کریمنل اور بے شرم میڈیا وتبلیغی جماعت

حسام صدیقی
مارچ ۲۰۲۰ سے تقریباً مئی کے آخر تک ملک کے بے شرم کریمنل میڈیا خصوصاً ٹی وی چینلوں نے نریندر مودی اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کی پشت پناہی اور حمائت سےملک میں کورونا پھیلنے کے لئے تبلیغی جماعت کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔ مودی اور کیجریوال سرکاروں کی جانب سے ان بے شرموں کو جھوٹ بولنے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی خوراک روز شام کو چینلوں کو اس وقت دی جاتی تھیں جب بھارت سرکار کی وزارت صحت کے جوائنٹ سکریٹری اگروال شام کو میڈیا کو بتاتے تھے کہ آج پورے ملک میں کورونامریضوں کی تعداد کتنی ہوگئی تو وہ الگ سے یہ ضرور بتاتے تھے کہ اس میں تبلیغی جماعت کے لوگوں کی تعداد کتنی ہے۔ یہی کام کیجریوال کے ہیلتھ سکریٹری بھی روز کرتے تھے۔ پورا پورا دن خصوصاًدوپہر کے بعد کوئی بھی چینل کھلتا تو اس میں زہریلے اینکروں اور خبر سے زیادہ جلوے بکھیرنے والی اینکرنیوں کی بھیانک چیخیں سنائی دیتی تھیں۔ کوئی تبلیغیوں کو کورونا بم بتاتا تھا کوئی کورونا جہادی کہتا تھا کوئی کورونا پھیلانے والی مشین کہتا تھا کوئی کہتا تھا کہ پھل بیچنے والے مسلمان پھلوں میں کورونا لگا کر بیچ رہے ہیں۔ کوئی کہتا تھا ان لوگوں نے پورے ملک میں بیرون ملک سے لا کر کورونا چھوڑا ہے۔ ان کریمنلس کی باتیں سن کر کبھی کبھی ایسا لگتا تھا کہ جیسے کورونا چین کے ووہان سے نہ پھیل کر دہلی میں تبلیغی جماعت کے مرکز سے پھیلا ہو۔ تبلیغی جماعت کے چیف محمد سعد کے لئے ٹی وی چینلوں پرطرح طرح کے نعرے لگتے تھے’کہاں چھپا ہے سعد‘، ’اس کورونا کاروبای کو فوراً گرفتار کرکے پیش کیا جائے‘،وغیرہ وغیرہ ۔ بد صورت جانوروں جیسی شکل والا دیپک چورسیا نام کا ایک اینکر تو تبلیغی جماعت کو طالبانی جماعت کہنے لگا تھا۔ ٹی وی چینلوں میں بیٹھے یہ مجرم دن بھر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتے تھے لیکن مودی حکومت آنکھ بند کئے رہتی تھی کیونکہ یہ کام تو وہی لوگ کررہے تھے جو سرکار چاہتی تھی۔
چینلوں کے زہریلے پروپگینڈے کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی شہروں کی ہندو کالونیوں میں لوگوں نے مسلم سبزی اور پھل فروش ٹھیلے والوں کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ کئی مسلمانوں کو راستے میں پیٹا گیا۔ اس نفرت پھیلانے کے کام میں خود کو سنجیدہ صحافی بتانے والے انڈیا ٹی وی کے رجت شرما بھی پیش پیش تھے۔ پروپگینڈے کا اثر اتنا خطرناک ہوا کہ کٹر پنتھی ہندوؤں کی بات تو دور سیکولر اور سب کے ساتھ مل کر رہنے والے کروڑوں ہندو بھی مسلمانوں سے چڑھنے سے لگے تھے۔ ہندوؤں کی بات تو دور مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد ایسی تھی جن کے دلوں میں یہ شک پیدا ہوگیا تھا کہ شائد تبلیغی جماعتی ہی کورونا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ ہندوستان کی آکسفورڈ کہی جانے والی الٰہ آباد یونیورسٹی کے مبینہ پڑھے لکھے وائس چانسلر اور پروفیسران بھی اس پروپگینڈے کا ایسا شکار ہوئے کہ یونیورسٹی میں پالیٹیکل سائنس کے پروفیسر شاہد کو صرف اس لئے معطل کردیا گیا کہ انہوں نے تبلیغی جماعت کے کوئی آدھا درجن لوگوں کے رہنے اور کھانے کا انتظام کروا دیا تھا۔ پولیس نے ان کے خلاف پینڈیمک ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرکے گرفتار بھی کرلیا تھا۔
