دعوت ,سیکولرزم ,اسلام اور مسلمان

عمر فراھی ۔۔۔
سر علامہ محمد اقبال کہتے ہیں کہ غلامی میں قوموں کا ضمیر بدل جاتاہے ۔ایک طبقے کا خیال ہے کہ اقبال نے غلامی کا دور دیکھا تھا اس لئے انہیں اس کا زیادہ ادراک تھا ۔ہم نے تو سیکولر طرز سیاست کی آزاد فضا میں آنکھ کھولی ہے جہاں حکمراں بدلنے اور حکمرانوں کے خلاف بولنے اور چیخنے کی آزادی ہے ۔رشید کوثر فاروقی صاحب کا نظریہ اس کے برعکس ہے ۔وہ کہتے ہیں
پہلے اک بادشاہ کا رونا تھا
اب تو جنگل ہے شہر یاروں کا
یعنی پہلے عوام شاہوں کی غلام تھی اب سیکولر شاہوں کی غلام ہے ۔یعنی غلامی بھی سیکولر ہو گئی ۔فرق اتنا ہے کہ اس طرز غلامی میں غلاموں کو بولنے کی آزادی ہے اس لئے وہ خود کو آزاد سمجھتا ہے ۔شاید اسی لئے اس معاشرے میں فلاسفروں اور دانشوروں کی بھر مار ہو جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ سیکولر غلام بہت تعلیم یافتہ ہوجاتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سیکولر شہشاہ بھی رفتہ رفتہ نام نہاد آزاد سیکولر غلاموں کو خوفزدہ کر کے انہیں اپنے قائد اور رہنما سے محروم کر دیتے ہیں ۔یعنی کبھی کفیل کبھی شرجیل کبھی اعظم خان تو کبھی ظفر الاسلام کبھی محمود پراچہ تو کبھی کسی اور کے گھر اور دفتر پر چھاپہ مار کر حق بولنے اور آکے بڑھنے والوں کے حوصلے پست کرنے کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے۔اسی آزاد سیکولر معاشرے میں انا ہزارے کے چیخنے چلانے سے بدعنوانی کا خاتمہ تو ہوا نہیں دوسرے فاشسٹ شہریار ضرور اقتدار پر قابض ہو گئے۔کسی نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ ہر پانچ سال کے انتخابات سے چہرے بدلے جاسکتے ہیں ماحول اور نظام نہیں ۔اب دیکھئے نا شاہین باغ کی دادیوں کی تحریک سے این آر سی کا مسئلہ ادھورا تو رہ گیا پر ہنوز حل طلب ہے ۔اب کسانوں کے احتجاج سے ممکن ہے انہیں کچھ راحت مل جائے لیکن ملک کی عوام کا مقدر بھی سنور جائے گا اس کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے ۔
یہ سارا عمل پارلیمنٹ میں بل پاس کرنے سے لیکر انتخابات کے ڈرامائی انداز میں اتنا کرشماتی اور معجزاتی طور پر ہوتا ہے کہ ایک قوم کو اپنے غلام ہونے اور قائد سے محروم ہونے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ایسے میں جب وہ کسی مسائل میں گھر جائیں یاحکمراں خود مسئلے پیدا کردیں اور انہیں اپنے مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتاتو ان کے اندرہر بولنے والا خطیب اور ہر لکھنے والا قلمکار بھی دانشور بن جاتا ہے لیکن دیدہ ور دور دور تک نظر نہیں آتا۔سیکولر دانشورانہ مزاج کی حد کی انتہا یہ بھی ہے کہ یہ طبقہ اپنی ایک بیوی ایک گھر ایک اولاد ایک خاندان تنظیم اور ملک کے مسائل کو تو حل کرنے سے بے بس ہے ان مسلم ممالک کے اسلام پسند سربراہان کو بھی سیکولرزم کا سبق سکھانے کی جسارت کرنا چاہتا ہے جنھوں نے اپنے ملک میں امن و انصاف اور خوشحالی پیدا کرکےاپنی قیادت کا لوہا منوایاہے ۔