شمس الرحمن فاروقی ایک ہمہ جہت شخصیت…. "”

 

حرف بہ حرف……………. ڈاکٹر تسنیمہ پروین….

اسسٹنٹ پروفیسر (گیسٹ فیکلٹی)
ڈورنڈا کالج، ڈورنڈا،رانچی

بچھڑا کچھ اس اداسے کہ رات ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کوویران کرگیا

۱۵؍جنوری ۱۹۳۵ء اتر پردیش کے ضلع پرتاپ گڑھ میںڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی صاحب جیسی ہمہ جہت شخصیت کی پیدائش ہوئی اور ۸۵سال کی عمر میں ۲۵؍دسمبر ۲۰۲۰ء کو ان کی وفات ہو گئی ۔ ان کا جانا اردو اد ب کی دنیا کا ایک عظیم سانحہ ہے۔ سال ۲۰۲۰ ء اردو ادب کے لیے ایک مشکلوں بھرا سال رہا ۔ اردو کی بڑی بڑی شخصیات ایک ایک کرکے چلے گے ۔ لیکن فاروقی صاحب کی موت ادبی دنیا کی ایک ایسی خلا ہے جن کو پُر کرنا تو دور ایک اڑواڑ بھی لگانی مشکل ہے بقول کیفی اعظمی۔
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
آج ادب کا کوئی ستون نہیں بلکہ پورا آسمان گرپڑا ہے ۔ شمس الرحمن فاروقی ۲۵؍دسمبر ۲۰۲۰ ء کو ۳۰:۱۱بجے الٰہ آباد کے ایک ہسپتال میں آخری سانس لی ۔ وہ اردو زبان و ادب کے مشہورو معروف مصنف، شاعر ، محقق، نقاد اور دانشور تھے ۔ ان کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ روایتی انداز میں ان کی ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا۔ انٹر میڈیٹ کے بعد گورکھپور سے بی۔ اے ۔ کیااور پھر انگریزی ادب میں ایم۔ اے ۔ کرنے کے لیے الٰہ آباد آگئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے ۔ ۱۹۵۸ء میں انھوں نے سول سروس کا امتحان پاس کرلی اور انڈین پوسٹل سروس میں بہ حیثیت آفیسر کام کرنے لگے ۔ اپنی ملازمت کے دوران وہ حکومت ہند کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے لیکن ان کی سب سے بڑی شناخت اردو ادب کے محقق اور نقاد کی حیثیت سے ہوتی ہے۔ انہوں نے اردو ادب کی گراں قدر خدمات انجام دی ۔ ان کی عظمت کی دلیل وہ کتابیں ہیں جنہیں لکھ کر انھوں نے اردو ادب کے خزانہ کو مالامال کیا۔ ان کی کتابوں میں شعرو شورانگیز ، اثبات و نفی ،اردو غزل کے اہم موڑ ، اردو کا ابتدائی زمانہ ادبی تہذیب و تاریخ کے پہلو، افسانے کی حمایت میں ، انداز گفتگو کیا ہے ، تعبیرکی شرح، تفہیم غالب، شعرغیر شعر اور نثر ، خورشید کا سامان سفر، صورت و معنی سخن ، غالب پر چار تحریر یں، گنج سوختہ، لغات روز مرہ ، ہمارے لیے منٹو صاحب، لفظ و معنی ، نئے نام ، نغمات حریت ، عروض آہنگ اور بیان، سوار اور دوسرے افسانے ناول کئی چاند تھے سرآسماں، شاعری ۔ آسمان محراب اور ان کا سب سے بڑا کارنامہ مشہور و معروف ادبی ماہنامہ شب وخون کی چالیس برس تک ادارت کی اس کے علاوہ انہیں اردو دنیا کے اہم ترین عروضیوں میں سے ایک گردانا جاتا ہے ۔ انھوں نے اردو اور انگریزی ادب کی کئی مشہور کتابوں کی تخلیق کی۔ میر تقی میر پر ان کی کتاب شعر شور انگیز جو چار جلدوں میں مشتمل ہے پرسنہ ۱۹۹۶ء میں سرسوتی سمّان ملاجو برصغیر کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ سمجھا جاتا ہے۔ انہیں متعدد اعزاز و اکرام سے نوازا جاتارہا ۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی نے انہیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے سرفراز کیا سنہ ۲۰۰۹ء میں پدم شری ایوارڈ سے نوازا گیا۔
