تحریک ابنائے مدارس کی ضرورت

 

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

اس وقت فتنہ پروری، فاشزم اور ہندواحیائیت کا وہ دور ہے کہ جس میں وہ پورے آب و تاب کے ساتھ ہر شئی کو چیلینج کر رہے ہیں، ان کے پاس قوت و طاقت کا ایسا انبار ہے کہ اب اس کے سامنے دوسری جماعت، تحریک اور انقلاب بھی اپنی اہمیت کھو رہے ہیں، شخصیات مجروح ہورہی ہیں، اہل دانش و ارباب حاشیہ پر دھکیلے جارہے ہیں، ہیڈگوار اور گروگوالکر سے لیکر موہن بھاگوت تک کی پوری فہرست میں موجودہ دور سب سے زیادہ خطرناک ہے، ملک وملت کی ہر اینٹ بکھرنے کو ہے، آزادی ہند کا مطلب بے معنی ہونے کو ہے، تو وہیں چھوٹے چھوٹے مفادات اور ذاتی اغراض کیلئے پوری قومیں ایک دوسرے کو نوچ کھانے کیلئے تیار ہے، مسلمانوں کی حالت تو زار ونزار ہے، ان کے بین اختلافات کی آندھی چل پڑی ہے، ہر کوئی اپنے آپ میں ایک خدا بنا ہوا ہے، اعلی سے اعلی اور ادنی سے ادنی افراد کی بات کی جائے تو کہیں سے کوئی تشفی بخش صدا سنائی نہیں دیتی، امت کی قیادت اور ہمدردی کرنے والے، اپنے آپ کو تھکا کر عوام. کو تسکین پہنچانے والے عنقا ہوئے جاتے ہیں، آر ایس ایس کے ساتھ بلکہ ان سے پہلے قائم شدہ مسلم جماعتوں کی حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے، اگر ان کے اکا دکا کارنامے بلکہ کام کو الگ کردیا جائے تو فی الوقت ان کے پاس قومی اجارہ داری، اسلاف پروری اور سابقہ بزرگوں کی محنتوں کا اثاثہ، ان کی نیک نامی کے نام پر مسلم امہ کو بیوقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا ہے، جو لوگ حکومت کا ہم نوالہ اور ہم پیالہ بن کر حکمت و مصلحت اور دوراندیشی کے نام پر پوری ملت کو بزدلی کا تمغہ تھما دینا چاہتے ہیں، ان کی معاشی و تعلیمی اور سیاسی قیادت کو کچل کر صرف اپنی برتری و فوقیت کو یقینی بنائے رکھنا چاہتے ہیں، ان سے بھلا کونسی خیر متوقع ہوسکتی ہے.

