"” یکم جنوری اور جھارکھنڈ کا کھرساواں گاؤں "”

 

 

 

 

غور و فکر۔۔۔۔۔ محمد سلطان اختر۔

 

 

 

یکم جنوری 1948 جب آزاد ہندوستان کا ‘جلیاں والا باغ کا سانحہ ہوا

 

آزاد ہندوستان کا ‘جلیاں والا باغ(گولی کانڈ) فائرنگ’

اسٹیل سٹی جمشید پور سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ، قبائلی اکثریتی قصبہ کھرساواں ہے۔

 

ہندوستان کی آزادی کے تقریباً پانچ ماہ بعد ، جب یکم جنوری 1948 کو ملک آزادی کے ساتھ ساتھ نئے سال کا جشن منا رہا تھا ، کھرساواں ‘آزاد ہندوستان کے جلیان والا باغ سانحہ’ گواہ بن رہا تھا۔

 

اُسی دن ہفتہ واری بازار کا دن تھا اڑیسہ حکومت نے پورے علاقے کو پولیس کیمپ میں تبدیل کردیا تھا۔ کھرساواں ہاٹ میں اڈیشہ ملٹری پولیس تقریبا پچاس ہزار قبائلیوں کے ہجوم پر فائرنگ کر رہی تھی۔

 

بتایا جاتا ہے کہ یہ آزاد ہندوستان کی پہلی بڑی فائرنگ حادثہ مانا جاتا ہے۔ اس واقعے میں کتنے افراد کی ہلاکت ہوئی ہے اس پر مختلف دعوے ہیں اور ان دعوؤں میں بہت فرق ہے۔

 

سینئر صحافی اور پربھاٹ خبر جھارکھنڈ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر انوج کمار سنہا کی کتاب ‘جھارکھنڈ آندولن کے دستاویزات،شوشن ، شنگھرش اور شہادت’ میں اس فائرنگ(گولی کانڈ) سے متعلق ایک الگ باب ہے۔

 

اس باب میں وہ لکھتے ہیں ، "مارے گئے لوگوں کی تعداد کے بارے میں بہت کم دستاویزات دستیاب ہیں۔ سابق ممبر پارلیمنٹ اور مہاراجہ پی کے دیو کی کتاب ‘میموئیر آف اے بائگان ایرا’ کے مطابق اس واقعے میں دو ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔”

 

"دیو کی کتاب اور اس واقعے کے عینی شاہدین کے بیانات میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس وقت کے انگریزی اخبار ،””دی اسٹیٹس مین”” نے 3 جنوری کو اس واقعے کے تیسرے دن کلکتہ سے شائع ہونے والی اخبار میں خبر شائع کی تھی ، جس کا عنوان تھا – "”35 آدی واسی کیلڈ اِن

کھرسانوان””

 

"اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پولیس نے اڑیسہ میں کھرساوان کے انضمام کی مخالفت کرنے والے تیس ہزار قبائلیوں پر فائرنگ کردی۔ اس گولی فائرنگ کی تحقیقات کے لئے ٹریبونل کی تشکیل کیا گیا تھا ، لیکن اس کی رپورٹ کو کیا ہوا ، کسی کو پتہ نہیں.”

 

"”کنویں میں لاش بھر دی گئی””

 

اس واقعے کے وقت جھارکھنڈ تحریک کاری خاتون اور سابق ایم ایل اے بہادر اوراون کی عمر آٹھ سال کے قریب تھی۔ کھرساوان کے متصل علاقہ جھلیگڈا میں اُنکا ننیہال تھا سب سے پہلے اس نے بچپن میں کھرساوان فائرنگ کے بارے میں سنا تھا جب وہ اپنے بچپن میں ننيهال جانے کے دوران اس کی تاریخی تحریک میں روبرو ہو گئی۔۔۔

 

انہوں نے بی بی سی کو بتایا ، "فائرنگ بروز جمعرات اور منڈی (ہاٹ) کا دن تھا۔ سرائیکلا اور کھرساوان ریاست اڑیسہ کو ملانا چاہتا تھا اور یہاں کے بادشاہ اس کے لئے تیار تھے۔ لیکن علاقے کے قبائلی عوام نہ تو اڈیشہ میں ملنا چاہتے تھے اور نہ ہی بہار میں۔ ”

 

"ان کا مطالبہ الگ جھارکھنڈ ریاست کا تھا۔ جھگڑا اسی بات کو لیکر تھا۔ ایسی صورتحال میں پورے کولہن علاقے سے بوڑھے،بوڑھی، مرد ، بوڑھے ، بچے ، سبھی یکم جنوری کو ہاٹ بازار گئے اور راج پال سنگھ منڈا کی باتیں سننے اور دیکھنے گئے۔۔را ج پال سنگھ جھارکھنڈ کی علیحدہ ریاست کے نعرے لگارہے تھے۔راج پال سنگھ منڈا کے آنے سے پہلے ہی ایک بہت بڑا ہجوم جمع ہوگیا تھا اور پولیس نے ایک لکیر عبور کھینچ کر اُسے پار نہ کرنے کو کہا تھا۔