فاروقی صاحب اپنے تنقیدی افکار و نظریات کے ذریعہ کئی دہائیوں کو متاثر کیا۔ انہوں نے الٰہ آباد سے شب و خون کا اجراء کیا جسے جدیدیت کا پیش رو قرار دیاگیا ۔ ادب میںجیسی وقت و حدانیت کا تصور ختم ہوتاجارہا تھا اس وقت فاروقی صاحب سے جدیدیت کی آواز کے موجد ہوئے ۔ جدیدیت جو کہ ادب میں و حدانیت کا قائل ہے۔ ادب کاکون ویسا میدان ہے جس میں شمس الرحمن فاروقی نے اپنے قلم کاجوہر نہ دکھایا ہو ، تنقید، شاعری، فکشن ، لغت نگاری، داستان، عروض، ترجمہ یعنی ادب کے ہر صنف میں انھوںنے طبع آزمائی کی ۔ انہوں نے شاعری کی پھر لغت نگاری اور پھر تحقیق کی طرف مائل ہوگئے اس کے بعد افسانے لکھنے کا شوق ہوا تو شب خون میں فرضی ناموں سے یکے بعد دیگرے کئی افسانے لکھے جنہیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ فکشن میںبھی وہ یہ طولارکھتے تھے جس کا اندازہ مثال ان کی مشہور و معروف ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں ہے‘‘ جن کی عنوان احمد مشتاق کے شعر سے ہوتاہے۔
کٹی چاند تھے سرآسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
اسلم فرخی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
’’کئی چاند تھے سرآسماں ، اکیسویں صدی ہی کی نہیں اردو فکشن کی بہترین کتاب ہے ۔ ‘‘
مشرف فاروقی کئی چاندہ تھے سرآسماں کے بارے فرماتے ہیں کہ
’’یہ ناول مجھے اندر سے بدل کرر کھ دیتا ہے اور ان چیزوں کے لیے دل میں ایک زبردست ہوک پیدا کردیتا ہے جنہیں ہم کھوچکے تھے اور جن کی بازیافت کی امید ہمیں نہ تھی۔ ‘‘
ناول کئی چاند سرآسماں کا جائزہ لیتے ہوئے انتظار حسین رقم طراز ہیں کہ ۔
’’مدتوں بعد اردو میں ایک ایسا ناول آیا ہے جس نے ہندو پاک کی ادبی دنیا میں ہلچل مچادی ہے ۔ کیا اس کا مقابلہ اس ہلچل سے کیاجائے جو امرائو جان ادا نے اپنے وقت میں پیدا کی تھی ؟ اور یہ ناول ایک ایسے شخص کے قلم سے ہے جسے اول اول ہم نقاد اور محقق کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے بطور ناول نگار خود کو منکشف کیا ہے اور محقق فاروقی یہاں پر ناول نگار فاروقی کو پوری پور ی کمک پہنچارہا ہے۔ ‘‘
کچھ سال پہلے شمس الرحمن فاروقی کے افسانوی مجموعہ سوار بھی شائع ہوکر دادو تحسین حاصل کرچکا ہے۔ انہوں نے ان افسانوں میں ٹھارویں صدی اور انیسویں صدی کی اردو ادبی تہذیب اورہندو مسلم تہذیب کو نہ صرف اجاگر کیا بلکہ ایک مثبت زاویہ نظر عطاکیا۔ ان کے تمام افسانوں کے بارے عام طور سے کہاگیا کہ نہ صرف اردو بلکہ سارے برصغیر میں اس طرح کے افسانوں کی مثال نہیں ملتی جن میںتاریخ، ادب ، سیاست ، تہذیب اور شاعرانہ کردار کو بیک وقت اور اس درجہ خوبی سے پیش کیاگیا۔
اردو زبان و ادب تہذیب و ثقافت اور جدید ادبی تنقید کو نئے زاویۂ نظر عطا کرنے والے کثیر الجہات شخصیت کی مثال ملنی مشکل ہے ان کی زندگی میں ہی ان پر پی ۔ ایچ ڈی کی گئی ۔ پاکستان سے ڈاکٹر صدر رشید نے ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ۔ ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی کے حوالے سے بہت ساری کتابیں منظر عام پر آئی جیسے جدید اردو تنقید کاتجزیاتی مطالعہ (شمس الرحمن فاروقی) کے خصوصی حوالے سے ، ڈاکٹر نشاط فاطمہ ، شمس الرحمن فاروقی کی تنقید نگاری ، محمد منصور عالم، شمس الرحمن فاروقی حیات نامہ نجم فضلی، شمس الرحمن فاروقی ’’شعر ‘‘غیر شعراور نثر کی روشنی میں محمد سالم، شمس الرحمن فاروقی محو گفتگو ، رحیل صدیقی، کئی چاند تھے سرآسماں، ایک تجزیاتی مطالعہ رشید اشرف اس کے علاوہ کئی ہندو پاک کے رسائل نے فاروقی اور شخصیت پر نمبر بھی جاری کیے۔
ایک خلا ہے جوپر نہیں ہوتا
جب کوئی درمیاں ہے اٹھتا ہے

Comments are closed.