عام انسانوں کو چند لوگوں کا غلام بنانے اور اخروی تباہی والے کام "بت پرستی” میں چندہ دینا

۔
*?دارالافتاءشہرمہدپو
*سوال:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کوئی مسلم شخص اگر ہندوؤں کے دیوی دیوتا کے پاس کھڑا ہوکر ان کے کام کودیکھتا ہے اورخوش ہوتا ہے یا ناچتا ہے یا ان کے ناچنے والے کو روپیہ پیسہ دیتا ہے ایسے شخص کو کیا کہیں گے ؟؟؟
اس سوال کا جواب دو حضرات دیں اوردیگر حضرات زحمت نہ کریں؛ میری مراد مفتی محمد اشرف صاحب اور مفتی عرفان عالم صاحب ہیں۔
المستفتی:
(مولانا) محمد اسلام قاسمی۔ بھوپال۔
*الجواب حامدا ومصلیا و مسلما امابعد*
اینٹ وپتھر اوردیگر اشیاءو دھاتوں سے بنائے جانے والے بت انسانوں کے ذریعے پکارے جانے والے ناموں سے زیادہ کچھ وقعت نہیں رکھتے ہیں۔ (1)
عام انسانوں کو چند افراد کاغلام بنانے کے لیے بہت سے ذرائع اور وسائل ہیں؛لیکن ان وسائل وذرائع میں سب سے قوی ذریعہ بت ہیں۔ بتوں کے ساتھ عام لوگوں کی عقیدت قائم کرکے آسانی کے ساتھ ان کو چند افراد کا غلام بنا لیا جاتا ہے۔ اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے قانون کو توڑنا اور ثبوت وشواہد کے باوجود دن کے اجالے میں انصاف و نیائے کو شرمندہ و رسوا کرنا بتوں کے نام پر بہت آسان ہوجاتا ہے۔ حقداروں کو ان کے حقوق سے محروم کردینا اور ظالموں کو بے لگام کردینا بت پرستی کا ادنی کرشمہ ہے۔ اسی لیے کچھ افراد عام انسانوں کو بت پرستی کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ (2)
بت پرستی کی وجہ سے اس دنیا میں عام لوگ چند افراد کے غلام بن کر اپنے دماغ سے سوچنے کی صلاحیت سے محروم تو ہوتے ہی ہیں۔ ساتھ ہی ایک اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو معبود بنا کر یا کئی ایک خدا مان کر اتنے بڑےجرم اور اپرادھ کے مرتکب ہوتے ہیں کہ آخرت میں ان کی کسی صورت میں بھی مغفرت نہیں ہوگی۔ دوتین خدا ماننے والا ہمیشہ ہمیش کے لیے دوزخ کی آگ میں جلے گا۔ (3)
ایک مسلمان ہونے کی بناپر ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ پکے یقین اور درڑھ وشواس کے مطابق اپنے ملنے جُلنے والے ہر شخص کو دوزخ سے بچاکرجنت میں داخل کرنے کی کوشش کریں۔ (4)
اورکسی ایسے کام میں کسی کا تعاون نہ کریں جس سے وہ شخص جنت سے محروم ہوکر دوزخ کا حق دار بنے۔ (5)
عام انسانوں کو چند انسانوں کی غلامی اور دوزخ کے دائمی عذاب سے بچانے کے لیےمشرکانہ اعمال ومناسک میں مبارکبادی دینے یا کسی بھی قسم کی شمولیت سے اجتناب کرنا فرض اور واجب کے درجے میں ضروری ہے۔ (6)
مسلمان ہوکر مشرکانہ کاموں پر اظہارِ خوشی کرنا کفر ونفاق ہے۔ جس پر سخت وعید آئی ہے۔ (7)
مشرکانہ تہواروں کے موقع پردیگر مواقع کی طرح بلکہ کچھ زیادہ ہی اہتمام کے ساتھ کفریہ اور مشرکانہ عقائد کے حامل افراد کو اخلاق ومحبت اور نرمی و شائستگی کے ساتھ
ایک اللہ کی عبادت وبندگی کی تعلیم اور ان تک پیغامِ توحید و رسالت کو پہونچا کرانہیں دوزخ اور نرک سے بچانے کی کوشش کی جائے۔
نہ کہ ان کے مشرکانہ عقیدے وعمل میں مبارک باد پیش کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔انہیں دین حق کی بات سمجھانے کے بجائے اگر ہم ان کے خلافِ توحید رسوم و مناسک پر انہیں تہنیت وتبریک پیش کریں یا انہیں چندہ دیں،ان کے مشرکانہ اعمال میں کسی طرح شریک ہوں، تو یہی نہیں کہ وہ حوصلہ پاکر مشرکانہ عقیدے میں جری ہوجائیں گے؛ بلکہ توحید ورسالت پر ہمارابھی ایمان کمزور ہوجائے گا۔اس لیے ایسے موقعوں پر مبارک بادی دینے کو کفر کہا گیاہے۔ اس موقع پر اگر کوئی مسلمان قلبی خوشی کا اظہار کرتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ قلبی حالات کو اللہ تعالی بہتر جانتا ہے یا پھر وہی شخص سمجھ سکتا ہے۔ لیکن ظاہری اعتبار سے اسے توبہ کرکے دوبارہ کلمہ پڑھنا چاہیے اور اگر وہ شادی شدہ ہے تو اس کو اپنے نکاح کی بھی تجدید کرنی ضروری ہے۔ کیوں کہ مشرکانہ اعمال ومناسک پر مبارک دینے سے ہی مسلمان دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ (8)
