آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ۔ بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد
مال پہنچنے سے پہلے اس کی فروخت
سوال:- ہم کسی سے اس شرط پر مال خریدتے ہیں کہ تین ماہ کے بعد قیمت ادا کریںگے ، اب مالک مال روانہ کردیتا ہے ، مال ابھی جہاز ہی پر ہوتاہے کہ اسی دوران ہم اس مال کو منافع پر دوسروں کو فروخت کردیتے ہیں ، کیا یہ صورت جائز ہے ؟ ( محمد مہتاب، ملی پلی)
جواب:- اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے تجارت سے متعلق شریعت کے دو بنیادی اصولوں کو سمجھنا ضروری ہے : ایک یہ کہ جب تک کسی چیز پر قبضہ حاصل نہ کرلیا جائے اس کو بیچنا درست نہیں ، دوسرے : اگر ایک شخص خود ایک چیز کو قبضہ میں نہ لے کسی دوسرے کو قبضہ کرنے کا ذمہ دار بنادے جس کو فقہ کی اصطلاح میں وکیل کہتے ہیں تو اس دوسرے شخص کا قبضہ کرلینا بھی کافی ہے ؛ لہٰذا آپ جس شخص یا کمپنی سے مال خرید کرتے ہیں تواس کو منگوانے کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ کا کوئی نمائندہ مال وصول کرکے آپ کو بھیج دے ، مال لانے والے کی اجرت آپ سے متعلق ہو اور بیچنے والے پر صحیح سالم مال پہنچنے کی ذمہ داری نہ ہو تو ایسی صورت میں گویا آپ وکیل کی معرفت اپنے مال پر قبضہ حاصل کرچکے ہیں ؛ لہٰذا اس مال کے ہندوستان پہنچنے سے پہلے آپ کے لئے اس کو فروخت کردینا اور نفع حاصل کرنا جائز ہوگا، اور اگردر میان میں مال کو کوئی نقصان پہونچاتو بیچنے والے پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی ، اور اگر مال کو آپ تک پہنچانا بیچنے والے کی ذمہ داری تھی ، اس نے اپنی پسند اور سہولت کے مطابق کسی ذریعہ سے آپ کو مال بھیجا ، درمیان میں مال کو کوئی نقصان پہونچ جائے تو وہ اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہے تو ایسی صورت میں ابھی نہ آپ نے خود مال پر قبضہ کیا ہے اور نہ آپ کے وکیل نے ؛ اس لئے مال کے وصول ہونے سے پہلے نہ اس کو بیچنا جائز ہوگا اور نہ اس پر حاصل ہونے والا نفع حلال ہوگا ۔
مردار مرغی کی فروخت
سوال:- مردار جانور کو فروخت کرنے کے تعلق سے شریعت کا کیا حکم ہے ؟ ایک مسلمان کی چکن سنٹر کی دوکان ہے ، جو مرغی مرجاتی ہے ، اسے وہ صاحب فروخت کردیتے ہیں ، کیا اس طرح حاصل کی ہوئی رقم جائز ہے ؟ اگر حرام ہے تو پھر اس رقم کا مصرف کیا ہو ؟ ( ذوالفقار علی، سنتوش نگر)
جواب :- مردار مرغی حرام ہے ، جیسے اس کا کھانا حرام ہے ، اسی طرح اس کا کھلانا بھی حرام ہے ؛ چوںکہ مردار مرغی کو بیچنے میں خریدار کو مردار کھلانے کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھ دھوکہ بھی پایا گیا ؛ اس لئے یہ دوہرا گناہ ہوا ، اسی لئے مردار کو بیچنا جائز نہیں اور فروخت کرہی دے تو اس کی آمدنی حلال نہیں : لم یجز بیع المیتۃ و الدم الخ (البحر الرائق : ۶/۱۱۵ ) جو آمدنی اس سے حاصل ہوچکی ہو ، اگر اس کے مالکان کو واپس کرنا ممکن ہو تو واپس کردے ، واپسی کے وقت اس کا اظہار ضروری نہیں ہے ، ہدیہ و تحفہ کے نام پر بھی رقم دی جاسکتی ہے ، اگر مالک کا پتہ نہ چل سکے تو بلانیت ثواب صدقہ کردے اور توبہ و استغفار کرے ۔