ہر سال مسلمان ایک نئے فتنے دوچار ہوتے ہیں؛ اگر سچ کہا جائے تو اب ہر دن ایک نیا فتنہ منہ پھاڑے کھڑا رہتا ہے، مسلمانوں کی بچی کھچی قومی و ملی قدریں بھی خطرے میں ہیں، مدارس کا قیام اور ان کا مقصود بھی قزاقوں کا شکار ہوگیا ہے، وسائل اور ذرائع کا رونا رو کر پوری ملت کو جمود پر ڈال دیا گیا، ان میں فکری و اصلاحی اور علمی و سیاسی صلاحیت کو دوچند کتابوں تک محدود کر کے سنہرے خواب میں پڑے رہنے کی تلقین کردی گئی ہے، تجدید کے قدیم نعرے ایک سلوگن بن کر رہ گئے ہیں، اگر آپ ملک کی تعلیمی و اخلاقی اقدار کا جائزہ لیں گے تو یقیناً ہاتھ ملتے رہ جائیں گے، بالخصوص ان اداروں سے فارغین جو انسانیت کے رہبر اور انقلاب کے پاسبان کہلاتے، جنہیں ملت کیلئے مصلح اور خیر خواہ ہونا تھا، جو خود آگے بڑھ کر رعایا کو بیدار کر کے اسلاف کی میراث کو تھامتے اور انہیں ایک ایسی راہ سجھاتے جس سے ان کا سماجی ڈھانچہ مضبوط ہوتا، ملت کی ترقی ہوتی اور وہ فاشزم کے اٹھتے سروں کو کچلنے کی قوت پاتے؛ وہ لوگ خود امت کے مابین اختلاف، سوقیانہ پن، دست گریبانی اور بے اطمینانی کا باعث بن گئے ہیں، اگر کچھ مثالیں رہنے دی جائیں تو کہا جاسکتا ہے کہ بلامبالغہ وہ شاہ اب گدا گری پر مجبور ہیں، ان کے وجود پر بھی خطرہ ہے، امامت، تدریس، تقریر اور کچھ تحریر تک سمٹ کر رہ گئے ہیں، سماج انہیں الگ قوم سمجھتی ہے، ان پر ترس کھاتی ہے، وہ قابل رحم ہوچکے ہیں، تو وہیں دقت یہ بھی ہے کہ دسیوں سال مولیویت کا لبادہ وہ ایسے اوڑھے رہتے ہیں کہ بازار و سماج سے کٹ جاتے ہیں، اگر موقع پڑ جائے اور وہ محنت وجفا کشی کی روٹی کھانے مجبور ہوجائیں تو تحصیل علم کے دوران ملی شیخی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے لوگ تب بھی طعنہ دیتے ہیں، کسی زمانے میں علم ہی انسان کو محنت و جد جہد پر ابھارتی تھی اب وہ مخصوص رواج و رسم اور بے بنیاد اصول و ضوابط کی چپیٹ میں آکر ناکامی و نامرادی کی تعبیر بن گئی ہے.

اگر وقتاً فوقتاً کوئی تحریک اور کوئی تنظیم سامنے آتی ہے اور ان نقاط پر گفتگو کرتی ہے تو اگرچہ ایک امید جگتی ہے؛ لیکن وہ کسی خاص فکر کی نمائندہ ہونے کی بنا پر اس کا دائرہ اتنا محدود ہوتا ہے؛ کہ اس کے متنوع ثمرات چند افراد سے بھی متجاوز نہیں ہوپاتے، ایسے میں کیا خوب ہو کہ ابنائے مدارس کا قیام عمل میں لایا جائے، ہر فکر وفن اور ادارے سے جڑے ہوئے افراد ان سے منسلک ہوں، تعلیمی، تجارتی، سیاسی اور سماجی نقاط پر غور و خوض کیا جائے، ایک دوسرے کی ضرورت اور ملت کی صورت حال کا صحیح تحلیل و تجزیہ کر کے ان کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا جائے، آپسی اختلاف کی بیڑیاں توڑ دی جائیں، مفادات کو پرے کیا جائے، جزوی باتیں دیوار سے مار دی جائیں، ہر ادارہ کے اصحاب علم اپنی اپنی فکر پر بلا کسی تعصب کے تصلب کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی عزت و توقیر اور ضرورت کا خیال رکھیں، سماج میں سر اٹھا کر جینے کی خاطر خود کفیلی کی تحریک چھیڑی جائے، ہر ایک کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے اور وقار نفس کو ملحوظ رکھتے ہوئے خدمت کا جذبہ پیدا کیا جائے، انہیں سیاست کے میدان میں سرگرم کیا جائے، سبھی جانتے ہیں کہ یہ وقت قلعے فتح کرنے کا نہیں بلکہ سیاست کا ہے، منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کا ہے، یقین جانیں اگر ابنائے مدارس ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں اور بنیادی نقاط کو سامنے رکھتے ہوئے اگر معمولی شعور و بیداری کا بھی اظہار کریں تو یقیناً وہ نتائج رونما ہوں گے کہ جن سے بھارت میں امت مسلمہ کا مستقبل طے ہوگا، اور اس میں ابنائے مدارس کا نمایاں کردار زمانہ یاد رکھے گا.

 

Comments are closed.