مسلم قیادت کی غلطیاں….!

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
عجیب تو یہ ہے کہ "مسلم قیادت کی غلطیاں” اس موضوع پر کوئی بات تک کرنا نہیں چاہتا، حالانکہ صواب و خطأ سے صرف انبیاء علیہم السلام ہی مبرا ہیں، ان کے علاوہ اگر کوئی اپنے آپ کو معصوم سمجھتا ہے تو سخت گمراہی میں مبتلا ہے، اس کے باوجود اگر کسی نے مسلم قیادت کے سلسلہ میں کچھ کہہ دیا تو اکابر مخالف، اہل سنت سے خارج، فاسق و فاجر اور نہ جانے کیا کیا القابات اس کی پیشانی پر چسپاں کردیئے جاتے ہیں، بعض تو حدود سے بھی تجاوز کرجاتے ہیں، یہ ٹھیک وہی بات ہے کہ اگر کسی نے بی جے پی کو نہیں مانا تو اس نے ہندوستان سے غداری کی ہے، اگر کسی نے اس کی پالیسیوں کو ٹھکرایا تو اس نے ٹکڑے ٹکڑے گینگ بنانے اور ملک کو بانٹنے کی کوشش کی ہے، یہی تقدس اور اندھ بھکتی کا مزاج ہمارے لوگوں میں بھی پیدا ہوچکا ہے، وہ یہ سمجھتے ہی نہیں کہ تنقید برائے اصلاح اور تنقیص سے پرے، احتساب اور جائزہ کسی بھی قوم کیلئے آکسیجن کا درجہ رکھتے ہیں، اگر امت کے اعلی طبقہ یا کن ہی افراد کو شتر بے مہار چھوڑ دیا جائے؛ بالخصوص ان کے بڑوں کی کوئی باز پرس نہ ہو، جنہیں اللہ تعالی نے وسائل فراہم کیا ہے، مواقع دئے ہیں اور جو اپنے آباء و اجداد کی گدی پر براجمان ہیں، جو اگرچہ سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دیتے لیکن وخد سیاسی جماعتوں سے سانٹھ گانٹھ رکھتے ہیں، سرکاری مراعات پاتے ہیں، قوم کی جمع پونجی پر قبضہ ہے، اتنا کچھ ہونے کے باوجود اگر ان سے سوالات نہ کئے جائیں، ان کی غلطیاں اور چوک نہ بتائی جائے تو یقیناً پوری قوم اندھی بہری اور لنگڑی لولہی کہلائی جانے کے لائق ہے، ایسی قوم کا حق ہے کہ وہ تنزلی کی طرف دوڑی چلی جائے، یہ وہی لوگ ہیں جن میں قدامت پسندی اور عہدہ و منصب کی لالچ؛ نیز شہرت و دولت کی ہوس پیدا ہوجاتی ہے، جس کا علاج ناممکن ہوجاتا ہے، ہمارے ملک یا کہیں پوری دنیا میں عثمانی سلطنت کے زوال اور اس افسوسناک داستان کے بعد مسلمانوں نے حیران کن بدحواسی کا ثبوت دیا ہے، انہوں نے قرآن و حدیث کے نام پر جمود و تعطل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، قدامت ان کے اندر سرایت کر گئی، وہ زمانے کے تقاضوں اور ضرورتوں سے نظریں پھیرنے لگے اور اسلام کو ایک ایسا مرقع بنا دیا جس کی انتہا عبادات اور روح یا کہیے کہ دنیا کے بعد کی زندگی کے سوا کچھ نہیں رہ گیا، انہوں نے دنیا کو ملعون و مطعون اور لغو اس معنی میں قرار دے دیا؛ کہ اب یہاں کچھ بھی کرنا گناہ ہے، بس جیسے تیسے زندگی گزار لی جائے، سب سے زیادہ علمی میدان اور اس سے پیدا ہونے والی نسلوں کو نئی تحقیقات، ایجادات اور تقاضوں سے دور رکھا گیا، ایسے میں آج وہ دنیا کے اندر ٹھکرائے ہوئے سامان کی طرح ہوگئے ہیں اور دنیا ان کے سامنے تنگ ہوتی جارہی ہے۔
