وائرس کی ایک جدید تشویشناک قسم-!؟

 

 

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دنیا دجالی طاقتوں اور فتنوں سے اٹی پڑی ہے، ایک طرف ان کی سرکشی، فطرت سے بغاوت اور دوسری طرف دنیا کو اپنے قابو میں کرنے کی حرص بلکہ ہوس نے سب کچھ تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، شیطانیت کا مکھوٹے پہنے لوگ انسانیت کو مجبور و مقہور بنا دینا چاہتے ہیں، ہر دن ایک نئی سازش اور ایک نئی منصوبہ بندی سے دنیا لرزاں ہے، اب متعدد ذرائع سے یہ خبریں موصول ہورہی ہیں کہ دنیا میں کرونا وائرس کی ایک قسم نے جنم لے لیا ہے، برطانیہ میں اس نئے وائرس کو پایا گیا، محققین کا ماننا ہے کہ یہ موجودہ وائرس سے ستر گنا زیادہ مؤثر ہے، اس کی بناوٹ اور تاثیر کے لحاظ سے اسے خطرناک سمجھا جارہا ہے، بی بی سی کے مطابق اس نئے انفیکشن کے متعلق حکومتی مشیروں کو کسی حد تک یقین ہے؛ کہ وائرس کی دوسری مختلف اقسام کے مقابلے میں، یہ زیادہ آسانی سے منتقل ہوتا ہے، اسے سب سے پہلی بار ستمبر کے ماہ میں پایا گیا تھا، چنانچہ تحقیقی مدارج میں ابھی سب کچھ ابتدائی مرحلے میں ہے اور بہت غیر یقینی صورتحال ہے؛ تاہم وائرس کی یہ نئی قسم باعثِ تشویش ہے، اس لئے کہ اس میں تین چیزیں ایک ساتھ ہو رہی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس طرف توجہ مبذول ہو رہی ہے۔
١- یہ نئی قسم تیزی سے وائرس کے پرانے ورژن کی جگہ لے رہی ہے.
٢- وائرس کی ہیت تبدیل ہو رہی ہے جو وائرس کے سب سے اہم حصے کو متاثر کر رہی ہے.
٣- ان میں سے کچھ تغیرات کو پہلے ہی لیب میں دکھایا جا چکا ہے جو خلیوں کو متاثر کرکے وائرس کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں.
ان سب چیزوں سے مل کر ایک ایسا وائرس بنتا ہے جو آسانی سے پھیل سکتا ہے۔ مگر برطانیہ دنیا کا واحد ملک نہیں جہاں کورونا وائرس کی کوئی نئی شکل دریافت کی گئی ہو: سائنسدانوں اور عالمی ادارہ صحت نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنوبی افریقہ میں وائرس کی ایک اور نئی شکل پر تحقیق کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ملک کے کئی حصوں میں وبا بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اس نئی قسم کو ٥٠١/ وی ٹو کا نام دیا گیا ہے، یہ دسمبر کے اوائل میں دریافت ہوئی تھی۔ ١٨/ دسمبر کو جنوبی افریقہ کے وزیر صحت زوالی مخیزی نے کہا تھا کہ یہ نئی قسم پہلے سے زیادہ مہلک ہے اور اس سے متاثر ہونے والوں میں اب تک نوجوانوں کی تعداد پہلے کی نسبت زیادہ ہے۔ وزیر صحت کے مطابق جنوبی افریقہ کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے؛ کہ وائرس کی یہ نئی شکل ایسے نوجوانوں کو پہلے کی نسبت زیادہ متاثر کر رہی ہے جنھیں کورونا کے ساتھ اور کوئی بیماری نہیں۔ سرکاری اعدادوشمار بھی حیران کن ہیں، ٢١/ دسمبر تک جنوبی افریقہ میں کورونا سے ٢٤/ ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں؛ جبکہ ملک میں متاثرہ افراد کی تعداد نو لاکھ سے زیادہ ہے۔ جنوبی افریقہ میں بی بی سی کے نامہ نگار پوزما فلحانی کے مطابق ٥٠١/ وی ٹو کا برطانیہ میں دریافت ہونے والی کورونا کی نئی قسم سے بظاہر کوئی تعلق نہیں۔
صرف انہیں ممالک میں نہیں بلکہ بعض دیگر ملکوں میں بھی ایسے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے، برطانیہ میں پھر سے کہیں کہیں لاک ڈاؤن لگا دیا گیا ہے، کئی ملکوں نے وہاں سے آنے والی تمام ہوائی جہاز رد کردیئے ہیں، جن میں فرانس، روس، سعودی عربیہ اور ہندوستان بھی شامل ہے، ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن بھارت میں ٢٦/جنوری ٢٠٢١/ یعنی جشن یوم جمہوریہ میں بطور مہمان شرکت کرنے والے ہیں، یہ ٹھیک وہی بات ہوگئی کہ کرونا وائرس کا پہلا کیس گزشتہ سال ابتدا ہی مل جانے کے باوجود تین مہینہ کے بعد امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مہمان نوازی کی گئی تھی اور اس کی خاطر وزیر صحت نے لگاتار اس وائرس کا انکار کیا تھا، اگر وائرس کی نئی قسم نے اپنے پیر پھیلائے اور اس نے دنیا کو پھر چپیٹ میں لیا تو یہ یقینی ہے کہ دنیا ایک ایسے دوسرے بحران سے دوچار ہوجائے گی جس سے نکلنے میں صدیاں لگ جائیں گی، موجود وائرس کی تباہی میں متعدد ممالک تباہ و برباد ہوگئے، بالخصوص یورپ اور امریکہ کی معاشی حالت تشویشناک ہوچکی ہے، جس کی قیمت ٹرمپ اپنی کرسی سے ادا کرچکے ہیں، خود بھارت اپنی نادانی، ہٹ دھرمی اور بھگوائی ذہنیت کی وجہ سے سالہا سال پیچھے ہوچکا ہے، پچھلے دس سالوں کے اندر جتنی تعداد میں لوگوں کو غریبی سے نکالا گیا تھا وہ واپس غربت کی دہلیز پر جا چکے ہیں، کمپنیوں کا نقصان، نوجوانوں کی بے روزگاری اور عام گھروں کا معاشی نظام اتھل پتھل ہوچکا ہے، واقعہ یہ ہے کہ عذاب کے وقت انسان کی گردنیں جھکی ہونی چاہیے اور اپنی کارستانی پر نگاہ کے ساتھ استغفار کا ورد ہونا چاہئے؛ لیکن ابھی حال یہ ہے کہ عذاب کو ایک موقع سمجھا جارہا ہے، اگر وائرس ہے تو اسے ایک غنیمت جان کر دنیا کو تباہی کی بھٹی میں جھونکنے کی کوشش کی جارہی ہے، غریبوں کی موت پر امیروں کا چراغاں بتلاتا ہے کہ قدرتی آفات کا وسیلہ لیکر انسانیت کو تباہ کرنے کی تیاری ہے، غالباً ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان فرعونیت کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، وہ اللہ تعالی کا شکر و تذلل کے بجائے اس کے عذاب کو چیلینج کر رہا ہے، اگر یہی حال رہا تو کوئی بعید بات نہیں کہ دنیا قیامت سے پہلے قیامت دیکھے، بربادی کی وہ یادیں تازہ ہوجائیں جو کبھی ماضی کی قوموں کا حصہ تھیں.

Comments are closed.