بمشکل چھ سات مہینہ کے اندر ملک میں تبلیغی جماعت سے متعلق جتنے لوگوں کو گرفتار کیاگیا تھا سیشن عدالتوں اور ہائی کورٹوں کے ذریعہ سبھی کو بے گناہ قرار دے کر با عزت بری کردیا گیا۔ آخری چھبیس لوگ دہلی میں بچے تھے پندرہ دسمبر کو چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ ارون کمار گرگ نے نہ صرف سبھی چھبیس غیر ملکی تبلیغیوں کو با عزت بری کردیا بلکہ ان پر فرضی مقدمہ چلانے کے لئے پولیس کو بری طرح ڈانٹ بھی لگائی۔ نظام الدین تھانے کے انسپکٹر اور اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے ستیش کمار سے جب عدالت نے یہ سوال کیا کہ دو ہزار تین سو تینتالیس (۲۳۴۳) تبلیغی جماعتیوں میں سے انہوں نے نو سو باون(۹۵۲) غیر ملکی تبلیغیوں کی شناختی پریڈ کرانے یا لوگوں کو بلا کر ان کی شناخت کئے بغیر یہ کیسےمان لیا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کورونا گائیڈ لائنس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک میں کورونا پھیلانے کا کام کیا ہے۔ ان سبھی چھبیس جماعتیوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ مارچ میں ان میں سے ایک بھی جماعت کے مرکز والی مسجد میں موجود نہیں تھا وہ تمام لوگ الگ الگ ریاستوں میں تبلیغ میں گئے ہوئےتھے۔ دہلی پولیس وہیں سے انہیںپکڑ کرلائی تھی۔اس پر بھی عدالت نے انسپکٹر سے سوال کیا تو دونوں سوالات پر انسپکٹر کی گھگھی بندھ گئی وہ کچھ بول ہی نہیں سکے۔
ملک کے میڈیا کے اندر شرم اور ضمیر نام کی اگرکوئی چیز ہوتی تو پندرہ دسمبر کو باقی بچے چھبیس غیر ملکی تبلیغیوں کے بری کئے جانے کے بعد اس خبر کو نمایاں طور پر دکھاتے۔ ایسا نہیں ہوا۔ جماعتیوں کو کورونا بم بتانے والے چینلوں نے اس خبر کو سرے سے ہی غائب کردیا۔ٹھیک اسی طرح جیسے کوئی قاتل یا چور کہیں کسی واردات کو انجام دیتا ہے اور اسے بھلا کر اگلی واردات کی پلاننگ کرنے لگتا ہے۔ یہ جرائم پیشہ چینل بھی مسلمانوں کو نشانہ بنا کر ان کے خلاف نفرت کا زہر پھیلانے کے اگلے کسی موقع کی تلاش میں لگ گئے ہیں۔ آخر ان بھیڑیوں کو کون سزا دے گا؟
ان خونی بھیڑیوں نے مسلمانوں کے خلاف کوئی مسئلہ نہ ملنے کی وجہ سے کسان قوانین کے خلاف مظاہرہ کررہے کسانوں کو اپنا نشانہ بنایا اور وزیراعظم نریندر مودی کو خوش کرنے کے لئے انہیں خالصتانی، چین اور پاکستان کا ایجنٹ ، ٹکڑےٹکڑے گینگ اور اربن نکسلیوں کا ساتھی قرار دینے لگے۔ کسانوں نے ان میں کسی کو ہاتھ لگائے بغیر ایسا سبق سکھایا کہ اپنے آپ کو بڑی بڑی توپ سمجھنے والے چینلوں کے رپورٹر اب مظاہرہ کرنےوالے کسانوں کے پاس جاتے ہیں تو ماسک میں منھ چھپاتے ہیں اور ایک بھی رپورٹر اپنے چینل کی شناخت کرانے والا مائک یا کیمرہ لے کر نہیں جاتا۔ سب چوروں کی طرح اپنی شناخت چھپا کر جاتے ہیں۔ ایک کسان نے تو ایک بڑی سی ہورڈنگ پر ان چینلوں کے نام لکھ کر موقع پر رکھا، کسی نے اس سے پوچھا آپ یہ کیا کررہے ہیں تو کسان نے کہا میں بھونکنے والے کتے بیچتا ہوں اگر کوئی ایک خریدے گا تو میں ایک مفت میں دوںگا۔ وہاں کھڑے لوگوں میں سے ایک نے پوچھا کہ ان میں سب سے اچھا کتا کون ہے کسان نے ری پبلک ٹی وی کے نام پر انگلی رکھتےہوئے کہا کہ سب سے  زیادہ بھونکنے والا یہی کتا ہے۔ یہ بھونکتا ہی رہتا ہے۔ اگر آپ اسے لیں گے تو اس کے ساتھ میں ’زی ٹی وی‘ نام کا کتا مفت میں دوں گا۔ جو اس کے برابر بھونک تو نہیں پاتا لیکن جھوٹے دونوں ہی ہیں۔ یہ نوبت عوام میں آچکی ہے۔ ابھی تو بات زبانی جملے تک ہے۔ اگر یہ چینل باز نہ آئے تو وہ دن بھی دور نہیں جب چینلوں کے لوگ عوام کے درمیان جائیں گے تو لوگ ان کی باقاعدہ پٹائی کریں گے۔ پھر جب موقع پر کتے کی طرح پیٹے جائیں گے تو انہیں بچانے کے لئے نہ نریندر مودی آئیں گے اور نہ ان کے چینلوں کے وہ ایڈیٹر جو موٹے کالے دھن میں بک کر ان لوگوں سے جھوٹ بلواتے ہیں۔ اب تو لگتا ہے کہ انہیں بے شرم کہنا بھی بے شرمی کی توہین ہے۔

Comments are closed.