کرسمَس: تیوہار نہیں پروپیگنڈہ۔

 

 

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

 

٢٥/ دسمبر صلیبیوں اور ان کے ہمنواؤں کیلئے جشن و خوشی کا دن ہے، یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے نام پر چراغاں کرتے ہیں، روحانیت و للہیت سے بھرپور عیسائیت کو تثلیث کا جامہ پہنا کر نبی مکرم کی عزت و محبت اور عقیدت و خلوص کی آڑ عیش پرستی اور ہوس پرستی کا ننگا ناچ کر کے دنیا کو دھوکہ دیتے ہیں، وہ یہ جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا دین برحق اور وہ حقیقی متبع مسیح ہیں؛ حالانکہ خود انہیں کے ممتاز تاریخ دانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ موجودہ کرسمس ڈے کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور روم کے ہاتھوں اپنے ہی نبی کو سولی پر چڑھادینے والے جھوٹے اور مکار ہیں، یہ سب کی من گھڑت باتیں اور زندگی کی تھکاوٹ سے آزادی حاصل کر کے وقتی جشن ماننے کا حیلہ ہے، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ "٤/ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺗﮏ ٢٥/ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻭﻻﺩﺕ ﻣﺴﯿﺢ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ٥٣٠ﺀ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﺘﮭﯿﺎ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮈﺍﯾﻮﻧﯿﺲ ﺍﮐﺴﯿﮕﺰ ﻧﺎﻣﯽ ﺭﺍﮨﺐ ﺟﻮ ﻣﻨﺠّﻢ‏( ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ‏) ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ، ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻭﻻﺩﺕ ﻣﺴﯿﺢ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﯿﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻘﺮﺭ ﮨﻮﺍ۔ ﺳﻮ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺴﯿﺢ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ٢٥/ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯽ؛ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﺴﯿﺢ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﺻﺪﯼ ﻗﺒﻞ ٢٥/ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﻣﻘﺪﺱ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺗﮭﯽ۔ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﺩﯾﻮﺗﺎ ﺍُﺳﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﭘﺮ ﯾﺎ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﺎ ﺗﺴﻠﯿﻢ کئے ﺟﺎﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺭﺍﮨﺐ ﻧﮯ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﭘﺮﺳﺖ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﺖ ﮐﻮ ﻣﻘﺒﻮﻝ ﺑﻨﺎﻧﮯ کیلئے ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴﯽٰ ؑﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻭﻻﺩﺕ ٢٥/ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﺮ ﺩﯼ۔ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﯽ ﺳﻮﺭﺕ ﻣﺮﯾﻢ ﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ؛ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺮﯾﻢ ؑﮐﻮ ﺩﺭﺩﺯﮦ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﮐﮭﺠﻮﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺗﻨﮯ ﮐﻮ ﮨﻼﺋﮯ، ﺗﺎﮐﮧ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺗﺎﺯﮦ ﭘﮑﯽ ﮐﮭﺠﻮﺭﯾﮟ ﮔﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭼﺸﻤﮧ ﮐﺎﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﮐﺮ ﻃﺎﻗﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﺍﺏ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺳﻢ ﮔﺮﻣﺎ ﮐﮯ ﻭﺳﻂ ﯾﻌﻨﯽ ﺟﻮﻻﺋﯽ، ﺍﮔﺴﺖ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮐﮭﺠﻮﺭﯾﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺍﻣﺮ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺴﯿﺢ ﮐﯽ ﻭﻻﺩﺕ ﺟﻮﻻﺋﯽ ﯾﺎ ﺍﮔﺴﺖ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ٢٥/ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ۔” (ﻣﺬﺍﮨﺐ ﻋﺎﻟﻢ ﮐﺎ ﺗﻘﺎﺑﻠﯽ ﻣﻄﺎلعہ-ﺹ:٤٣٥)

