جوSoftware انسانی کمپیوٹر میں ڈالاجائے،شرعی نقطۂ نظر سے اس کا درست ہونا لازمی

 

مولانا بدیع الزماں ندوی

شریعت کی نظر میں اہم ترین مقصد انسانی عقل کا تحفظ ہے، یہ مقصد دوسری بہت سی اقوام میں نہیں پایا جاتا ، بہت سے نظاموں اور قوانین میں اس سے ملتا جلتا کوئی مقصد نظر نہیں آتا، جان کا تحفظ کرنے کا سب دعویٰ کرتے ہیں ، مذہب کے تحفظ کی بات بھی کسی نہ کسی حد تک موجود ہے ، مال کے تحفظ کی بات تو ہر جگہ موجود ہے ، لیکن عقل کے تحفظ کی بات شریعت اسلامی کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتی۔

ان خیالات کا اظہار ایک مجلس میں مختلف اخبار کے صحافیوں کے درمیان ملک کے مشہور عالم دین ، ممتاز ماہر تعلیم چیرمین انڈین کونسل آف فتویٰ اینڈ ریسرچ ٹرسٹ بنگلور و روح رواں جامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی نے کیا۔

انہوں اپنی گفتگو کاسلسلہ جاری رکھتے ہوئے زور دے کہا کہ اگر انسان جانشین الٰہی ہے ، اگر انسان خلافت کے منصب پر فائز ہے ، تو انسان کو جو چیز ممیز کرتی ہے ، اور بقیہ تمام مخلوقات پر فضیلت عطا کرتی ہے وہ عقل ہے، انسانوں کو تمام مخلوقات پر صرف عقل کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے، علم کا سب سے بڑا ذریعہ اور سب سے بڑا وسیلہ بلکہ اہم ترین اور واحد وسیلہ انسان کی عقل ہے ،اگر حیوانات امانت الٰہی کے متحمل نہیں ہوسکتے ،پہاڑ اور دریا اور زمین و آسماں امانت الٰہی کے حامل نہیں بن سکے تو اس لئے نہیں بن سکے کہ ان میں عقل نہیں تھی ، انسان کے پاس عقل تھی ، علم تھا ،اس لئے وہ اس امانت کا علمبردار بنا ،اس لئے یہ جو بنیادی صلاحیت ہے، جو اصل کوالیفکیشن (Qualification) ہے۔

مولانا موصوف نے بڑے عمدہ اور دلنشیں انداز میں بتایا کہ انسان کی عقل ایک کمپیوٹر (Computer)کی طرح ہے ، بلکہ کمپیوٹر انسانی عقل کی طرح ہے۔ کمپیوٹر انسانی عقل کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے ، انسانی عقل کمپیوٹر کو سامنے رکھ کر نہیں بنائی گئی ۔لیکن یہ کمپیوٹر جنتا بھی برتر اور پیچیدہ یعنی سوفسٹیکیٹڈ(Sophisticated)ہو ، جتنا بھی ترقی یافتہ ہو ، وہ ایک سافٹ ویئر (Software)کا محتاج ہوتا ہے ، اعلیٰ سے اعلیٰ کمپیوٹر میں غلط سافٹ ویئر (Software)ڈال دیا جائے تو وہ بھی غلط رُخ پر کام کرے گا، اس لئے شریعت نے پہلی ہدایت یہ کی ہے کہ جو سافٹ ویئر اس انسانی کمپیوٹر میں ڈالا جائے وہ درست ہو۔

انہوں نے کہا کہ شریعت میں عقیدہ انسانی عقل کا وہ سافٹ ویئر(Software)ہے، جس کی تعلیم دینے کا شریعت نے بچپن سے ہی سے حکم دیا ہے ، بچپن سے بچے کو یہ بتایا جائے کہ اسلام کے عقائد کیا ہیں ؟ سات سال کی عمر ہو تو نماز کی تلقین شروع کردی جائے ، دس سال کی عمر ہوجائے اور بچہ نماز نہ پڑھے تو شریعت نےجسمانی سزادینے کی اجازت دی ہے ، رسول اکرم صلی الله عليه وسلم کو بچوں سے جو محبت تھی وہ مشہور و معروف ہے ، اپنے بچوں سے بھی ، اور دوسروں کے بچوں سے بھی ، یہاں حضور اکرم صلی الله عليه وسلم نے نماز کی اہمیت کی خاطر اور انسانی عقل کو ایک خاص رُخ پر ڈالنے کی خاطر جسمانی سزا تک کی اجازت دی ہے کہ اگر بچہ نماز نہ پڑھے تو ہلکی پھلکی سزا بھی اس کو دی جا سکتی ہے ، یہ بات کہ انسانی عقل کو صحیح رُخ پر چلایا جائے ، اس کو صحیح راستہ بتایا جائے ، غلط راستوں پر جانے سے روکا جائے ، اس کی اہمیت کو احادیث مبارکہ میں بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

اخیر میں مولانا موصوف نے کہا کہ اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ انسانی عقل ایک کمپیوٹر کی حیثیت رکھتی ہے ،اور اس کمپیوٹر کو صحیح استعمال میں لانے کے لئے اس میں صحیح سافٹ ویئر (Software)ڈالنے کی ضرورت ہے ، یہ کام ابتدائی تعلیم اورتربیت کے ذریعہ ہونا چاہئے ۔

شریعت نے جہاں عقل کو ایک نعمت بتایا ہے ، وہاں عقل کے صحیح استعمال کی ہدایت بھی کی ہے ، عقل کا استعمال صحیح اور اسلامی خطوط پر ہو، بامعنی انداز ميں ہو ، مثبت خطوط پر ہوتو وہ شریعت کی نظر میں ایک بنیادی مقصد ہے۔ وہ چیزیں جو عقل کو منفی طور پر متاثر کرسکتی ہوں ، ان سب کی ایک ایک کر کے شریعت نے ممانعت کی ہے ، جو جو چیزیں عقل کو گمراہ کرسکتی ہوں ، عقل کو پرشان کرسکتی ہوں ، تشویش میں مبتلا کر سکتی ہوں ، وہ سب ناپسندیدہ ہیں ۔ اسی طرح جو جو چیزیں انسانی عقل کو مختل اور ماؤف کرسکیں ، ان سب کی ممانعت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ شریعت نے ان خرافات کی ممانعت بھی کی ہے ، جو انسانوں میں مذہبوں کے نام پر یا کسی اور عنوان سے رائج ہیں۔

Comments are closed.