وہ بِلبَلاگئے، اچھل کود مچانے لگے اور ٹی وی سینٹر نامی علاقہ میں "سمبھاجی نگر” نامی سائن بورڈ نصب کردیا ابھی یہ خبر سرد بھی نہیں پڑی تھی کہ معلوم ہوا چھاؤنی میں نصب سائن بورڈ "لَو اورنگ آباد” کو نقصان پہنچایا گیا ہے، پہلی نظر میں تو یہی معلوم ہوا کہ یہ شرپسندوں کا منظم کارنامہ ہے مگر تحقیات کررہی پولس کا کہنا ہے کہ یہ مذموم حرکت وِشنو کالے نامی شخص نے انجام دی ہے، اس کی سالگرہ تھی اور اہلیہ محترمہ جناب کو وقت نہیں دے رہی تھی جس سے دلبرداشتہ ہو کر وِشنو جی نے "لَو اورنگ آباد” نامی سائن بورڈ کو شدید نقصان پہنچایا، اس کا یہ غم و غصّ "لَو” کے خلاف تھا یا "لفظ اورنگ آباد” کے خلاف اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر اتنا تو طئے ہے کہ ملک کے گوشے گوشے میں مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کے شواہد پائے جاتے ہیں۔
نوٹ: – شرپسند نام بدلتے بدلتے تَھک جائیں گے مگر یہ شواہد ختم نہ ہوں گے.
Comments are closed.