 

"نعرے بازی کے درمیاں لوگ سمجھ نہیں پائے اور اچانک گولی کی آواز آئی۔ ایک بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوگئے۔ شہید کی جگہ پر ایک بہت بڑا کنواں تھا۔ یہ کنواں وہاں کے بادشاہ رام چندر سنگھ دیو نے بنایا تھا۔ اس کنویں کو نہ صرف لاش بلکہ آدھے مردہ لوگوں سے بھر دی گئی تھی اور پھر اسے ڈھانک دیا گیا ”

 

کھڑساوان میں رہنے والے رجب علی نے بھی عبور لیکر کھینچنے کی تصدیق کی ہے ، گولی كانڈ فائرنگ کے وقت اُنکی عمر پندرہ سال تھی۔ فائرنگ کے تبادلے کے دن اُنہوں نے لوگوں کو اجتماع کے لئے جمع ہوتے دیکھا۔ میں نے رجب علی ، جو اب ایک سماجی کارکن کے طور پر جانے جاتے ہے ، کھرساوان چوک ملاقاتِ بھی ہوئی۔۔۔

 

فائرنگ کے دوران ، وہ قبرستان کے پیچھے کُچھ ہی دوری پر تھے،

 

انہوں نے یکم جنوری 1948 کا واقعہ اسی طرح یاد کیا ، "آج جہاں شہید کی جگہ ہے ، وہاں ایک پوسٹل بنگلہ تھا جو اب بھی موجود ہے۔ قریب ہی ایک بلاک آفس تھا۔ وہاں مشین گن گاڑ کر ایک لکیر کھینچی گئی تھی۔ اور لوگوں کو کہا گیا تھا کہ وہ لیکر عبور نہ پار کریں اور بادشاہ سے ملنے کی کوشش نہ کریں۔ سنا ہے کہ قبائلیوں نے پہلے تیر سے حملہ کیا اور پھر گولی چلائی ، ہم نے بھی گولی کی آواز بھی سنی۔ اور پھر آہستہ آہستہ لوگ گھر چلے گئے۔ ”

 

انہوں نے مزید کہا ، "واقعے کے بعد علاقے میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا تھا۔ شاید یہاں آزاد ہندوستان میں پہلا مارشل لا نافذ کیا گیا تھا۔ کچھ ہی دنوں بعد اڑیسہ حکومت نے دیہی علاقوں میں تقسیم کے لئے کپڑے بھیجے ، جسے قبائلیوں نے لینے سے انکار کردیا۔ لوگوں کے دل میں یہ تھا کہ اس حکومت نے ہم پر فائرنگ کردی ، تو ہم اس کا کپڑا کیوں لیں؟ ”

 

ریاست اڑیسہ میں انضمام کی مخالفت

 

اس فائرنگ کی سب سے بڑی وجہ ریاست اڑیسہ میں کھرساوان کے انضمام کی مخالفت ہوئی انوج سنہا کا کہنا تھا کہ ، "جھارکھنڈ (اس وقت بہار) میں رہنے والے ادیواسی کا گروہ بھی اس انضمام کے مخالف میں تھا۔ لیکن مرکز کے دباؤ پر کھرساوان کی سلطنت بھی انضمام کے معاہدے پر پہنچ گئی تھی۔

 

یہ معاہدہ یکم جنوری 1948 کو نافذ ہونا تھا۔ تب جیپال سنگھ منڈا ، جو قبائلیوں کے سب سے بڑے رہنماء "مارنگ گومکے” کے نام سے جانے جاتے تھے اور اولمپک ہاکی ٹیم کے سابق کپتان تھے اُنہوں نے قبائلیوں سے کھرساوان پہنچ کر انضمام کے خلاف احتجاج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس مطالبہ پر دور دراز علاقوں سے قریبی علاقوں تک کے ہزاروں قبائلیوں کا ہجوم اپنے روایتی ہتھیاروں کے ساتھ جمع ہوئے تھے ”

 

"”گیریدھاری رام گوجو”” رانچی یونیورسٹی قبائلی اور علاقائی زبان شعبہ کے سابق صدر رہ چکے ہیں۔ ان کے بقول قبائلیوں نے پرانے جھارکھنڈ تحریک کا مطالبے کو آگے بڑھانے کے لئے جمع ہوئے تھے۔

 

انہوں نے بی بی سی کو بتایا ، "قبائلیوں کی اپنی ریاست اور خود حکومت کرنے کا مطالبہ بہت پرانا ہے۔ 1911 کے بعد سے اس کے لئے براہ راست لڑائی لڑی گئی اس سے پہلے ، ‘دیسم ابوا راج’ کی برسا منڈا تحریک کے دوران ، یعنی ‘ہمارا ملک ، ہمارا راج’ تحریک چلا۔ اس سے پہلے ، 1855 کے آس پاس ، "”سدھو کانو”” ‘ہماری ماٹی "””، ہمارا سرکار’ کے نعرے کے ذریعے وہی باتیں کہی گئی تھی۔۔