قارئ نکاح کا مقررہ اجرت سے زیادہ طلب کرنا
سوال:- کیا قاضی صاحبان (قاری النکاح ) کی طرف سے لڑکی والوں سے کچھ رقم حاصل کرنا اور لڑکے والوں سے اوقاف کی طرف سے مقرر کردہ فیس سے کچھ زیادہ لینا قاضیوں کے لئے حرام کمائی میں شمارہوگا ؟ (محمد طلحہٰ، مغل پورہ)
جواب:- نکاح پڑھانا ایک عمل ہے ، جو نکاح پڑھانے والے پر واجب نہیں ؛ اس لئے اس کی اجرت لینا جائز ہے ؛ لیکن چوںکہ مخصوص افراد کو اوقاف کی طرف سے نکاح پڑھانے کی اجازت دی گئی ہے اور ان کے لئے اجرت نکاح بھی متعین کردی گئی ہے اور نکاح خواں حضرات نے حکومت سے اسی اجرت پر نکاح پڑھانے کا وعدہ کیا ہے ؛ اس لئے ان کا مقررہ اجرت سے زیادہ رقم وصول کرنا جائز نہیں ، یہ ’:أکل بالباطل (النساء: ۲۹) — یعنی باطل طریقہ پر کھانے — میں شامل ہے ؛ اس لئے حرام ہے ، ہاں اگر عاقدین میں سے کوئی مطالبہ کے بغیر اپنی طرف سے کچھ رقم بڑھا کردے دیں تو یہ ہدیہ ہے اور اس کو قبول کرلینے میں مضائقہ نہیں ۔
وقت کے بعد مسافر مقیم کی اقتداء نہ کرے
سوال:- میں سفر پر گیا ہوا تھا ، میں اور وہاں مقیم میرے ایک دوست دونوں کی ظہر کی نماز قضا ہوگئی ، مغرب کے بعد ہم دونوں نے ظہر کی قضا کرلی ، انہوں نے امامت کی اور میں نے اقتداء ، نیز میں نے دو رکعت پر سلام پھیر دیا ؛ کیوںکہ میں مسافر تھا ، کیا اس طرح میرا نماز پڑھنا درست ہوا ؟ (سید حسنین، مہدی پٹنم)
جواب:- مسافر ، مقیم کی اقتداء میں نماز پڑھ سکتا ہے ، اگر وہ مقیم کی اقتداء کررہا ہو اورچار رکعت والی نماز ہو تو اس مسافر کو بھی چار رکعت نماز پڑھنی چاہئے ؛ البتہ یہ حکم اس وقت ہے ،جب کہ وقت کے اندر نماز پڑھی جائے ،ا گر نماز کا وقت گذر چکا توا ب مسافر کے لئے مقیم کی اقتداء کرنا درست نہیں ، اس کو تنہا نماز پڑھنی چاہئے اور دو رکعت پر اکتفا کرنا چاہئے : واقتداء المسافر بالمقیم فیصح في الوقت ویتم (ردالمحتار: ۳؍۶۱۲)
مسجد میں چھوٹے بچے
سوال:- بعض لوگ اپنے ساتھ چھوٹے بچوں کو مسجد میں لے کر آتے ہیں ، خاص کر جمعہ کے دن نماز کے دوران یہ بچے شور وغل کرکے نماز میں خلل ڈالتے ہیں اور یہ مصلیوں کے سامنے گھومتے پھرتے رہتے ہیں ، ایسے میں کیا لوگوں کی نماز درست ہوجاتی ہے اور ایسا کرنا کہاں تک درست ہے ؟ (محمد تبریز، ہمایوں نگر)
جواب:- رسول اللہ ا نے ایسے بچوں کو مسجد میں لانے سے منع فرمایا ہے ، جن میں ابھی شعور کی اس درجہ کمی ہو کہ وہ مسجد اور نماز کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتے ہوں : جنبوا مساجدکم الصبیان والمجانین (مصنف عبد الرزاق ، حدیث نمبر : ۱۷۲۷) ؛ اس لئے اتنے چھوٹے بچوں کو مسجدوں میں نہیں لانا چاہئے جو بچے نسبتاً بڑے اور سمجھ دار ہوں انہیں مسجد میں لانا درست ہے ؛ بلکہ تربیتی نقطۂ نظر سے بہتر ہے ؛ البتہ دو باتوں کا خیال رکھنا چاہئے ، ایک یہ کہ والدین انہیں مسجد