2020بھلانا چاہیں‘ بھلا نہ پائیں!

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز‘ حیدرآباد۔ فون:9395381226
2020ء…. گذر گیا۔
ایک طوفان کی طرح…. جو اپنے پیچھے تباہی کے نقوش چھوڑ گیا۔ کن کن نقوش کا ذکر کیا جائے جو شاید اس وقت تک ذہن اور یادوں میں اَنمٹ رہیں گے جب تک حواس قائم ہے۔ شاہین باغ احتجاج جس کا آغاز تو 2019ء کے آخری مہینے میں ہوا تھا مگر 2020ء میں شدت اختیار کیا گیا تھا۔ جس پر ساری دنیا کی نگاہیں مرکوز تھیں جو فرقہ پرست طاقتوں کی نگاہوں میں کھٹک رہا تھا۔ جو قومی قائدین اور ارباب اقتدار کی تقاریر کا موضوع تھا یا پھر دہلی کے فسادات کے نقوش‘ جس میں یکطرفہ کاروائی کی گئی، دکانیں جلادی گئیں، کاروبار تباہ کردیا گیا۔ مسلم نوجوانوں کو جیلوں میں بھردیا گیا۔ یا پھر نمستے ٹرمپ کے نام پر کرونا کو پھلنے پھولنے اور پھیلنے کا موقع دیا گیا۔ اپنی ناکامی، کمزوری کا الزام تبلیغی جماعت کے مرکز اور جماعت کے ارکان کے ساتھ تھوپ دیا گیا۔ انہیں جیل بھیجا گیا۔ مقدمے دائر کئے گئے۔ ان کردار کشی کی گئی۔ لیڈی ڈاکٹرس نے اپنے پیشے کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے جھوٹے الزامات عائد کئے۔ اس قدر پروپگنڈہ کیا گیا کہ لفظ ”تبلیغی“ کو گالی کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ کرونا کو تو پھیلنا تھا‘ پھیلتا گیا۔ وہ بدترین دور سے بھی گذرے جب اللہ کے گھر کے دروازے بند کردیئے گئے۔ تاریخ میں پہلی بار تراویح گھروں میں پڑھی گئی (کشمیر کے عوام اس کے عادی ہیں)۔ جمعہ کے فرائض سے محروم ہوئے۔ عیدین کی خوشیاں ختم ہوگئیں۔ 2020ء سال بالکل 20-20 کرکٹ میاچ کی طرح ہوگیا تھا۔ دھڑادھڑ میتیں۔ ہر تین میں سے دو گھروں میں کرونا سے متاثر اور کسی نہ کسی کی موت‘ اور ایسی موت کہ نہ غسال آسانی سے دستیاب نہ ہی قبرستانوں میں زمین دینے تیار۔ تدفین میں ارکان خاندان کو تک آنے کی اجازت نہیں۔ اگر اجازت ہو بھی تو موت کے خوف سے خود ا رکان خاندان قبرستان جانے سے پرہیز کررہے ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ مرحلہ تو حرمین شریفین کے دروازے زائرین کے لئے بند کردینے کا تھا۔شاید ہی ایسا کوئی مسلمان ہوگا جو خانہ خدا اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بند کئے جانے پر خون کے آنسو نہ رویا ہو۔اللہ تعالیٰ کایہ کرم رہا کہ جو زندہ رہ گئے‘ جنہیں اس نے توفیق دی، ہدایت دی انہوں نے اپنے گھروں کو سجدوں سے سجایا۔ اپنی راتیں اپنے خالق حقیقی کے ذکر میں گذاری۔ اور اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کے آنسوؤں اور ان کی دعاؤکی کیلاج رکھی۔ آہستہ آہستہ حرمین شریفین کے دروازے بھی کھول دیئے‘ عمرہ اور زیارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دوبارہ آغاز ہوا۔ مساجد ایک بار پھر نمازیوں سے آباد ہونے لگیں۔
یوں تو کرونا یا کووڈ19 کی شدت میں کمی آئی ہے مگر خطرات پوری طرح سے ٹلے نہیں ہیں۔ ویکسن مارکٹ میں آئی تو انگلینڈ سے نیا اسٹرین بھی امپورٹ ہوگیا۔ اللہ ہی رحم کرے۔