مثال کے طور پر ہم بابری مسجد بچا نہیں سکے لیکن جب طالبان نے بامیان کے مجسموں پر ہتھوڑا چلایا تو ہم بھارت کے مسلم دانشوروں نے سیکولرزم اور رواداری کی دہائی دیتے ہوئے طالبان کو خوب برا بھلا کہا ۔ادھر حال ہی میں جب ترک عندلیہ نے آیا صوفیہ میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ دیا تو چند ہم عصر مسلم دانشور حضرات نے ترک عدلیہ کے فیصلے پر بھی تنقید کی کہ اس فیصلے سے اقوام عالم میں مسلمانوں کی سیکولر شبیہ مجروح ہوئی ہے ۔اس لئے بہتر تھا کہ اسے میوزیم ہی رہنے دیا جاتا تاکہ غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے جو مواقع ہیں ان میں دراڑ نہ پیدا ہو ۔
حالانکہ جس انسان ساختہ آئین اور اصول کو ہم مقدس مانتےہیں یہ نہ تو خدا کا کلام ہے اور نہ ہی خود ان کے خداؤں کے پاس بھی سیکولرزم کا کوئی واضح مفہوم ہے اور یہ آئین بھی کہیں نہ کہیں نیو ورلڈ آرڈر سے مربوط ہے۔نظریہ سیکولرزم جیسے جیسے برطانیہ سے فرانس آسٹریلیا امریکہ اور جرمنی ہوتے ہوئے ہندوستان میں داخل ہوتا ہے اس کا مفہوم بدل جاتا ہے اور وہاں کے مسلمانوں کو بھی یہ نظریہ وہاں کی اکثریت کے واضح کردہ مفہوم اور نصاب کے ساتھ ہی قبول کرنا پڑتا ہے ۔یعنی فرانس جرمنی اور ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں اگر سیکولزم کے نام پر مسلم عورتوں کے حجاب پر پابندی لگا دی جائے اور مسلمانوں کی مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کو جائز قرار دے دیا جائے تو وہاں کے مسلمانوں کو اس ملک کے پارلیمانی قانون کا احترام کرنا لازمی ہے ۔بھارت میں سیکولرزم کا غیر واضح مفہوم یہ ہے کہ ایک پولیس تھانے میں ایک مندر کو تو برداشت کر لیا جاتا ہے اور نئی پارلیمنٹ کا بھومی پوجن بھی ہندو رسم و رواج سے ہونا کوئی معیوب بات نہیں ہے لیکن ایک مسلمان پولیس افیسر داڑھی نہیں رکھ سکتا کیوں کہ اس طرح اس کی مذہب کی شناخت ہوتی ہے ۔
اس کے علاوہ ہمارے یہاں ہر مذہب کے لوگوں میں ایک تیسری بڑی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو خدا پرست سے زیادہ مادہ پرست روشن خیال لبرل یا ترقی پسند ہے ۔یہ لوگ بھی کارپوریٹ معاشرے میں چاہے وہ فیکٹری ہو یا اسکول اور کالج کسی مسلم نوجوان کی شرعی داڑھی اور مسلم لڑکی کے حجاب کو شدت پسندی سے تعبیر کرتے ہیں ۔اس وقت دنیا پر اسی ذہنیت کے لوگوں کو اقتدار حاصل ہے اور یہ ذہنیت لوگوں کی ذہن سازی کیلئے نیو ورلڈ آرڈر کی شکل میں اپنا ایک عالمگیر تعلیمی نصاب بھی نافذ کر چکی ہے جو رفتہ رفتہ جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ذہنیت پر اثر انداز تو ہو ہی چکی ہے سیکولر ممالک میں مسلمانوں کی دعوت و تحریک بھی اسی ورلڈ آرڈر کے دائرے تک ہی محدود ہے ۔یعنی جس قرآن میں یا ایھا الذین آمنوا ادخلو افی السلم کافہ کی آیت سے ایمان والوں کو اسلام میں داخل ہونے کی تلقین کی گئی ہے آج لبرل اور سیکولر نظریہ سیاست کے دائرے میں دعوت و تبلیغ میں مصروف بہت ساری تحریکیں اسلام کو ایمان والوں میں داخل کرنے پر مجبور ہیں !
Comments are closed.