اور نماز کا ادب واحترام سکھائیں ؛ تاکہ نمازیوں کو دشواری اور مسجدوں کی بے حرمتی نہ ہو ، دوسرے یہ کہ اگر کئی بچے ہوں تو ان کی صف بڑوں کے پیچھے رکھی جائے ، بڑوں کی صف کے بیچ میں نہ رکھی جائے ، جہاں تک بچوں کے نمازیوں کے سامنے گھومنے پھرنے کی بات ہے تو ان کو منع کرنا چاہئے ؛ لیکن اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ’’ ولو مرّ مارّ في موضع سجودہ لا تفسد ، وإن أثم‘‘ (فتاوی ہندیہ :۱؍۱۰۴، ) بلا وجہ نمازی کے سامنے سے گذرنے والا گنہگار ہوتا ہے ، بچوں کو یہ بات سمجھانی چاہئے ؛تاکہ ان کی تربیت ہو ؛ لیکن نابالغ چوںکہ احکام شریعت کے مکلف نہیںہیں ؛ اس لئے ان شاء اللہ وہ گنہگار نہیں ہوںگے ۔
دینی کتابوں کی طرف پائوں پھیلانا یا بے ستری کی حالت میں چہرہ یا پشت کرنا
سوال :- قرآن مجید اور دینی کتابوں کی طرف کیا پائوں پھیلا یا جا سکتا ہے ؟ کیونکہ کتابیں گھر میں ہوتی ہیں ، اسی گھر میں سونے کی نوبت آتی ہے ، اس طرح میاں بیوی کے درمیاں صنفی تعلق کا بھی موقع آتا ہے ؟ بعض حضرات کہتے ہیں کہ قرآ ن وحدیث میں اس سے منع نہیں کیا گیا ہے ؛ اس لئے اس میں کچھ حرج نہیں ، احترام کا تعلق تو دل سے ہے ۔ (ماجد علی، حمایت نگر)
جواب :- انسان کے لئے سب سے قابل احترام چیزدین ہے ، اسی نسبت سے دینی شعائر اور جو چیزیں دین کی نشرواشاعت کا ذریعہ بنتی ہوں ، وہ بھی شریعت کی نظر میں قابل احترام ہیں ؛ اسی لئے حدیث میں قبلہ کی طرف تھوکنے کو منع فرمایا گیا ہے ، احترام او ربے احترامی کا تعلق عرف وعادت اور لوگوں کے مروجہ رویہ سے بھی ہے ، مثلاً یہی پائوں پھیلانے کا مسئلہ ہے ، اگر کوئی چھوٹا اور سمجھ دار شخص کسی بزرگ کے سامنے بلا عذر اس کی طرف رخ کر کے پائوں پھیلائے تو اسے سماج میں بے احترامی سمجھا جاتا ہے اور اس سے ناگوار ی پیدا ہوتی ہے ؛ لہٰذا جو چیزیں قابل احترام ہوں ، جیسے :سمت قبلہ ، قرآن مجید، دینی کتابیں ، ان کی طرف بھی پائوں پھیلانا مکروہ ہوگا ، حدیث میں استنجاء کی حالت میں قبلہ کی طرف رخ کرنے اور پشت کرنے کی بہ تاکید ممانعت وارد ہوئی ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ بے ستری کی حالت میں قبلہ کی طرف رخ کرنا یا دینی کتابوں کی طرف اپنا چہرہ یا پشت رکھنا بے احترامی میں داخل ہے ؛ لہٰذا جیسے استنجاء کے وقت ان باتوں کی ممانعت ہے ، اسی طرح غسل کرنے اور میاں بیوی کے ہم آغوش ہونے کے وقت بھی اس کی کراہت ہو گی،فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے : ویکرہ مد الرجلین الی الکعبۃ في النوم وغیرہ عمدا ، وکذا إلی کتب الشریعۃ ، وکذلک فی حال مواقعۃ الاھل (ہندیہ: ۵؍۳۱۹)نیز علامہ شامی لکھتے ہیں : کما کرہ مدّ رجلیہ ۔۔۔۔۔ أو إلی مصحف أو شئ من الکتب الشرعیۃ إلا أن یکون علی موضع مرتفع عن المحاذاۃ (ردالمحتار:۲؍۴۲۷)
مسجد کی تعلیم میں بالغ لڑکیوں کی شرکت
