شددھی تحریک اور جدید دور

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
شدھی تحریک (purity, cleanness ) ہندو بنانے اور ہندو مذہب میں داخل کرنے کی تحریک سے تعبیر ہے۔ اسے گھر واپسی تحریک بھی کہتے ہیں۔ دائرہ معارف کے مطابق "شدھی سے مراد کہ جن لوگوں کے باپ دادا مسلمان ہو گئے تھے انہیں دوبارہ شدھی یعنی پاک کر کے ہندو بنایا جائے۔” دراصل ہندوستان میں ہندوؤں کا یہ ماننا ہے کہ مسلمان کہیں باہر سے نہیں آئے تھے؛ بلکہ وہ سب ہندو تھے جنہیں بہلا پھسلا کر یا تلوار کی نوک پر ہندو بنا لیا گیا، یہ اس وقت کا دور تھا جب مسلمان اپنی قوت و طاقت اور ہمت وری میں برتر تھے، بالخصوص مغلیہ حکومت کے زمانے میں اسے دوآتشہ کیا گیا، یہی وہ فاسد خیال جس کی وجہ سے وہ شدھی تحریک کا مقصود چھوت چھات کی رسم کو ختم کرنے، غیر ہندوؤں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کو ویدک دھرم قبول کرنے کی دعوت دینا اور ہندوؤں میں خودی اور خود اعتمادی کی روح پھونکنا بتاتے ہیں، مگر سبھی جانتے ہیں یہ تاریخ سے روگردانی، جہالت اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کہ عظمت، اخلاقی اقدار اور ان کی تاریخی حیثیت و حقیقت دیکھتے ہوئے بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوؤں کا اسلام کی طرف دوچند ہوگیا تھا، بلکہ ہندومت کی طبقہ واریت اور ان کی غیر فطری رسوم سے تنگ آکر بہت سے مسیحیت کی طرف بھی مائل ہونا ایک عام رجحان بن گیا تھا، برہمنیت اسے اپنی توہین اور ہندو دھرم کیلئے خطرہ جان کر من ہی من کڑھتا تھا، وہ کسی آن راضی نہ تھے کہ ہندو سماج کا سیاہ چہرا عیاں ہوجائے، چنانچہ لوگوں میں اٹھتی فطرت کی آواز کو ختم کرنے کیلئے شدھی تحریک نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ پھر سوامی شردھانند نے ١٩٢٣ء میں بھارتیہ ہندو شدھی مہاسبھا ( Indian Hindu Purification Council )کی بنیاد ڈالی۔ یہ کوئی عام بات نہ تھی بلکہ ایک منصوبہ بند طریقے سے ہندواحیائیت کو جلابخشنے اور پھر سے ہندوازم کی طرف کھینچنے بلکہ اسلام اور مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرا نومسلم یا پھر آبائی مسلمانوں کو بھی ہندومت کی طرف لانا تھا، یہی ان کا بنیادی ایجنڈا اور مقصود تھا، جس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے، وہ ہر طرح کے پروپیگنڈہ کرنے پر بھی آمادہ تھے۔ وہ یہ سمجھتے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے موروثی مذہب سے بھٹکے ہوئے ہندو ہیں؛ لہٰذا ان کو کسی بھی قیمت پر اپنے موروثی مذہب کو قبول کروانا ہے۔ ١٩٢٨ء میں مذکورہ تحریک کے بانی شردھا نند نے کھلے طور پراسلام کے عقائد اور اس کی تعلیمات پر ہتک آمیز اوربے جا اعتراضات والزامات چسپاں کئے۔ اور اس کے علاوہ اسلام کے عالم گیر پیغام اور احکامات کو دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کا ایک بڑا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اسلام کو امن وامان کیلئے خطرہ بھی ٹھہرایا گیا۔
یہ تحریک متعصب ہندو سوامی دیانندا سرسوتی اور اس کے شاگرد سوامی شردانند کی جانب سے ١٩٢٠ء میں شروع کی گئی تھی۔ ہندوستان میں اس تحریک کے بانی سوامی شردھانند کو ایک ہیرو کی حیثیت دی جاتی ہے، اسے صرف متشدد ہندو ہی نہیں بلکہ سرکار بھی نمونہ کے طور پر تسلیم کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ انڈین گورنمنٹ نے ان کے ڈاک ٹکٹ بھی جاری کئے ہیں۔ اس تحریک نے پر تشدد کام کیا تھا، درپردہ حکومت اور اعلی احکام کی مدد و عنایت حاصل کر کے پورے سماج کا توازن متزلزل کردیا تھا، منصف مزاج اشخاص کیلئے تشویش کا باعث بن گئے تھے، چھ سال بعد تحریک نے فاخرانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کئی مسلمانوں کو ہندو بنا دیا گیا ہے۔ پھر ٢٣/دسمبر ١٩٢٦ء کا دن آن پہنچا جب عبدالرشید نامی ایک مسلمان نوجوان دہلی کے نیا بازار میں واقع سوامی شردھانند کے گھر میں داخل ہو کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا، چونکہ یہ تحریک اپنی بنیادی افکار کی بنا پر اتنی کھوکھلی اور غیر یقینی تھی کہ اس مرتے ہی اس تحریک نے دم توڑ دیا؛ لیکن جدید دور میں چونکہ وہی ہندوازم اور فاشزم پھر سے عروج پاچکا ہے اور اسلام مخالف فکر ان کی سیاسی و سماجی ضرورت بن چکی ہے؛ ایسے میں صد سالہ تحریک کو ہوا دی جارہی ہے، لو جہاد کو قانونی جامہ پہنا کر اصل میں یہی مدعا حاصل کرنا ہے، اترپردیش میں اس طر کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جہاں اگر لڑکا مسلمان اور لڑکی ہندو ہو تو انہیں ہراساں کیا جارہا ہے؛ بلکہ سخت ترین قانونی کارروائی کی جارہی ہے؛ مگر جب کوئی مسلمان ہندو بن جائے اور ہندو لڑکی سے شادی کرے تو اسے گھر واپسی کہہ کر پورا معاملہ رفع دفع کیا جارہا ہے، علی گڑھ میں ایک تازہ واقعہ پیش آیا تھا، جہاں ایک نوجوان نے نعوذباللہ اسلام سے روگردانی کی اور ہندو لڑکی کیلئے ہندومت کو تسلیم کر بیٹھا، اسے ہندو بنانے والے سادھو اور سیاست دان باقاعدہ کہہ رہے ہیں کہ اسے شدھ کیا گیا ہے، وہ کسی دوسرے دھرم. میں نہیں بلکہ اپنے گھر ہی لوٹا ہے، اس لئے ان پر قانونی دائرہ میں آنے کے باوجود کوئی گرفت نہیں ہے، وقت ہے کہ مسلمان ہوش میں آئیں، اس وقت قانون سازی کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے، ان کے مذہب و طرز زندگی کو مسخ کیا جائے، سنبھل جائے ورنہ وقت کی تلوار کب اپنا کام کر جائے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
Comments are closed.