2020ء کی اپنی خصوصیت تھی۔ ایسا سال صدی میں ایک ہی بار آتاہے جیسے 1717، 1818 اور 1919 جس میں پہلے دو اور آخری دو ہندسے یکساں ہوتے ہیں۔ اب اگر کوئی ایک سو سال سے زائد تک زندہ رہے تو اُسے 2121 دیکھنے کا موقع ملے گا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ 1818ء میں بھی طاعون (پلیگ) پھیلا تھا جسے عثمانی طاعون کا نام دیا گیا تھا اگرچہ کہ اس کی شروعات 1812ء سے ہوئی تھی مگر 1818ء میں اس میں شدت پیدا ہوگئی۔ بالکل اُسی طرح جس میں لاکھوں افراد فوت ہوئے۔ 1919ء کا اسپینش فلو کا بھی ایسا ہی معاملہ تھا۔ جس کی شروعات تو 1918ء سے ہوئی مگر 1919ء میں لگ بھگ پانچ کروڑ افراد فوت ہوئے۔ 2020 ہر اعتبار سے ان کے لئے یادگار رہا جو کسی طرح سے زندہ رہ گئے۔ ساری دنیا کا کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ معیشت زمیں بوس ہوگئی۔ مگر ہیلتھ سیکٹر جس میں فارماسیٹیکل کمپنیاں اور ہاسپٹلس شامل ہیں‘ وہ کروڑپتی سے کھرب پتی بن گئے۔ رتن ٹاٹا نے کہا تھا کہ جو جو 2020ء میں زندہ بچ گیا وہ فائدہ میں ہے‘ کاروبار تو اگلے سال بھی کیا جاسکتا ہے۔2020ء امریکہ میں ایک سیاہ فام جارج فلایڈ کی امریکی پولیس کے ہاتھوں دردناک موت اور اس کے بعد تاریخ ساز احتجاج کے لئے یاد رکھا جائے گا۔ اس احتجاج کا اثر ٹرمپ کے سیاسی کیریئر ہوا اور امریکہ ہی نہیں ساری دنیا کو ٹرمپ کی نحوست سے نجات ملی۔ اس نے جاتے جاتے اسرائیل کو طاقتور بنادیا۔ متحدہ عرب امارات، بحرین، مراقش کو رضامند کرلیا وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ سعودی عرب نے بظاہر اسے تسلیم نہیں کیا مگر اس کا رویہ اور اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والے ممالک کے ساتھ اس کی سختی سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ مناسب وقت پر وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کرے گا۔ اسرائیل تو طاقتور ہوا مگر ذلیل ترین نیتن یاہو کی حکومت گرگئی۔
ہندوستانی علاقوں میں چین کی دراندازی اور کئی کیلو میٹر رقبہ پر قبضے کے لئے بھی یہ سال یاد رکھا جائے گا۔ بابری مسجد کی شہادت کے ذمہ داروں کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے نے مسلمانوں کے زخموں کو دوبارہ کریدا۔ رام مندر کے سنگ بنیاد کے لئے بھی اس سال کی تلخ یادیں ذہن سے محو نہیں ہوں گی۔ بین الاقوامی سطح پر تو کئی واقعات پیش آئے ہیں۔ پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات مزید کشیدہ ہوئے۔ مقبوضہ علاقوں پر عمل ردعمل کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پڑوسی ملک کے وزیر اعظم نے اپنے ملک کی معیشت کو بہتر بنایا مگر بعض اسلامی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات بگڑ گئے۔اس کے برعکس ہندوستان کے تعلقات اسلامی ممالک کے ساتھ بہتر ہوئے۔ترکی ایک نئی مسلم طاقت کے طور پر ابھرا۔ طیب اردغان مسلم دنیا کے نئے ہیرو بنے۔ ٹیلی سیریل ارطغرل کی مقبولیت نے ایک نیا تہلکہ مچایا۔ خلافت عثمانیہ کے احیاء کی خواہشات پھر سے انگڑائیاں لینے لگیں۔یہ اور بات ہے کہ 100برس پہلے جو طاقتیں خلافت اسلامیہ کے خاتمہ کی ذمہ دار تھیں‘ آج بھی وہی طاقتیں نسل درنسل مخالفت کررہی ہیں۔ 2023ء تک طیب اردغان صحیح سلامت رہ جاتے ہیں تو دنیا ایک نیا انقلاب دیکھ سکتی ہے ورنہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی ہر ممکنہ کوششیں کی جارہی ہیں۔
