زندگی اور علم ایک ساتھ

محمد صابر حسین ندوی
7987972043
علم اور انسان کا تعلق زندگی اور موت کے مثل ہے، اگر انسان زندہ رہا اور اس نے علم نہ سیکھا تو گویا اس نے زندگی جی ہی نہیں، علم حیات انسانی علامت اور نشان امتیاز ہے، یہ بیک وقت دوست، محبوب، عشق اور رمق حیات ہے، نمو، ترقی، اٹھان اور پروان کی تعبیر ہے، سب سے بڑھ کر زندگی کی تاریکی میں ایک شمع ہے، اس کے اجالے میں دنیا و آخرت کی مسافتیں طے کی جاتی ہیں، شب دیجور اور کہرے کی گھنی چادر میں بھی سورج کا شفق تلاش کرلیا جاتا ہے، اگر انسان صاحب علم ہو اگرچہ کہ اس کا علم اسے مادی فائدہ نہ پہنچائے؛ لیکن اتنا طے ہے کہ وہ زندگی کی ڈور سے یوں بندھا ہوگا کہ دنیا کی ساری حقیقتیں اور افسانے اس کے سامنے نوشتہ کتاب کی طرح کھل کر سامنے آجائیں گی، علم اپنے آپ میں ایک عزت، دولت، سربلندی، حوصلگی، وقار اور مان ہے، قرآن مجید نے کبھی نہیں کہا کہ دنیا، مال، عزت اود مناصب وغیرہ کی زیادتی کیلئے دعا کرو؛ مگر اس نے علم کی بڑھوتری کیلئے دعا کرنے پر ابھارا ہے؛ بلکہ یہ دعا بھی سکھائی جسے قرآن نے میں محفوظ کرلیا گیا ہے: رب ازدنی علما (طہ:١١٤) "میرے پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے” جو لوگ صاحب علم ہیں ان کے مقام کی اہمیت قرآن کریم نے اس انداز سے بتائی ہے؛ کہ ناخواندہ یا بے علم لوگوں کے مقابلہ میں ان کو بلند دکھایا: قل ھل یستوی الذين یعلمون والذین لا یعلمون – (زمر:٩) "کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں” یہ انداز بیان ایسا ہے جیسے آپ کہیں کہ شیر اور مکھی برابر ہوسکتے ہیں؟ لغت میں اس سوالیہ لفظ "ھل” (کیا؟) کو سوال انکار کہتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے، مذکورہ قرآنی آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ اہل علم اور بے علم برابر نہیں ہوسکتے، اصحاب علم و معرفت کا درجہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے درمیان ممتاز رکھا ہے، ایک آیت میں یہاں تک فرمایا گیا ہے: یرفع اللہ الذين آمنوا منکم والذین اوتوالعلم درجات- (مجادلہ:١١) "جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا”.
ان سب سے بڑھ کر قرآن مجید کا وہ فرمان اور وحی اولی پڑھئے، جس کے تمام پردے چاک ہوجائیں گے اور آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ علم اور زندگی لازم وملزوم ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ، خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اِقْرَاْ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ، الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ (علق:١- ٥) "اپنے پروردگار کے نام سے پڑھئے، جس نے (سب کچھ) پیدا کیا ہے، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے، پڑھئے، اور آپ کے پروردگار بڑے کرم کرنے والے ہیں، جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی، انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی، جن کو وہ نہیں جانتا تھا”۔ مولانا عبداللہ عباس ندوی رحمہ اللہ اس آیت کے بعد نقل کرتے ہیں:” حیات بخشنا اور علم دینا، دونوں کا ایک ساتھ ذکر اور ایک ہی سلسلہ بیان میں کہ اس مالک حقیقی کا نام لیجئے جس نے تخلیق اور تعلیم سے اپنے بندے (انسان) کو نوازا، علم کی اہمیت بتارہا ہے، نیز تاریخی لحاظ سے ان آیات کا وحی اول ہونا ثابت ہے، جس میں کسی زمانے میں کسی کو اختلاف نہیں ہوا؛ یہاں تک معاندین یہود و نصاری نے بھی قرآن کریم کے ترجمے کئے اور سورتوں کی ترتیب باعتبار وحی کی، وہ بھی مانتے ہیں کہ پہلی آیتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں وہ یہی تھیں، لہذا اگر یہ کہا جائے کہ لفظ "اقراء” (پڑھئے) قبل نبوت اور بعد نبوت کے زمانوں کے درمیان حد بندی کی لائن ہے تو غلط نہ ہوگا؛ یہی وجہ ہے کہ قبل نبوت کے زمانے کو جاہلیت (Ignorance) کا زمانہ کہا جاتا ہے” (دیکھئے: نگارشات:٦٠) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر زندگی سے علم کا عنصر خارج کردیا جائے تو انسان کی پیدائش کا مقصد بھی فوت ہوسکتا ہے، قرآن مجید کی تعبیر بڑی انوکھی و البیلی ہے، واقعی اللہ تعالی نے زندگی سے پہلے علم کا تذکرہ کیا ہے، یہ پیرایہ بیان خود اس بات پر شاہد ہے کہ انسان کی قسمت علم سے جڑی ہے، زمانے کی ترقی و تعمیر اور موت کے بعد کی زندگی کو سمجھنے اور علی وجہ البصیرہ عمل کرنے کیلئے علم ہی سب سے اہم ذریعہ ہے، اللہ کی معرفت ہو کہ زمانہ کی نبض ہر ایک تک پہونچنے کیلئے علم ہی درکار ہے، اگر کوئی فرد یا قوم علم سے دوری برتے تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ علم بڑے خسارت میں ہے.
Comments are closed.