سوال:- فی زمانہ شہروں اور دیہاتوں کی اکثر مساجد میں دینی تعلیم کا نظم ہوتا ہے ، جہاں چھوٹے بچے بچیوں کے ساتھ ساتھ چند بالغ یا قریب البلوغ لڑکیاں بھی حاضر ہوتی ہیں اور اساتذہ وائمہ دیگر بچوں کی طرح انہیں بھی سامنے بٹھاکر تعلیم دیتے ہیں ، کیا یہ عمل شرعا درست ہے ؟ (نثار احمد، کوہیر)
جواب:- ضرورت کے بقدر دینی تعلیم کا حاصل کرنا جس طرح مسلمان مردوں پر فرض ہے ، اسی طرح مسلمان خواتین کے لئے بھی ضروری ہے ؛ اس لئے کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ بالغ اور قریب البلوغ لڑکیوں کی تعلیم کا الگ انتظام کیا جائے ، وہاں پردہ کا نظم ہو اورخاتون استاذ دستیاب ہوتو وہ پڑھائے ؛ لیکن اگر اس کا نظم نہ ہو، چھوٹے بچوں کے ساتھ یا نابالغ بچیوں کے ساتھ بالغ لڑکیاں بھی بیٹھ جائیں اور بالغ لڑکیاں نقاب میں ہوں ، نیز مامون جگہ ہو ، تنہائی کی جگہ نہ ہو ، اور پاکی کی حالت میں ہو ں، تو چوںکہ اس صورت میں فتنہ کے مواقع کم ہوجاتے ہیں ؛ اس لئے اس طرح تعلیم دینے کی گنجائش ہے ۔
اولیاء کے نام کے ساتھ ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ کا استعمال
سوال :- علماء اولیاء اللہ کے نام کے ساتھ بھی ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ لکھتے ہیں ، کیا اس طرح لکھنا درست ہے ؟ ( شمیم اختر، مصری گنج)
جواب :- رضی اللہ عنہ ایک دعائیہ کلمہ ہے ، جس کے معنی ہیں : اللہ ان سے راضی ہو ‘‘ لغوی معنی کے اعتبار سے تو ظاہر ہے کہ کسی کو یہ دعاء دی جا سکتی ہے ؛ لیکن سلف صالحین کے عہد سے یہ معمول چلا آرہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘، انبیاء کرام کے لئے ’’علیہ السلام ‘‘ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘اور دوسرے بزرگوں کے لئے ’’ رحمۃ اللہ علیہ ‘‘ کہا اور لکھا جاتا ہے ،یہی مفسرین ومحدثین اور فقہاء وصوفیا کا معمول رہاہے ، گویا اس پر امت کا تعامل ہے اور اس تعامل کی وجہ سے یہ لفظ ان اہل اللہ کے مقام و مرتبہ اور حیثیت کی پہچان بن گئی ہے ، اگر یہ تعبیر دوسروں کے لئے اختیار کی جائے تو ان کی حیثیت کے جاننے میں التباس واقع ہو سکتا ہے ، نیز اس میں سلف صالحین کے تعامل کی مخالفت بھی ہوتی ہے او رمبالغہ کا بھی احساس ہوتا ہے ؛ اس لئے اس دعائیہ کلمہ کو حضرات صحابہؓ ہی کے لئے استعمال کرنا چاہئے ، گوبعض اہل علم نے دوسروں کے لئے بھی یہ کلمہ استعمال کیا ہے ؛ لیکن موجودہ دور کے عرف کے لحاظ سے قرین صواب یہی ہے کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ دوسروں کے لئے یہ تعبیر اختیار نہیں کی جائے ۔
بیوٹی پارلر جانا اور اس کی تر بیت حاصل کرنا
سوال :- آج کل بیوٹی پارلر کی دو کانیں کثرت سے قائم ہو گئی ہیں اور مسلمان عورتیں بھی یہاں جاتی ہیں ، بیوٹی کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے ، اسلام میں اس کی کس حد تک اجازت ہے ؟(زیبا ناز، بنجارہ ہلز)
