آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ۔ بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

رشتہ دار کے پاس اپنی لڑکی رکھنا
سوال:- میری لڑکی کی عمر ۱۱؍ سال ہے ، میرے ایک دور کے رشتہ دار ملازمت کے سلسلہ میں کنیڈا میں رہائش پذیر ہیں، میں اپنی لڑکی کو بطور نگہداشت کے ان کے گھر میں شادی ہونے تک رکھنا چاہتاہوں ، یہ لوگ پابند صوم و صلاۃ اور مذہبی ذہن کے ہیں، کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ (عبدالوہاب، کریم نگر )
جواب:- ۱۱؍ سال کی لڑکی قریب البلوغ ہوجاتی ہے ، گھر سے اتنی دور غیر محرموں کے درمیان رہنا فتنہ سے خالی نہیں ہے ؛ اسی لیے تو شریعت نے ماں باپ کی علاحدگی کی صورت میں ماں کو حق پرورش دیا ہے کہ وہ زیادہ بہتر طور پر اس کی عفت و عصمت کی حفاظت کرسکتی ہے ؛ اس لیے اپنی بچی کو دور کے رشتہ دارکے پاس اور اپنے مقام سے اتنی دوری پر رکھنا درست نہیں۔

وسوسہ کی بیماری
سوال:- مجھے شدید وساوس آتے ہیں،عجیب وغریب وسوسوں میں گھبرا جاتاہوں ، بعض دفعہ خود کشی کرنے کو جی چاہتاہے اور کئی بار تو ایمان خطرہ میں نظر آتا ہے، ایسے شیطانی وسوسے آتے ہیں ، جن کو میں کسی کے سامنے بیان نہیں کرسکتا۔(امجد علی، شاہ علی بنڈہ )
جواب:- وسوسہ سے بچنے کے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ آپ اپنی قوت ارادی کومضبوط کریں اور پوری قوت سے وسوسہ دور کرنے اور اپنے ذہن کو کسی اور طرف متوجہ کرنے کی کوشش کریں ، رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا یہ علاج بتایا ہے کہ جب ایسی نوبت آجائے تو :أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم پڑھاجائے( بخاری ، حدیث نمبر : ۳۲۷۶ )اگر کوئی کفریہ خیال ذہن میں آئے تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ‘‘( میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ) کہے( مسلم ، حدیث نمبر : ۱۳۴ ) اس کے علاوہ پیشاب کی چھینٹوں سے بھی بچنا چاہئے، حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشاب میں بے احتیاطی کی وجہ سے وسوسہ پیدا ہوتا ہے۔ (ترمذی ، حدیث نمبر : ۲۱ )

توبہ میں رخسار تھپتھپانا
سوال:- اکثر لوگ توبہ کے لئے چہرے پر تھپڑ مارتے ہیں، کیا یہ طریقہ درست ہے ؟ اور توبہ کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟ (کلیم الدین، ملے پلی )
جواب:- توبہ کے معنی لوٹنے کے ہیں، یعنی اللہ کا ایک بندہ گناہ کا ارتکاب کرکے گویا اللہ تعالی سے دور ہوجاتا ہے، اور پھر وہ اپنے گناہوں سے شرمسار ہوکر اپنے مالک کی طرف لوٹ آتا ہے ، توبہ کے لئے ضروری ہے کہ گناہ پر ندامت ہو، گناہ سے بچنے کا پختہ ارادہ ہو، اور اگر شریعت نے اس گناہ کے لئے کوئی کفارہ متعین کیا ہو ،تو کفارہ اداکیاجائے ،توبہ میں رخسار تھپتھپانے کی کوئی اصل نہیں ہے، یہ محض ایک رسم ہے، جس سے بچنا چاہئے ؛ کیونکہ طریقہ وہی معتبر ہے جو کتاب و سنت سے ثابت ہو ۔

لڑکیوں کو حافظہ بنانا
سوال:-کیا لڑکیوں کو حافظہ بنانا درست ہے؟ اور اس میں کوئی فائدہ ہے ؟ ( شگفتہ یاسمین، سعیدآباد)
جواب:- حفظ قرآن مجید پر جو اجر وثواب منقول ہے وہ لڑکوں کے لیے بھی ہے اور لڑکیوں کے لئے بھی ، پھر حفظ کے بعد قرآن کی تعلیم لڑکے بھی دے سکتے ہیں اور لڑکیاں بھی ؛اس لئے لڑکیوں کو حافظہ بنانا فائدہ سے خالی نہیں، بعض صحابیات رسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حافظہ تھیں، (تفصیل کے لیے دیکھئے : تذکرۂ صحابیات ، از طالب ہاشمی ) البتہ چونکہ عورتیں فطری عوارض کی وجہ سے قرآن کی تلاوت کا اہتمام نہیں کر پاتیں؛ اس لئے اس کا اندازہ کرلینا چاہئے کہ کیا یہ لڑکی قرآن کو محفوظ رکھ سکے گی ؟ کیونکہ قرآن یاد کرنے کے بعد کوتاہی کی وجہ سے اسے بھلا دینا بہت ہی گناہ ہے ۔

