کرسمس کیا ہے اور کیوں منایا جاتا ہے؟

ازقلم: امام علی مقصود شیخ فلاحی
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا میں ہر انسان خواہ وہ کسی بھی مذہب سے ہو اسے خوشی چاہیے، وہ ہنسنا مسکرانا چاہتا ہے، اور تہوار منانا چاہتا ہے، اور چونکہ مذہب بھی انسان کی اس فطرت سے واقف ہے اسی لئے وہ بھی انسانوں کی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے تہوار و تقاریب کی اجازت دیتا ہے، جیسے مسلمانوں میں عید کی تہوار مناے جاتے ہیں، جیسے ہندوؤں میں ہولی اور دیوالی منائی جاتی ہے اسے طرح عیسائیوں میں کرسمس منایا جاتا ہے۔
کرسمس کی لغوی تحقیق: لفظ کرسمس کرائسٹ ( crist) اور ماس (mass) کا مرکب ہے۔ کرائسٹ (crist) مسیح علیہ السلام کو کہتے ہیں، اور ماس (mass) اجتماع اور اکٹھے ہونے کو کہتے ہیں، چونکہ کرسمس ڈے پر سارے عیسائی مل کر مسیح علیہ السلام کی یوم ولادت مناتے ہیں اسی لئے اس کو کرسمس ڈے کہتے ہیں۔
یہ لفظ تقریباً چوتھی صدی کے قریب قریب پایا گیا، اس سے پہلے اس لفظ کا استعمال کہیں نہیں ملتا ہے، دنیا میں مختلف جگہوں پر کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا اور منایا جاتا ہے، اسے پیدائش کا سال ، پیدائشی اور یوم پیدائش جیسے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔
کرسمس کا مروجہ نام: کرسمس کامروجہ نام بڑا دن بھی ہے، یہ یوم ولادت مسیح علیہ السلام کے سلسلے میں منایا جاتا ہے ، کیونکہ مسیحیوں کے لئے یہ ایک اہم اور مقدس دن ہے ، اسی لئے اس کو ایک بڑا دن کہا جاتا ہے۔
25 دسمبر کو کرسمس کیسے منایا جانے لگا؟
تیسری صدی عیسوی کے عیسائی ماہرین تقویم کے نزدیک دنیا کی تخلیق مارچ کے 23 تاریخ کو ہوئی تھی، چونکہ حضرت عیسیٰ کی معجزانہ پیدایش عیسائیوں کے لئے تخلیق عالم سے کم اہم واقعہ نہیں ہے، لہذا انکا قیاس تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش بھی 23 مارچ ہونی چاہئے، اسی وقت سے جشن ولادت عیسیٰ کی ابتدا ہوئی۔
لیکن چونکہ رومکے مشرکین 6 جنوری کو اپنے ایک دیوتا کے احترام میں تہوار مناتے تھے، لہذا عیسائیوں نے بھی اسی دن کو ولادت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے مقرر کردیا، پھر مشرق کی تمام عیسائی دنیا کرسمس کا تہوار 6 جنوری کو منانا شروع کردی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکثر عیسائی مکاتب فکر نے یہ تہوار 25 دسمبر کو منانے پر اتفاق کر لیا، اور اس تبدیلی کی وجہ یہ بتلائی کہ 25 دسمبر کو شہر روم میں سورج دیوتا کے ظہور کا دن تصور کیا جاتا تھا۔
مشہور ماہر علم البشریات سر جیمز فریزر نے اپنی کتاب (The Golden Bough) میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ چرچ نے 25 دسمبر کو کرسمس منانے کا فیصلہ اس لئے سنایا ہے کہ وہ لوگ جو نئے نئے عیسائی بنے تھے، انکی مذہبی عقیدت کو سورج دیوتا سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شخصیت کی طرف منتقل کرنا تھا ، اور تبدیلی مذہب کی راہ ہموار کرنی تھی۔