ایسے موقع پر مٹھائی وغیرہ کے تحفوں کے بارے میں بھی حکم یہ ہے کہ جن سے ہمارے تعلقات ہیں ان سے ان دنوں میں تحفے تحائف لینے و دینے کے بجائے آگے پیچھے دنوں میں لیا اور دیا جائے تاکہ ان خاص ایام کی مشرکانہ تقریبات میں کسی قسم کی ذہنی شرکت سے محفوظ رہاجاسکے۔ کیوں کہ ایسے موقعوں پرہدیہ دینے لینے سے مشرکانہ فکر و خیال کی تائید کاسخت گناہ ہوتاہے۔(9)عام حالات میں غیر مسلموں کوتحفہ تحائف دینا اوران کے تحفوں کو لینا جائز ہے۔ (10)
اگر کہیں ہم دعوتی کام نہ کرسکیں اور مجبوری کی وجہ سے مشرکانہ تہواروں کے سلسلے میں اپنے ملنے والوں سے کچھ خوش کن کلمات کہنے کی حاجت پیش آجائے تو ان کی ہدایت کے لیے کوئی دعائیہ جملہ بولاجائے۔ (11)
(1) إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَىٰ(سورۃ: النجم: 53)
(2) وَقَالُوا لا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُوَاعًا وَلا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا (23) وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا وَلا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلا ضَلالا (سورۃ نوح:24)
(3)اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿سورۃ لقمان:13﴾
اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّـٰهِ فَقَدِ افْـتَـرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا (سورۃ النساء:48)
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِنَا سَوۡفَ نُصۡلِیۡہِمۡ نَارًا ؕ کُلَّمَا نَضِجَتۡ جُلُوۡدُہُمۡ بَدَّلۡنٰہُمۡ جُلُوۡدًا غَیۡرَہَا لِیَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ ؕ اِنَّ اللہ کَانَ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا (سورۃ النساء:56)
(4) كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللہ. (سورۃ آل عمران:110)
(5) وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(سورۃ المائدہ:2)
(6) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: خالفوالمشرکین۔ (مشکوۃ،باب الترجل،برقم الحدیث :380)
(7) وَعَدَاللّٰهُ الۡمُنٰفِقِيۡنَ وَالۡمُنٰفِقٰتِ وَالۡـكُفَّارَنَارَجَهَـنَّمَ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا ؕ هِىَ حَسۡبُهُمۡ ۚ وَلَـعَنَهُمُ اللّٰهُ ۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ مُّقِيۡمٌ ۞- (سورۃ التوبة: آیت نمبر 68)
(8)اجتمع المجوس یوم النیروز، فقال مسلم:خوب سیرت منھاند،یکفر۔(الفتاویٰ البزازیۃ: ج6؍ ص33 )
(9)والاعطابسام النیروز والمھرجان لایجوز، ای الھدایا باسم ھذین الیوم حرام،۔۔۔ ولو اھدی لمسلم ولم یرد تعظیم الیوم، بل جری علی عادۃ الناس، لایکفر، وینبغی ان یفعلہ قبلہ او بعدہ للشبھۃ (الدر المختار: ج 10ص؍ 485 وص486۔ زکریا)
(10)واماالھدیۃ للمشرکین وقبول ھدایاھم کل ذالک جائز (اعلاء السنن: ج16؍ص 146،بیروت)
(11) عن قتادہ قال: التسلیم علی اھل الکتاب اذادخلت علیھم بیوتھم ان تقول؛ السلام علی من اتبع الھدیٰ (شعب الایمان للبیھقی، فصل فی رد السلام علی اھل الذمۃ: ج6؍ص462۔ رقم الحدیث: 8904و،8907)
واماالتسلیم علی اھل الذمۃ فقد اختلفوا فیہ، قال بعضھم:لابأس بان یسلم علیھم، وقال بعضھم لا یسلم علیھم، وھذا اذالم یکن للمسلم حاجۃ الی الذمی، واذا کان لہ حاجۃ فلابأس بالتسلیم علیہ،۔۔و لابأس برد السلام علی اھل الذمۃ ولایزداد علی قولہ "وعلیکم”
(الفتاوی الھندیۃ: ج5؍ ص325۔ کتاب الکراھۃ)
فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: (مفتی) محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء شہر مہدپور، ضلع اجین (ایم پی)
[email protected]
۱۲؍ربیع الاول ۱۴۴۲ھ
30؍ اکتوبر 2020ء
(1) تصدیق:
مفتی محمد عرفان عالم قاسمی بھوپال
(2) تصدیق:
مفتی محمد سلمان ناگوری
مہدپور، اجین
ناقل:(مفتی)محمد توصیف صدیقی
معین مفتی: دارالافتاء شہر مہدپور
Comments are closed.