 

"اس تحریک کو آگے بڑھاتے ہوئے آزادی کے بعد ، سرائیکلا-کھرساوان خطے کے قبائلیوں کا مطالبہ تھا کہ جھارکھنڈ کو الگ کیا جائے۔۔ اور ہمیں کسی بھی ریاست یعنی بہار یا اڑیسہ میں انضمام نہیں کیا جائے۔”

 

54 سالوں بعد گولی چلائی گئی

 

انوج کمار سنہا کی کتاب ‘””جھارکھنڈ آندولن کے دستاویزات”””: شوشن، سنگھرش اور شہادت'”” میں بھی اس فائرنگ میں زخمی ہوئے کچھ لوگوں کا ماضی ریکارڈ ہے۔

 

ایسے ہی ایک شخص دشھرتھ مانجھی کا تواریخ میں نام کچھ یوں ہے ، اُنکا کہنا ہے کہ "فائرنگ کے کے دن بہت بڑا ہجوم تھا۔ لوگ آگے بڑھ رہے تھے اور میں بھی آگے جارہا تھا ، اچانک اڑیسہ پولیس نے فائرنگ شروع کردی۔ میرے ساتھ سات افراد تھے میں نے خود دیکھا کہ فوجیوں نے مشین گنوں سے فائرنگ کی۔ ”

 

"مجھے بھی پولیس کی طرف سے گولی لگی۔ میں لاش کی طرح درخت کے نیچے پڑا اور لاشوں کو لے جانے والی پولیس کو دیکھتا رہا۔ بعد میں مجھے گھسیٹ کر کھرساوان پولیس تھانہ لایا گیا اور پھر جمشید پور اور کٹک علاج کے لئے بھیج دیا گیا۔ ”

 

کتاب میں واقعے میں زخمی ایک دیگر شخص ، سدھو چرن بیروا کا المیہ بھی ہے۔ انوج لکھتے ہیں ، "سادھو چرن کو متعدد گولیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ اس درد میں اُنہیں یہ احساس نہیں ہوا کہ گولی ان کے بازو میں لگی۔۔۔ 54 سال بعد اُنکے بانہہ میں درد ہوا گولی آہستہ سے باہر آگئی ، پھر وہ گولی کو نکالا گیا۔۔”

 

جھارکھنڈ کی سیاسی ‘زیارت’

 

اس واقعے کے بعد پورے ملک میں ایک ردعمل دیکھنے کو ملا۔ انہی دنوں میں بہار کے قائدین کا ملکی سیاست میں ایک اہم مقام تھا اور وہ بھی یہ انضمام نہیں چاہتے تھے۔ ایسی صورتحال میں اس واقعے کا اثر یہ ہوا کہ علاقے کا اڑیسہ میں انضمام روک دیا گیا۔

 

واقعے کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ مقام کھڑساوان شہید استھل کے نام سے جانا جانے لگا ، جو قبائلی معاشرے اور سیاست میں ایک بہت ہی جذباتی اور اہم مقام رکھتا ہے۔ کھرساوان ہاٹ کے ایک حصے میں آج شہید کی یادگار واقع ہے اور اب اسے ایک پارک میں بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔

 

اس سے قبل یہ پارک عام لوگوں کے لئے بھی کھلا تھا ، لیکن 2017 میں یہاں یوم شہدائے سے متعلق ایک پروگرام کے دوران جھارکھنڈ کے وزیر اعلی رگھوور داس کا احتجاج کیا گیا اور جوتے برسائے گئے۔ تب سے ، یہ پارک عام لوگوں کے لئے بند کر دیا گیا

 

ایک طرف جہاں یکم جنوری کو شہدا کے مقام پر قبائلی رسوم کی پوجا کی جاتی ہے ، وہیں دوسری طرف جھارکھنڈ کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں اور قبائلی تنظیمیں ہر سال یہاں پروگرام منعقد کرتی ہیں۔ اس بار بھی کھرسانواں چوک بہت سی پارٹیوں کے ہورڈنگز سے بھرا ہوا ہے۔

 

وجئے سنگھ بودرا ابھی بھی شہید مقام کے پجاری ہیں۔ اس کا کنبہ نسل در نسل سے یہاں پوجا پاٹ کرتے ہیں وجئے نے کہا ، "یکم جنوری کو شہدا کے نام پوجا کی جاتی ہے۔ لوگ خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ پھولوں کی مالا کے ساتھ چاول سے بنی رسی کو پیش کی جاتی ہے۔ شہید کے مقام پر تیل بھی چڑھایا جاتا ہے۔”

Comments are closed.