بھارتی نژاد جنوبی افریقی مبلغ ومناظر ڈاکٹر احمد دیدات اور ہاربرٹ ڈبلیو آرم اسٹرانگ کے تاریخی اقتباسات نقل کرنے کے بعد استاذ گرامی مولانا اعظم صاحب ندوی اپنے وقیع مضمون” کرسمَس کا فریب اور ہمارا طرز عمل” میں رقمطراز ہیں: "یہ دونوں تحریریں تاریخی دلائل سے ثابت کرتی ہیں کہ کرسمس ایک بت پرستانہ تہوار ہے، اصل عیسائیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں، جس طرح سینٹ پال کے ذریعہ تثلیث، کفارہ اور حلول وتجسم کو ایجاد کیا گیااسی طرح یہ بھی ہے، عیسائی مؤرخ Andre Vose نے بھی اپنی ایک تحریر میں یہی بات لکھی ہے کہ کتاب مقدس میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا، نہ حضرت عیسی علیہ السلام نے اس کی تعلیم دی نہ حواریوں نے، یہ غلط طور پرعقائد دین مسیح کا حصہ بنا دیا گیا، اور یہ کہ کرسمس کا لفظ بائبل میں کہیں نہیں آیا، نہ عہد جدید میں، نہ عہد قدیم میں، نہ حضرت عیسی علیہ السلام کے مخصوص ١٢/حواریوں سے یہ بات منقول ہے۔ ہاربرٹ کی تحقیق ہے کہ مسیحیت میں یہ تہوار وثنیت سے آیا،١٩١١ء میں شائع ہونے والی کیتھولک انسائیکلوپیڈیا کے حوالہ سے ذکر کرتے ہیں کہ کیتھولک کلیسا کے مقررہ تہواروں میں کرسمس نہیں تھا، پہلی بار اس کو منانے کی بدعت مصر سے آئی، کتاب مقدس میں کہیں اس کا ذکر نہیں کہ حضرت عیسی کے یوم ولادت کو جشن منایا جائے، یہ تو فرعون اور نمرود کی ایجاد ہے کہ وہ اپنے یوم ولادت کے موقع سے خوشیاں مناتے تھے،پھر انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا اور امریکن انسائیکلوپیڈیاکے حوالہ سے بھی اسی قسم کی حقیقت نقل کرتے ہیں کہ چوتھی صدی عیسوی میں ولادت مسیح کو زندۂ جاوید بنانے کی غرض سے کرسمس کا جشن منایا گیا، اور پانچویں صدی میں مغربی کلیسا نے حکم دیا کہ اس دن کسی مذہبی شخصیت کے یوم پیدائش کو منانے کی قدیم رومی روایت کے مطابق اسی دن کو یوم ولادت مسیح کے طور پہ منا لیا جائے؛ چونکہ مسیح کی ولادت کی تاریخ معلوم نہیں۔”

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک صفاف و شفاف تحریک اور روحانی مقتدا کو نشانہ بنا کر اس قوم نے اپنی خواہشات کی آگ بجھانی چاہی ہے، دنیا کے سامنے مذہبی لبادے کے اندر وہ سب کچھ کرنا چاہا ہے جس سے شیطانیت اور ابلیسیت عام ہو، اور اپنے بے بنیاد عقائد و نظریات کو جشن و خوشی اور انسانیت کے حسین پیرائے لوگوں تک پہونچا سکیں، مگر حق بہرحال حق ہے اور باطل کا کوئی ساتھی نہیں، حق ہی انسان کا حقیقی دوست اور طمانین کا قلب کا سہارا ہے اس کے علاوہ تمام ذرائع بے بودہ اور دعوے کھوکھلے ہیں، مولانا اعظم صاحب ندوی نے اپنے مضمون کے اخیر یہ دلکش اقتباس پیش کیا ہے، جس میں حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی ایک اہم اپیل ہے، جسے آپ نے اپنی کتاب ”عیسائیت کیا ہے؟”(ص:81-82) میں بڑے دردمندانہ لہجہ میں کی ہے: ”کاش!انہیں کوئی بتا سکتا کہ تم افراط و تفریط کے جس دلدل میں گرفتار ہو؛اس سے نجات کا راستہ عرب کے خشک ریگ زاروں کے سوا کہیں اور نہیں ہے ؛زندگی کے بھٹکے ہوئے قافلوں نے ہمیشہ اپنی منزل کا نشان وہیں سے حاصل کیاہے؛تم پوپ پرستی سے لے کر انکار خدا تک کے ہر مرحلے کو آزماچکے ہو؛مگر ان میں سے کوئی تحریک تمہیں سلگتے ہوئے داغوں کے سوا کچھ نہیں دے سکی ؛اگر تمہیں سکون کی تلاش ہے تو خدا کے لیے ایک بار کیمیا کے اس نسخے کو بھی آزماکر دیکھو جو آج سے چودہ سو سال پہلے فاران(استثنائ:33/2) کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہونے والا،فارقلیط (یوحنا: 17/14)( صلی اللہ علیہ وسلم) تمہیں دے کر گیا تھاجسے دیکھ کر سلع کے بسنے والوں نے گیت گائے تھے؛اور قیدار کی بستیوں نے ”حمد”کی تھی(یسعیاہ:14/11) جس کے قدموں پر پتھر کے بت اوندھے گرے تھے(یسعیاہ:17/42)، جس نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا؛بلکہ جو کچھ سنا وہی تم تک پہنچادیا(یوحنا:16/13)،جب تم اس کے بتائے ہوئے راستہ پر نہیں آؤگے، تمہیں اس منزل کا پتا نہیں لگ سکے گا ؛ جہاں سے ضمیر کو سکون، روح کو مسرت اور دل کو قرار حاصل ہوتا ہے:

بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بولہبی است”

 

 

 

Comments are closed.