امام مسجد ٹھنڈ کی وجہ سے فوت ہوگئے -!!

 

 

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

 

اس قوم کی بیداری، خودداری اور احسان شناشی کا اندازہ کیجئے! جو اپنے رہبر، ملی قائد اور امام کو ٹھنڈ سے سکڑتا ہوا چھوڑے، یہاں تک کہ وہ موت کی آعوش میں پناہ لے، ان لوگوں کی غیرت وحمیت اوردینی جذبہ کے بارے میں سوچئے! جو پڑوس میں رہ رہے ایک دینی تشخص کے حامل اور شب و روز اس کے پیچھے کھڑے ہونے والے سے بے پرواہ ہوجائیں اور وہ انتظار کریں کہ موسم کا قہر انہیں لے ڈوبے، ان کی اسلامیت اور دینی حساسیت کے متعلق کیا کہیں گے جو اسلام کے نمائندہ کو بستر مرگ پر فوت شدہ تو دیکھیں؛ لیکن اس سے ان کی صحت، زندگی کے جھمیلے اور دکھ و تکلیف کی پرواہ نہ کریں، ان لوگوں کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا خیال ہے جو محمد عربی کے جاں نشین اور ان کے مصلی پر کھڑے ہونے والے کی توہین کریں، انہیں غیر یقینی طور پر ملک الموت کے حوالے کردیں اور خود چین و سکون کی نیند لیں، ایسا ہی ایک واقعہ آج علی الصباح معلوم ہوا، یہ خبر ساجد حسین کی نوادہ سے جدید نیوز اردو میں رپورٹ کی گئی ہے؛ کہ رجولی کے گاؤں منن پور کی مسجد کے امام مولانا محمد عمران ولد مقصود عالم جو جھارکھنڈ ضلع گوڈا کے رہائشی تھے، انتقال کر گئے. مرحوم کئی سال سے امام کے فرائض انجام دے رہے تھے، صبح گاؤں والوں نے معمول کے مطابق امام صاحب کو فجر کی نماز کیلئے آواز دی،جب امام صاحب کی کوئی آواز واپس نہ ملی تو لوگ گاؤں میں جمع ہونا شروع ہوگئے، اسی دوران پنچایت کے سربراہ گوکرن پاسوان بھی پہنچ گئے، بعد ازاں متعلقہ تھانے سے رابطہ کیا گیا، پولیس کی موجودگی میں دروازہ توڑکر دیکھا کہ امام صاحب کی موت ہوچکی ہے، البتہ گاؤں اور سرپنچوں نے اتنا کرم کیا کہ ان کی نعش ان کے گاؤں پہنچانے میں پورا تعاون کیا، صحافی نے یہ عنوان لگایا ہے کہ "رجولی بلاک کے گاؤں میں سردی کی وجہ سے مسجد کے امام صاحب فوت ہوگئے-” اور "گاؤں والے اپنے امام کیلئے سردی کا انتظار بھی نہ کرسکے”.

خدا کرے! یہ خبر جھوٹی ہو؛ لیکن اگر اس میں ایک فیصد بھی سچائی ہے تو یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ جو لوگ مادیت کے دور میں معمولی تنخواہ کے اندر اپنی محنت و جد و جہد کو جن کیلئے خرچ کرتے ہیں، جن کی رہنمائی، دینی اصلاح اور دنیا و آخرت میں بھلائی کی دعائیں کرتے ہیں، اور جنہیں اپنا امام مان کر بچہ کی پیدائش کے بعد کانوں میں اذان و تکبیر سے لیکر دینی تعلیم و تربیت اور نماز وغیرہ کا طریقہ سیکھتے ہیں، بلکہ زندگی جینے کا رنگ و ڈھنگ اور انسانیت کا درس بھی پاتے ہیں، اور انہیں دیکھ دیکھ کر قرآن و رسول کی یاد تازہ کرتے ہیں، آج وہ ان پر اس قدر بوجھ بن چکے ہیں کہ اپنی عیش کوشی، شب و روز کی آرام دہی میں ان کی ایک ذرہ فکر نہیں، اکثر لوگ تو انہیں مافوق الفطرت سمجھتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ وہ صرف غیب سے ملی ہوا پانی پر ہی زندگی بسر کرلیتے ہیں، ان کی زندگی میں مادیت کی کوئی جگہ نہیں ہے، یہ ان کے خود ساختہ ہیولے ہیں جن کی پاداش میں خدام اسلام اور انسانیت کے رہبر اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو رہے ہیں، اس گئے گزرے زمانے میں بھی اگر اسلامیت کی پہچان، شعائر کا پاسبان اور علی الإعلان دین کا نشان امتیاز نظر آتا ہے، معاشرے میں اخلاقی اقدار اور حسن سلوک کا کوئی پیکر لگتا ہے تو وہ یہی علماء، امام و مؤذن ہوتے ہیں، ان کے سامنے دن میں کئی دفعہ مسئلہ مسائل لیکر جاتے ہیں، چھوٹی موٹی باتیں بھی پوچھتے ہیں؛ لیکن اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ ان کی طبیعت و أحوال بھی جان لیں، اگر کسی ڈاکٹر یا وکیل سے معمولی مشورہ بھی لے لیا جائے تو اس کی فیس سن کر کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور یہ لوگ دنیا و آخرت کی بھلائی اور جنت کی کنجیاں تک یونہی بتادیتے ہیں اور انہیں قابل شکر بھی نہیں سمجھا جاتا، یقیناً علم دین کوئی تجارت کی چیز نہیں ہے؛ لیکن کیا مادیت سے کٹ کر اور ایک گوشہ میں رہ کر روحانیت کا علمبردار بھلا اتنا بھی مستحق نہیں کہ اسے ایک عام زندگی فراہم کی جا سکے، کیا ہمارا معاشرہ اتنا تنگ، بخیل اور کنجوس ہوگیا ہے یا اتنا ناقدردان بن گیا ہے کہ اسے اپنے محسنین کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے، اگر ایسا ہے تو یقیناً ناشکروں کیلئے دردناک عذاک ہے۔

 

 

Comments are closed.