Baseerat Online News Portal

مکتوباتِ امین شریعت: ایک مطالعہ

تبصرہ نگار : وزیر احمد مصباحی [بانکا]
ریسرچ اسکالر: جامعہ اشرفیہ مبارک پور
اردو زبان و ادب میں مکتوب نگاری کا سلسلہ اسی طرح قدیم ہے جس قدر نثری ادب کی تاریخ پرانی ہے۔ مشہور زمانہ شاعر مرزا غالب دہلوی سے اگر پہلے کی تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت بھی مکتوب نگاری کا رواج قائم تھا، کثیر افراد مکتوب الیہ تک اپنے مافی الضمیر کی ترسیل میں خط و کتابت ہی کا سہارا لیا کرتے تھے۔ ہاں! یہ حقیقت مسلم ہے کہ جب آپ کا مخاطَب سامنے موجود ہوں تو اس وقت خط و کتابت کی بجائے زبان و بیان سے جو باتیں بھی گوش گزار کی جاتی ہیں، اس عمل میں مخاطب کا اشارہ و کنایہ اور اندازِ تخاطب بھی مخاطَب پر اثر انداز ہوتے ہیں اور باتیں کسی قدر مخاطَب کے دل سے جا لگتی ہیں۔ لیکن، جب علی الفور مخاطَب کی حاضری کے اسباب و وسائل کی عدمِ دستیابی کا مسئلہ درپیش ہو تو لوگ خط و کتابت سے بھی کام برآری کا طریقہ نکال لیتے ہیں اور میں اپنے محدود مطالعہ کی روشنی میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسی اسباب و ذرائع کی عدمِ فراہمی کے سبب آج سے تین/ چار صدیاں قبل لوگ اپنے زیادہ تر کام خط و کتابت ہی کے ذریعے انجام دیا کرتے تھے۔
مکتوب نگاری کے سلسلے میں مرزا غالب دہلوی کو بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ غالب کے قلم سے فنِ مکتوب نگاری میں جو تبدیلیاں آئیں وہ فن خط و کتابت کا ایک روشن باب ہے۔ اب سے پہلے لوگ خط و کتابت میں فارسی و عربی کے گاڑھے الفاظ بکثرت استعمال کیا کرتے تھے، اشارات و کنایات اور رنگ آمیزی کا دور تھا جس کی وجہ سے بسا اوقات مکتوب الیہ خط کے مفہوم و مراد سے ناآشنا رہ جاتا۔ مگر یہ غالب کا احسان ہے کہ وہ عربی و فارسی کے زبردست عالم ہونے کے باوجود اس گری پڑی زبان میں بالکل سادگی کے ساتھ اردو مکتوب نگاری کی بنا ڈالی۔ اس دور میں بھاری بھرکم القابات کے استعمال کا رواج اس قدر عام تھا کہ اکثر، نصف خط القابات ہی کے نذر ہو جایا کرتا ۔ مگر غالب دہلوی نے ان ساری چیزوں سے دامن بچاتے ہوئے صرف اور صرف مقصود و مدعا نگاری کی حسنِ روایت کو اس طرح آگے بڑھایا کہ اسے ” آدھی ملاقات” کے ڈگر پر لا کر کھڑا کر دیا، اور پھر جستہ جستہ دوسروں نے بھی اسی ڈھب میں خطوط نگاری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ غالب کے بعد سر سید احمد خان اور ان کے رفقا خصوصاً الطاف حسین حالی نے بھی نثری میدان میں بے جا لفاظی و طولانی سے دامن چھڑانے اور آسان و سادہ الفاظ میں مختصراً مدعا نگاری کی بھرپور تبلیغ کیں اور اس سے فن خط و کتابت کو بھی خوب پھیلنے و پھولنے کا موقع فراہم ہوا۔