2020ء علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کیلئے بھی یاد رکھا جائے گا۔اگرچہ کہ اس تقریر نے کئی سوال اٹھائے کہ کس طرح سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو پڑوسی ملک سے جوڑا گیا۔ کس طرح سے اس کے کیمپس میں پولیس بربریت کی گئی۔ یہاں کے طلبہ کے ساتھ کس قدر اذیت رسانی کی گئی۔ اُسی یونیورسٹی کی خدمات اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اس کے مثبت رول کا اعتراف سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ بہار کے الیکشن میں کس طرح سے جمہوری اقدار کو پامال کیا گیا۔ کس طرح سے لالو پرساد کے بیٹے تیجسوی کو اقتدار سے دور رکھا گیا۔ اس شرمناک کاروائی کیلئے بھی یہ سال یاد رہ جائے گا۔
حیدرآباد کس طرح سے بارش اور سیلاب میں بہتا رہا۔ کس طرح سے بستیوں کی بستیاں ہفتوں تک جزیدہ بن گئیں۔ کیسے لوگ اپنے سے بچھڑے۔ وہ کیا 2020ء کو کبھی بھول سکتے ہیں؟ یہ تباہی کیا کم تھی کہ بلدیہ کے الیکشن میں فرقہ پرستی کے وائرس نے شہر کی حدود کو اپنی گرفت میں لے لیا جس کے اثرات اگلے تین چار سال بعد نمودار ہوں گے۔
2020ء نے کتنی عظیم ہستیوں کو نگل لیا۔ پونے دوسو سے زائد علماء و اکابرین، 30-35 شعراء، ادیب، نقاد، دانشور، صحافی، ماہرین تعلیم، صنعت کار و تجار ہمارے درمیان نہیں رہے۔ چاہے وہ مولانا سلمان مظاہری، مولانااحمد سعید پالنپوری، مولانا نصیرالدین، راحت اندوری، شمس الرحمن فاروقی، مجتبیٰ حسین، خان لطیف خان، کے ایم عارف الدین، حسن چشتی، رؤف خلش، خان اطہر ہو یا ڈیڑھ متوالے کے قہقہے بکھیرنے والے سبحانی۔ ان کی یاد کے ساتھ 2020۔ہمیشہ زندہ رہے گا۔
جہاں تک میرا اپنا تعلق ہے جس ہولناک آزمائشی دور سے گذراہوں نہیں لگتا کہ اس کی دہشت کبھی ذہن سے محو ہوگی۔ پانچ دن میں تین قریبی رشتہ داروں کی اچانک موت‘ خود میں اور سید خالد شہبازکو کووڈ پازیٹیو آنا، دو مہینے سے زیادہ عرصہ تک قید تنہائی، جب بھی اسے یاد کرتے ہیں تو کانپ بھی جاتے ہیں اور بارگاہ ایزدی میں شکر بھی بجالاتے ہیں۔
2020ء نے انسان کو اس کی بے بسی، محتاجی کا احساس دلایا۔ چاہے وہ غریب ہو یا کھرب پتی۔ سبھی نے اپنے چہروں کو چھپائے رکھا۔ یہ احساس دلایا کہ انسان کو اپنی زندگی اپنے خونی رشتوں سے زیادہ عزیز ہے۔ انسان کی خودغرضی کا بھی اندازہ ہوا۔ اچھے برے دوست دشمن کی پہچان ہوئی۔ اس عالمی وباء نے ہندوستانی مسلمانوں کو کم از کم شہریت ترمیمی قانون کے خوف سے وقتی طور پر ہی سہی راحت دلائی۔ انسان کامقدر اس کی پیدائش سے پہلے لکھ دیا جاتا ہے۔ اخلاق، کردار، نیک اعمال، اور دعائیں‘ تقدیر بدل دیتی ہیں۔ بحیثیت مسلمان یہ ہمارا ایمان ہے جو ہوا وہ مقدر تھا جو ہوگا وہ تقدیر میں لکھا ہے۔ حالات سے مایوسی کفر ہے۔ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اللہ سے دعا کرنی چاہئے کہ بچی کھچی زندگی اللہ تعالیٰ صراط مستقیم پر چلائے۔
Comments are closed.