سرکار سے بات کرنے سے کسانوں کا انکار

حسام صدیقی
نئی دہلی: ایک مہینے سے زیادہ ہی مدت سے سنگھو اور دہلی کی دوسری سرحدوں پر بیٹھے کسانوں سے سرکار سے بات چیت کرنے کی پیشکش ایک بار پھر ناکام ہوگئی۔ سرکار کی جانب سے وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کسانوں کو خط لکھ کر ایک بار پھر بات چیت کا نیوتا دیا تھا لیکن ۲۳ دسمبر کوچالیس کسان تنظیموں نے میٹنگ کرکے یہ کہہ دیا کہ ہم سرکار سے بات چیت کرنے کے لئے تو ہر وقت تیار ہیں لیکن کوئی ٹھوس پیشکش تو سرکار کی جانب سے آئے۔ کسان لیڈران نے کہا کہ سرکار بار بار وہی گھسے پٹے اپنے وعدوں کا ذکر کرتی رہتی ہے جبکہ ہم نے بالکل صاف طریقہ سے کہہ دیا ہے کہ سرکار پہلے اپنے تینوں کالے قوانین واپس لے پھر ہم بات کریں گے ۔ تئیس دسمبر کوہی یہ بھی خبر آئی کہ وزیراعظم نریندر مودی پچیس دسمبر کو دھرنے پر بیٹھے کاشتکاروں کو پہلی بار اپنا پیغام دیں گے۔ کاشتکارکہہ رہے ہیں کہ تینوں قوانین واپس لئے جانے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں ہے جس پر ہم سرکار کے ساتھ بات چیت کریں یا نریندر مودی کا پیغام سنیں۔ اس درمیان ایک خطرناک خبر یہ بھی آئی کہ اتنی زبردست ٹھنڈک میں مہینہ بھر سے زیادہ مدت سے دھرنے پر بیٹھے تقریباً سینتیس کسانوں کی موت ہوچکی ہے ایک سنت بابا رام سنگھ سمیت دو لوگوں نے کسانوں کی حالت سے بیزار ہو کر خودکو گولی مار کر خودکشی کرلی۔ کسانوں کی سرکار سے سب سے بڑی شکائت یہ ہے کہ سرکار ایک طرف تو ان سے بات چیت بھی کرتی رہی ہے دوسری طرف کسانوں کو بدنام کرنے اور ان پر طرح طرح کے الزام لگانے کی بھی مہم بی جے پی چلائے ہوئے ہے۔ اس طرح پیٹھ میں چھرا گھونپنےوالوں کے ساتھ کیا بات چیت کی جائے اور کیسے کی جائے۔
مودی سرکار نے جس ہتھیار کا استعمال مسلمانوں، کانگریس اور لیفٹ پارٹیوں کے خلاف کیا ہے یعنی انہیں بدنام کردیا جائے کسی کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ، کسی کو دہشت گرد، کسی کو اربن نکسل کہہ کر بدنام کیا اسی ہتھیار کا استعمال اب مودی نے اپنے خوشامدیوں کے ذریعہ کسانوں کے خلاف بھی کرنا شروع کیا تھا لیکن وہ ہتھیار چلا نہیں۔ سرکاری جھوٹ کی انتہا یہ ہے کہ مودی کے ایک وزیر نتیانند رائے نے لمبی چوڑی تقریر کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ لیہہ اور لدّاخ میں تعینات ہمارے فوجیوں کے لئے رسد لے جانے والی ٹرین تک کو کسانوں نے روک دیا ان کی یہ بات سراسر جھوٹ ہے۔ فوجی جوانوں، ان کے سازوسامان اور ان کے لئے جانے و الی رسد کو کسانوں نے کبھی نہیں روکا۔ایک کاشتکار لیڈر نے کہا کہ نتیانند رائے نام کا جو وزیر اتنا بڑا جھوٹ بول رہا ہے اگر مود ی نے اسے جلد ہی سزا نہ دی تو ہم یہ سمجھیں گے کہ یہ جھوٹ نتیانند رائے نہیں بول رہا تھا خود مودی بول رہے تھے۔ اس لیڈر نے کہا کہ نتیانند رائے کے خاندان کا تو کبھی کوئی فوج میں گیا نہیں ہوگا ہمارے پنجاب کے ہر گھر اور ہر کسان کے ایک دو بیٹےملک کی حفاظت کے لئے سرحدوں پر تعینات ہیں۔ نتیانند رائے یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کا کھانا پینا بند کردے رہے ہیں؟