وطنِ عزیز” بھارت” میں تاریخ صوفیا و اولیا کا مطالعہ کریں تو اس حقیقت کا سراغ لگے گا کہ وہ صوفیاے کرام جنھوں نے وطنِ عزیز کی سرزمین کو اپنے قدم میمنت لزوم سے ہم کنار فرمایا، ان میں سے اکثر نے اپنے عقائد و نظریات کی تبلیغ و اشاعت اور خلق خدا کو صراط مستقیم کی جانب راہ یاب بنانے میں مکتوب نگاری کے سہارے کلیدی کردار ادا کیا۔ ہاں! ایسے موقع پر یہ حقیقت بھی ہمارے دریچہ ذہین میں محفوظ رہنی چاہیے کہ ان بزرگوں کے محبین و معتقدین نے ان خطوط کی حفاظت و صیانت کرکے اگلی پیڑیوں تک منتقل کرنے کا کام بھی بڑی فراخ دلی کے ساتھ انجام دیا تا کہ افادہ و استفادہ کی راہیں مزید آسان ہوں سکیں۔ اس ضمن‌ میں مخدوم شیخ شرف الدین یحییٰ منیری رحمتہ اللہ علیہ کے ۲۰۰/ خطوط کا مجموعہ” مکتوباتِ صدی” اور ” مکتوباتِ دو صدی”، شیخ فاروق احمد سر ہندی المعروف مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ۵۲۶/ خطوط کی تین جلدیں” مکتوباتِ مجدد الف ثانی” اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے ۳۵۸/ خطوط پر مشتمل دو جلدیں بنام ” مکتوباتِ شاہ ولی اللہ” وغیرہ کافی اہم اور ایک ایسے انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں جنھیں پڑھنے کے بعد کافی حد تک ان کے عہدِ معاشرت کی تہذیب و تمدن اور سیاسی، سماجی و اقتصادی صورت حال کا درست اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے۔
اِدھر چند برس پہلے محترم ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی نے بھی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہٗ کے وہ ۱۱۰۳/ گراں قدر خطوط جو آپ نے ملک و بیرون ملک کے اصحابِ علم و دانش کے نام یا انھوں نے آپ کے نام تحریر فرمایا تھا، کافی چھان بین اور تلاش و جستجو کے بعد تین جلدوں میں بنام ” کلیاتِ مکاتیب رضا، خطوط مشاہیر بنام امام احمد رضا” اور ” خط جواب خط” شائع فرما کر جہاں اردو دنیا پر احسان عظیم کیا ہے وہیں آنے والی نسلوں کے لیے بھی اہم علمی سرمایہ جمع فرما دیا ہے۔ یقیناً علمی، ادبی اور مذہبی دنیا آپ کی احسان مند رہے گی۔
مکتوبات کی اسی بھیڑ میں خانوادۂ رضا سے تعلق رکھنے والی ماضی قریب کی ایک شش جہات شخصیت یعنی حضور امین شریعت حضرت علامہ مفتی محمد سبطین رضا خان علیہ الرحمہ [۱۹۲۷ء_۲۰۱۵ء] کے وہ قیمتی خطوط بھی اب {انشاءاللہ} علمی دنیا کے لیے رہ نما خطوط ثابت ہوں گے جنھیں سال ۲۰۱۹ء / میں آپ کے ہی ایک عقیدت کیش جناب محترم مولانا محمد اشرف رضا قادری سبطینی نے کافی تلاش و جستجو کے بعد یکجا فرما کر” مکتوباتِ امین شریعت” کی صورت میں جمع فرما دیا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں مولانا موصوف کے نوک قلم سے اس نوعیت کی کئی علمی و ادبی کام بخوبی انجام پا چکے ہیں۔ پوری محنت و لگن اور دلجمعی کے ساتھ کام کرنا آپ کا محبوب مشغلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا یہ خلوص زیر نظر مجموعہ” مکتوباتِ امین شریعت” کی سطر سطر سے ظاہر ہوتا ہے۔ آپ نے بڑی محنت سے امین شریعت علیہ الرحمہ کے خطوط جمع کرنے، انھیں صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے اور پھر تمام تر بوسیدہ خطوط کے وجود میں وضاحت کا رنگ بھر کر مرحلہ طباعت و اشاعت سے گزارنے میں خلوص و للہیت سے کام لیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
’’جس طرح صحرا کا پیاسا بیابان میں پانی کی تلاش میں چاروں طرف دوڑتا پھرتا ہے بالکل اسی طرح میں بھی انجان صحرا میں مکتوبات کی تلاش میں دوڑا پھرتا رہا کہ کہیں سے کچھ میسر ہو جائے اس درمیان میں نے اڑیسہ سے چھتیس گڑھ کے مختلف علاقوں، افراد تک پہنچ کر حضور امین شریعت کے مکتوبات کی تلاش جاری رکھی‘‘۔ [ص: ۵]