بہر حال ان وجوہات کی بنا پر روم اور مصر میں 25 دسمبر کو کرسمس منایا جانے لگا۔ یروشلم کے مذہبی حلقوں نے کافی عرصے تک 6 جنوری کی تاریخ پر اصرار کیا لیکن بالآخر پانچویں صدی عیسوی میں اکثریت کی رائے اختیار کر لی اور پھر 25 دسمبر کو ہی کرسمس منانا شروع کردیا۔
کرسمس کیسے منایا جاتا ہے : نومبر کے مہینے ہی سے اس کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں، لوگوں کے ذہنوں میں ان دنوں صرف یہی بات ہوتی ہے کہ کرسمس کا تہوار آرہا ہے، پھر رنگا رنگ روشنیوں سے تمام شہر کے مراکز اور شاپنگ سینٹر کو مزین کیا جاتا ھے، سڑکوں اور گلیوں پر جگہ جگہ کرسمس ٹری سجاے جاتے ہیں، دسمبر کے آمد کے ساتھ ہی تجارتی مراکز میں خریداروں کا ہجوم ہونے لگتا ہے، دکانیں راتوں میں دیر تک کھلی رہتی ہیں ، دکانوں اور شاپنگ سینٹر میں کرسمس کے خصوصی گیت بجائے جاتے ہیں، اسکے علاوہ حضرت عیسیٰ کے عقیدت مند گروہ کی شکل میں گلیوں اور سڑکوں پر کرسمس کے دعائیہ گیت گاتے ہیں اور فلاحی و رفاہی کاموں کے لئے فنڈ جمع کرتے ہیں۔
اکثر مقامات پر تو ایک ہفتہ پہلے ہی کرسمس کی پارٹیاں شروع ہو جاتی ہیں، اور پھر اس موقع پر کرسمس کے روایتی کھانے کھائے جاتے ہیں اور روایتی مشروبات پیئے جاتے ہیں۔
وسط دسمبر تک اکثر مکانات کو کرسمس ٹری، رنگ برنگ قمقموں اور کاغذ و پلاسٹک سے تیارہ کردہ چیزوں سے سجایا جاتا ہے۔
متعدد ملکوں میں اکثر افراد اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں کو کرسمس کی مبارک باد کے کارڈ بھیجتے ہیں، پھر وہ کارڈ لوگ اپنے گھروں کے دیواروں لٹکا دیتے ہیں۔
لیکن اسلام کی روشنی میں ایک مسلمان کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ دنیا میں بے شمار لوگ ایسے پاے جاتے ہیں جو صرف نمود و نمائش کے لئے اپنی تاریخ پیدائش کچھ ایسے دنوں سے منسوب کرلیتے ہیں،جو قومی یا عالمی سطح پر معروف ہوتے ہیں، تو ایسے لوگوں کے یوم ولادت پر مبارک باد دینا خلاف واقعہ ہے، جبکہ کسی ایسی شخصیت اور دن کو ماننا اور اس کے بارے میں مبارک باد پیش کرنا جنکے متعلق،
اول تو یہ بات تو واضح ہے ماضی میں ان تاریخوں میں سورج دیوتا کی یا دیگر بتوں کی پیدائش کا جشن منایا جاتا تھا۔
دوم مسیح علیہ السلام کی پیدائش کا دن تو درکنار، سن پیدائش بھی معلوم نہیں۔
سوم یہ کہ عیسائیوں کا جس دن کے بارے میں یہ عقیدہ ہو کہ آج کے دن یعنی 25 دسمبر کو اللہ کا بیٹا (معاذ اللہ) پیدا ہوا تھا، ایک مسلمان کسی کو اس پر مبارکباد کیسے دے سکتا ہے؟
یاد رکھیں کہ یہ وہ باتیں ہیں جسکے بارے میں اللہ فرماتا ہے :اور انہوں نے کہا کہ رحمان نے کوئی اولاد بنا لی ہے، بلا شبہ تم ایک بہت بھاری گناہ تک آپہنچے ہو، قریب ہے کہ اس بات سے آسمان پھٹ پڑے اور زمین شق ہو جائے، اور پہاڑ گر پڑیں، کہ انہوں نے رحمان کے لئے کسی بیٹے کا دعویٰ کیا ہے۔(سورہ مریم ، ٨٨ تا ١٩)۔
لہذا مسیح کو مبارکباد دینا یا اس ضمن میں کسی بھی تقریب میں شرکت کرنا اسلامی نظریہ کے مطابق درست نہیں ہے۔
Comments are closed.