ایک سکھ کسان رنجیت سنگھ جوماڈلنگ بھی کرتا ہے بہت خوبصورت شخص ہے، وہ بھی کسان تحریک میں شامل ہو کر سنگھو بارڈر پر بیٹھا ہے۔لیکن یہ پتہ لگائے بغیر کہ وہ کہاں ہے بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے اس کی تصویر کے ساتھ کسان بلوں کی حمائت میں پوسٹر چھپوا کر اس کے اپنے گاؤں سمیت پنجاب کے کئی اضلاع میں لگوادیئے ہیں۔ پوسٹر لگنے کے چند منٹ کے اندر ہی انہوں نے سنگھو بارڈر پر موجود میڈیا سے بات کرتے ہوئےکہا کہ آپ خود ہی دیکھ لیجئے کہ ہم کسانوں کا کتنا جھوٹے لوگوں سے پالا پڑا ہے کسان تحریک کمزور کرنے کی سازش میں مودی سرکار خصوصاً وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر روز ہی کچھ فرضی کسانوں اور ان کے مبینہ لیڈران کو بلا کر بات کرتے ہیں پھر مودی غلام میڈیا کے ذریعہ یہ پروپگینڈا کراتے ہیں کہ بڑی تعداد میں کاشتکار اور ان کے لیڈران مودی سرکار کے ذریعہ لائے گئے کسانوں کی بھلائی کے قوانین کی حمائت کررہے ہیں۔ ایسا ہی ایک ڈرامہ ان لوگوں نے مظفر نگر میںکیا اور ان کے غلام ٹی وی چینلوں نے شور مچایا کہ بڑی تعداد میں کسان دہلی جا کر سرکار کی حمائت کا اعلان کریں گے اور بند راستوں کو کھلوائیں گے۔ ان غلام چینلوں نے ایک میدان میں اکٹھا ہوئے کچھ ٹریکٹر ٹرالیاں بھی دکھائیں کسی بھی ٹرالی میں دو تین سے زیادہ لوگ بیٹھے نہیں تھے وہ بھی کسان تھے یا تماشائی کوئی نہیں جانتا۔ کچھ ٹرالیوں میں تو دو دو لوگ ہی بیٹھے تھے کچھ خالی بھی تھیں۔
مظاہرہ کررہے کسان اوران کی مدد میں نکلے لوگوں کے جذبہ کا عالم یہ ہے کہ سنگھو بارڈر پر ابھی بھی دو لاکھ لوگوں کے لئے اگلے چھ سات مہینے تک کا غلّہ اور کھانے پینے کا دیگر سامان اکٹھا ہے۔ کسانوں نے وہاں پر روٹیاںبنانے کی مشینیں لگا رکھی ہیں اسی طرح دال چاول پکانے کے لئے جدید ترین ماڈیولر کچن لا کر رکھے ہیں۔ ملک بیرون ملک سے ہزاروں کی تعداد میں سائنٹیفک طریقے سے کام کرنے والے چلتے پھرتے بیت الخلاء لا کر کھڑے کردیئے ہیں۔دودھ، دہی، اور گھی کی کوئی کمی نہیں ہے۔ حالات یہ ہیں کہ سنگھو بارڈر سے آگے جتنی دور تک کسان بارڈر پر جمے ہیں سڑک کے دونوں طرف سات آٹھ کلومیٹر تک بسے گاؤں کے لوگوں کے گھروں کے چولہے بند پڑے ہیں۔ ان گاؤں کے تمام لوگ صبح کے ناشتےسے رات کے کھانے تک تینوں وقت کسانوں کے ہی لنگر میں کھانا کھا رہے ہیں اور کسان انہیں بڑی محبت کے ساتھ کھانا کھلاتے بھی ہیں۔
موہالی کے نرمل سنگھ سڑک پر جمے کسانو ں کے لئے بہت ہی عمدہ قسم کے کمبل لا کر تقسیم کررہےہیں۔چوبیس دسمبر تک وہ تقریباً ایک لاکھ کمبل لاکر کسانوں کے لئے بنے کنٹرول روم کو دے چکےتھے۔ ایک میڈیا نمائندے نے نرمل سنگھ سےپوچھا کہ آپ جو کمبل کسانوں کو دے رہے ہیں ہم نے انہیں دیکھا ہے۔ ایک کمبل کی قیمت سات آٹھ ہزار روپئے سے کم نہیں ہوگی آپ اتنے مہنگے کمبل اتنی بڑی تعداد میں کب تک تقسیم کریں گے اور اس کے لئے فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے۔ نرمل سنگھ نے کہا کہ ابھی تو ایک لاکھ کی بات ہے اگر ایک کروڑ کمبل کی بھی ضرورت ہوگی تو ہم لوگ لا کر دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ فنڈنگ کا معاملہ یہ ہے کہ ہم بیس پچیس دوستوں نے مل کر یہ کام شروع کیا تھا۔ ہماری مہم میں تقریباً سو لوگ روز جڑ رہے ہیں جو ہمارے دفتر آتے ہیں اپنے خون پسینے کی کمائی کا پیسہ جمع کرتے ہیں اور رسید لے جاتے ہیں۔ ہم بیرون ملک سے کوئی فنڈ نہیں لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم سبھی اپنی جیب سے پیسے جمع کرتے ہیں۔