مکتوبات کا یہ زیرِ نظر مجموعہ اپنے اندر کئی ایسی خوبیاں رکھتا ہے، جو قاری کے لیے متاثر کن اور دیگر مصنفین و مولفین کے لیے سبق آموز ہیں۔ صوری و معنوی حسن سحر انگیز اور عمدہ ذوق کی تسکین کے لیے کسی بہترین سامان سے کم نہیں ہے۔ یعنی ترتیب و تدوین میں درون و بیرون کی آرائش و زیبائش خوب فنکارانہ مہارت سے انجام میں لایا گیا ہے۔ میدان تصنیف کی عام روش کے برخلاف زیر نظر کتاب تاثرات، تقریظات اور دعائیہ کلمات سے پاک و صاف ہے، یعنی بے جا طولانی کی بجائے بس مقصود و مدعا پر ہی اکتفا کیا گیا ہے۔ کتاب کی ضخامت ۱۲۸/ صفحات پر محیط ہے۔ ہاں! ص: ۷ تا ۳۴/ میں مکتوب نگاری کی اہمیت و افادیت، مکتوب نگاری کی علمی و ادبی تاریخ اور اصحابِ علم و دانش کے مستند اقوال کی روشنی میں مکتوب نگاری کا جائزہ لینے کے بعد حضور امین شریعت کی علمی و ادبی صلاحیت اور ان کی حیات کے مختلف گوشوں پر اچھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب قاری کتاب کی سطروں سے اپنی آنکھوں کا رشتہ ہموار کرے گا تو ان کی نگاہوں کے سامنے ضرور حضور امین شریعت علیہ الرحمہ کی زندگی کے وہ قیمتی شب و روز گھوم جائیں گے جن کے دامن‌ میں پناہ لے کر آپ قوم و ملت کی دکھتی رگوں پہ ہاتھ رکھنے کا طریقہ تلاش کیا کرتے تھے۔
اشاعتِ خطوط کے باب میں یہ طریقہ اپنایا گیا ہے کہ خط شروع ہونے سے پہلے مکتوب الیہ کا ایک مختصر؛ مگر جامع تعارف بھی پیش کر دیا گیا ہے تا کہ قارئین الجھنوں کا شکار ہونے کے بجائے خود مکتوب الیہ سے آشنائی حاصل کر لیں۔ مجموعہ میں شامل خطوط میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو اصحابِ فضل و کمال کے نام ہیں اور کچھ مریدین و متوسلین کے نام۔ خطوط، جہاں سادہ و سہل انداز میں تحریر کیے گیے ہیں وہیں وہ شستہ زبان و بیان اور تحریری پرکاری کا خوبصورت نمونہ معلوم پڑتے ہیں۔ خطوط مطالعہ کرتے وقت امین شریعت علیہ الرحمہ کی ذات ایک ایسے ہی صاحب فکر انسان کی صورت میں ابھر کر سامنے آتی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر خلق خدا کے مصائب و آلام کی دفع کے خاطر اپنی قربانی پیش کرنے کے لئے کمر بستہ رہتا ہو، اسے دوسروں کی ہر پریشانی و غم اپنا لگتا ہو اور اسے اپنے نہا خانہ دل‌میں چھپا لینا چاہتا ہو۔ مکتوباتِ امین شریعت سے متعلق مرتب موصوف کی یہ عبارت مجھے حق بجانب لگتی ہے کہ:
’’امین شریعت کے مکتوبات میں مسائل دنیا کا حل، دفع تکالیف کی تدبیریں، تربیت اولاد کی ذمہ داری، سربراہ خانہ کے احساس کی جھلک اور خود سے وابستہ افراد کی پریشانیوں کے حل تئیں فکر مندی کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں۔۔۔حضور امین شریعت کے مکتوبات میں سوزِ دل کے مناظر بھی دکھائی دیتے ہیں اور مسائلِ حیات اور غمِ روزگار سے تعرض کے نمونے بھی واضح نظر آتے ہیں۔ آپ جہاں اکابر کی بارگاہوں میں ادب و انکساری کی عملی‌ مثال پیش کرتے ہیں وہیں اصاغر کے حق میں سراپا دعا گو دکھائی پڑتے ہیں”۔ [ص: ۳۳]