جواب :- اسلام میں ایک حدتک تزئین وآرائش کی اجازت دی گئی ہے ؛ کیونکہ انسانی فطرت میں جذبہ آرائش رکھا گیا ہے ، خواہ یہ آرائش مکان کی ہو ، مسجد کی ہو ،یا خود اپنی ہو ، انسان کو اپنی ذات کے سلسلہ میں آرائش اور تجمل کی جو اجازت دی گئی ہے ، اس میں بھی مردوعورت کے درمیان فرق کیاگیا ہے اور عورتوں کے لئے بمقابلہ مردوں کے زیادہ گنجائش رکھی گئی ہے ؛ کیونکہ ایک تو عورت کی فطرت میں تزئین اور آراستگی کا ذوق زیادہ ہے ، دوسرے مرد کو بھی اپنی بیوی کا آراستہ ہونا مطلوب ہے ؛ لیکن شریعت نے اس کے لئے کچھ حدیں مقرر کی ہیں ، من جملہ ان کے یہ ہے کہ تزئینی اشیاء نجس نہ ہوں ، نا پاکی سے جسم کو آلودہ کرنا گناہ ہے،ایسی اشیاء استعمال نہ کی جائیں جو غسل اور وضو میں رکاوٹ بنتی ہوں ، بھنوؤں کے بال مصنوعی طور پر باریک نہ کیے جائیں ، بال کے ساتھ دوسرے انسانی بال نہ لگائے جائیں،سر کے بال چھوٹے نہ کر دیے جائیں کہ اس میں مردوں سے مما ثلت ہے، اور عورتوں کو اپنی وضع قطع میں مردوں کی مماثلت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے ، یہ بھی ضروری ہے کہ غیر محرم کے سامنے بے ستری نہ ہو، اگر ان امور کی رعایت کے ساتھ کوئی خاتون بیوٹی پارلر جائے ،جس میں خواتین تزئین کا کام کرتی ہوں ، تو اس کی گنجائش ہے ؛ لیکن بہتر یہی ہے کہ ایسی چیزوں سے بچا جائے اورشریعت نے بنائو سنگار کی جو اجازت دی ہے ، اس کے مطابق اپنے گھر میں زیبائش وآرائش کی جائے ؛ کیونکہ ایسے مقامات پر جانا بعض اوقات فتنے کا باعث ہوتا ہے اورشریعت کی حدیں ٹوٹ جاتی ہیں ، جہاں تک اس کے سیکھنے کی بات ہے ،تو شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ اس کی بھی گنجائش ہے ؛بلکہ آج کل یہ رجحان جتنا بڑھتا جا رہا ہے ، اس کے تحت خیال ہوتاہے کہ جس معاشرہ میں یہ ذوق بڑھ گیا ہو، وہاں گھر کی کسی خاتون کا اس کی آگہی حاصل کر لینا بہتر ہے ؛ تاکہ وہ خود اور دوسری خواتین خانہ ایسے مراکز میں نہ جائیں اور درون خانہ ہی شرعی حدود میں زیب وزینت اختیار کریں ، وبا للہ التوفیق ۔
ہوائی جہاز کا کھانا اور مشروبات
سوال:- ہوائی جہاز میں گوشت اور مشروبات کے بارے میں یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ یہ حلال ہیں یا حرام ، ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے ؟( عبد البصیر ، ملک پیٹ)
جواب:- مشروبات کے بارے میں حلال و حرام کا معلوم کرنا تو چنداں دشوار نہیں ؛ لیکن گوشت کے بارے میں ایسی دشواری ہوسکتی ہے ، ایسے مواقع پر اصول یہ ہے کہ اگر کوئی معتبر خبر دینے والا شخص موجود نہ ہو تو قرینہ سے فیصلہ کیا جائے اور قرینہ یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان ملک سے جہا ز کی اڑان ہو ،تو غالب گمان یہ ہے کہ وہ گوشت ذبیحہ کا ہوگا، اور غیر مسلم ملک سے جہاز چلا ہو تو غالب گمان اس کے حرام ہونے کا ہے؛ لہذا اس کی روشنی میں فیصلہ کیا جاسکتا ہے؛ لیکن احتیاط بہرحال یہی ہے کہ جہاز اور ٹرین میں ویجیٹیرین (Vegiterian) کھانے کا اہتمام کریں اور نان ویجیٹیرین (Non Vegiterian) سے اجتناب کریں ، راقم الحروف کا بھی یہی معمول ہے ۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.