نرمل سنگھ نے کہا کہ ’مودی کا ایک بندر‘ ٹی وی چینل پر بیٹھ کر کہہ رہا تھا کہ سنگھو بارڈر پر کسانو ں کے لئے آرہا راشن آخر کبھی تو ختم ہوگا، ہم اس بندر اور اس کے آقا مودی کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ ملک اور دنیا بھر کے گرودواروں میں ساڑھے پانچ سوسالوں سے چوبیس گھنٹے لنگر چلتا ہے اس کا راشن تو ساڑھے پانچ سو سال میں نہیں ختم ہوا تو سنگھو بارڈر پر کیسے ختم ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ تقریباً ساڑھے پانچ سو سال پہلے سکھوں کے گرو نانک دیو نے لنگر کا سلسلہ شروع کیا تھا آج تک تو بند نہیں ہوا ہے بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
اس درمیان مودی سرکار کے کسانی قوانین کی پول پٹی مدھیہ پردیش میں کھل گئی جہاں وزیراعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان بار بار چیختے ہیں کہ انہوںنےاپنی ریاست میں کئی مہینے پہلے کسان بل نافذ کردیا تھا، جس کیوجہ سے مدھیہ پردیش کے کسانوں میں خوشحالی کی لہر دوڑ گئی۔ چونکہ سبھی جھوٹ بول رہے ہیں تو شیو راج سنگھ چوہان تو جھوٹوں کے بادشاہ ہیں۔ مدھیہ پردیش میں دھان کا علاقہ کہا جانے والے حلقہ کے پپریا گاؤں میں ۲۳ دسمبر کو این ڈی ٹی وی کے نمائندہ انوراگ گودواری نے جا کر دیکھا تو کسانوں کا سارا کا سارا دھان کھلہانوں میں ہی پڑا ہے کیونکہ پپریاگاؤں کے کسانوں کی زمین شیو راج سرکار نے زبردستی دباؤ ڈال کر اپنے کچھ چہیتے تھیلی شاہوں کو ’کانٹریکٹ فارمنگ‘ پر دلا دی تھی۔ گاؤں کے برجیش پٹیل، انل شرما، شوبھا رام پٹیل، پربھو رام پٹیل، انوج پٹیل،متھلیش کمار اور چندن پٹیل سمیت بڑی تعداد میں گاؤں کے لوگوں نے سامنے آکر ٹی وی چینل سے شکائت کی کہ جن لوگوں نے کانٹریکٹ فارمنگ کی لکھا پڑھی کی تھی وہ کمپنیاں اب کسانوں کو بلیک میل کررہی ہیں اور ان کا دھان اٹھا نہیں رہی ہیںبہانہ یہ کہ دھان کی کوالٹی خراب ہے۔انوج پٹیل اور انل شرما نے سوا ل کیا کہ ہم یہ کیسے تسلیم کرلیں کہ گاؤں کے سبھی کسانوں کا دھان خراب کوالٹی کا ہے۔ ہمارے ہی وہ ساتھی جنہوں نے کمپنیوں سے ایڈوانس پیسہ لے رکھا تھا کمپنیوں نے اپنا پیسہ وصولنے کے لئے ان کا دھان تو اٹھا لیا لیکن جو قیمت دی وہ اتنی کم ہے کہ سرکار کے ذریعہ طئے کی گئی ایم ایس پی سے تقریباً آدھی۔ برجیش پٹیل نے کہا کہ انہوں نے چالیس ایکڑ دھان بویا تھا فصل تیار ہوئی تو پورا دھان کھلہان میں ہی پڑا ہے۔ میں سیمپل لے کر کمپنی کے دفتر گیا تو ہم سے کہا گیا کہ تمہارے پاس تو دھان بہت زیادہ ہے کچھ آٹھ دس ہزار روپئے خرچ کرو تو تمہارا سیمپل پاس کیا جاسکتا ہے۔ برجیش نے کہا کہ وہ رشوت تو نہیں دیں گے بھلے مودی اور شیو راج جیسے جھوٹوں کے نام پر انہیں اپنا دھان کھلہان میں ہی کیوں نہ جلانا پڑے۔
Comments are closed.