واقعی حضور امین شریعت علیہ الرحمہ کی زندگی میں یہ ساری خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ آج چھتیس گڑھ اور اس کے گرد و نواح میں اسلام و سنیت کی جو بہاریں نظر آتی ہیں وہ سب آپ ہی کی جہدِ پیہم اور خلوص و للہیت کا ثمرہ ہیں۔ مرکز علم و فن اور اپنے آبائی شہر”بریلی” سے دور یہیں آپ نے اپنی زندگی کی ساری بہاریں خلق خدا کی خدمت میں کاٹ دیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے آپ نے طب کی پڑھائی بھی کی تھی، اس لیے جب کسی کے علیل ہونے کی خبر ملتی ان کے نام طلبِ خیرت کے لیے خط تحریر فرماتے اور اپنی طرف سے حکیمی نسخے بھی تجویز فرماتے، آپ نے جتنے بھی خطوط اپنے فرزند ارجمند علامہ سلمان رضا خان کے نام تحریر فرمائے ہیں اس میں ایک سرپرست اور والد کے احساس کی تابانی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اسی طرح آپ کا ہاتھ ضرورت مندوں کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا، خلق خدا کی پریشانی و غم آپ سے دیکھی نہیں جاتی۔ اس حوالے سے ص: ۴۱،۴۲/ پر علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کا ایک درد مند خط جسے آپ نے ۱۹۷۹ء/ کے جمشیدپور (جھارکھنڈ) فساد کے تناظر میں حضور امین شریعت علیہ الرحمہ کے نام تحریر فرمایا تھا، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
کتاب کے آخر میں متعدد علمی شخصیات مثلاً: حضور مفتی اعظم علامہ مصطفےٰ رضا خان علیہ الرحمہ، علامہ اختر رضا خان الازہری علیہ الرحمہ، علامہ تحسین رضا خان علیہ الرحمہ،رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ اور فقیہ اعظم مفتی عبد الرشید خان علیہ الرحمہ وغیرھم کے خطوط کی عکسی تصاویر ثبت ہیں اور ہر ایک خطوط خوش خطی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ یہ کتاب ہمارے اور آپ کے لیے رہ نما خطوط ثابت ہوگی، حضور امین شریعت اور ان کے معاصرین کے روابط کھل کر سامنے آئیں گے، ان کی متنوع شخصیت کے کئی باب وا ہوں گے، سبطینی فکر و نظر کا فیضان ہم پر جاری ہوگا، علمی و ادبی حلقوں میں اس مجموعہ کو سراہا جائے گا،مطالعہ کی زینت بنایا جائے گا اور ایک قیمتی سرمایہ سمجھ کر اس کی عمدہ حفاظت کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں میں بھی منتقل کیا جائے گا۔ ایسے موقع پر ہم مؤلف موصوف مولانا اشرف رضا قادری [چیف ایڈیٹر: سہ ماہی امین شریعت] کی جناب میں تشکر و امتنان کے گلدستے پیش کرتے ہیں کہ آپ کی انتھک کوششوں سے آج یہ خوبصورت گلدستہ منصۂ شہود پر آیا اور مکتوبات کی لڑی میں ایک اہم کڑی کا اضافہ ہو گیا۔ امید ہے کہ مستقبل میں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ آپ کے نوک قلم سے امین شریعت کا فیضان بٹتا رہے گا اور آپ یوں ہی علمی معرکے سر کرتے رہیں گے۔[انشاءاللہ]
ہم تو بس یہی دعا کرتے ہیں کہ تصنیف و تالیف کے میدان میں آپ کا یہ سیال قلم تا حیات بگٹٹ دوڑتا رہے، شہرت و مقبولیت کا آسمان چھوتا رہے اور ہم جیسے قارئین آپ کی بیش بہا تحریروں سے اپنے ذہن و فکر کی شادابی کے جوہر کشید کرتے رہیں۔ اللہ کریم آپ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔(آمین)
نوٹ:- خواہیش مند قارئین اس مجموعہ کو امین شریعت دار المطالعہ بلودا بازار، چھتیس گڑھ سے حاصل کر سکتے ہیں۔

Comments are closed.