اس موقع پر ملک کے مایہ ناز صاحب فکرو قلم جناب پروفیسر محسن عثمانی ندوی حفظہ اللہ کے مضمون بعنوان” مسلم قیادت کی غلطیاں” کا آخری اقتباس ملاحظہ کیجیۓ، اور سمجھئے کہ ہم سے کہاں چوک ہوئی، یہ مضمون ماہ نامہ "صلاح کار” نئی دہلی کے شمارہ نمبر چار اپریل ٢٠١٨ میں شائع ہوچکا ہے، آپ رقمطراز ہیں: "آئندہ ہندوستان کے اسٹیج پر اسلام اپنا رول ادا کرسکے گا یا نہیں اس کا تعلق علماء دین کے صحیح کردار سے ہے، علماء دین اور علماء دیوبند کی قیادت کو نہ صرف یہ کہ اپنی غلطی کا احساس نہیں ہے؛ بلکہ وہ ابھی تک باہمی نفرت و تعصب، تنگ نظری اور متشدد ذہنیت کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اتحاد پارہ پارہ ہے، ١٨ کروڑمسلمانوں کی قیادت کے پاس عصری آگہی نہیں، غیر مسلموں سے خطاب کرنے والی زبان نہیں ہے اور پھر وہ آپس میں متحد بھی نہیں ہیں، وہ بڑے اخلاص کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ زمانہ کی گمراہیوں سے بچنے کےلئے ماضی کے بزرگوں کی تقلید صحیح راہ ہے اور جس طرح بزرگوں کے پاس عصری آگہی کم تھی یہی فقدان بصیرت موجودہ علماء میں بھی پایا جاتا ہے، انہیں نہیں معلوم کہ عصر حاضر میں مسلمانوں کے امپاور منٹ کا طریقہ کیا ہے، وہ بزرگوں کے بناۓ ہوۓ راستہ سے ذرہ برابر ہٹنے کے لیۓ تیار نہیں، ان کی بنائی ہوئی ہر لکیر کو پتھر کی لکیر سمجھتے ہیں اور اس طرح وہ لکیر کے فقیر کے بجاۓ لکیر کے امیر بن گئے ہیں، ہندوستان کے سب سے بڑے دارالعلوم کے ویب سائٹس پر جاکر نیۓ فتوے دیکھ لیجیۓآپ کو آج بھی اس طرح کے فتوے مل جائیں گے کہ غیر مقلدوں کاشمار فرقہ ضالہ میں ہے اور جماعت اسلامی سے وابستہ کسی شخص کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے، اور ان لوگوں سے شادی بیاہ کا رشتہ قائم نہیں کرنا چاہیۓ، ان علماء کے اندر تعصب بقول مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اس لیے پایا جاتا ہےکہ وہ دوسرے مسلک یا جماعت کی کتابیں پڑھتے ہی نہیں اگر وہ ان کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے تو علمی اختلاف تو کرتے لیکن ان کی خدمات کا اعتراف بھی کرتے اور معتدل رویہ اختیار کرتے، یہی ہندوستانی علماء ہیں جن کے اندر کشادہ دلی نہیں ہے،دینی تقاضوں کا فہم نہیں ہے، دور بینی نہیں ہے اور جنہیں مستقبل کے خطرات کا احساس نہیں ہے، جو منجمد بھی ہیں، متعصب بھی ہیں اور طرز کہن پر اڑے ہوۓ ہیں اور جن کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا:
نہ جانے کتنے سفینے ڈبوچکی اب تک
فقیہ و صوفی و ملا کی ناخوش اندیشی”
Comments are closed.