مہندی لگانے کے بعد غسل
سوال:- کیا عورتیں ناپاکی کی حالت میں ہاتھوں اور پیروں میں مہندی لگا سکتی ہیں؟ناپاکی کی حالت میں مہندی لگا کر غسل کرنے سے غسل ہوتا ہے یا نہیں ؟(ترنم صدف، بنجارہ ہلز )
جواب:- عورتوں کے لئے مہندی لگانا جائز ہی نہیں؛ بلکہ بہتر ہے، اور مہندی لگا نے کے لئے پاکی اور ناپاکی کی کوئی شرط نہیں ، مہندی چونکہ پانی کے جسم تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں بنتی؛ اس لئے ناپاکی کی حالت میں مہندی لگا ئی اور بعد میں غسل کیا تو کچھ حرج نہیں ، غسل درست ہوجائے گا، جیسا کہ جسم میں میل لگا ہوتا ہے، اس کے باوجود پانی کا بہا دینا غسل ووضو کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔(ہندیہ: ۱؍۱۳)

ناپاک کپڑے دھونے سے غسل
سوال:- ناپاک کپڑے کو دھونے پر کیا غسل کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے ؟ ( عبدالماجد، کوکٹ پلی)
جواب:- غسل کچھ خاص اسباب کی وجہ سے واجب ہوتا ہے ، ناپاک کپڑے کا دھونا ان اسباب میں سے نہیں ہے؛ اس لئے غسل واجب نہیں ہوگا ، تین بار دھونے کے ساتھ کپڑے بھی پاک ہوجائیں گے اور ہاتھ بھی ، ہاں ! احتیاطا الگ سے ہاتھ دھولئے جائیں تو بہتر ہے، بس یہ کافی ہے ۔

گٹھیا کی وجہ سے تیمم
سوال:- میں جوڑوں کے درد اور گٹھیا کا مریض ہوں، ظہرمیں وضو کی تو تین اور کبھی چاروں نمازیں پڑھ لیتی ہوں یا کبھی حاجت کے تحت پھر وضو کرلیتی ہوں، مگر فجر میں بارش اور سردیوں میں ڈر کر وضو نہیں کرتی ؛کیونکہ سرد موسم میں میرے ہاتھ کہنیوں تک سُن ہوجاتے ہیں ،یہ اکثر رات میں ہوتا ہے، لیکن گرما میں فجر میں بھی وضو کرتی ہوں تو میری نماز ہوتی ہے ، یا نہیں ؟ ( محمد اسماعیل، شیموگہ)
جواب:- مناسب ہوگا کہ اس سلسلہ میں اپنے معالج یا کسی بھی مستند ڈاکٹر سے مشورہ کرلیں، اگر ڈاکٹروضو کرنے سے منع کرتے ہیں، یا آپ کا تجربہ ہو کہ وضو کرنے سے تکلیف بڑھ جاتی ہے، تو تیمم کرکے نماز پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں ، شریعت کا مقصد انسان کو حرج میں مبتلاء کرنا نہیں ہے؛اس لئے حقیقی دشواریوں کی احکامِ شریعت میں قدم قدم پر رعایت ہے، فقہاء نے اس صورت میں تیمم کی صراحۃً اجازت دی ہے، مشہور حنفی فقیہ علامہ حلبی ؒ فرماتے ہیں :إن المریض إذا خاف زیادۃ المرض بسبب الوضوء أو التحرک أو بإستعمال الماء أو خاف ببطاء البرء من المرض بسبب ذالک جاز لہ التیمم ، ویعرف ذالک إما بغلبۃ الظن عن امارۃ أو بتجربۃ أو باخبار طبیب حاذق مسلم غیر ظاہر الفسق (کبیری:۶۳) وضوء کرنے ، یا حرکت کرنے ، یا پانی کے استعمال کی وجہ سے مریض کو اگر مرض کے بڑھ جانے ، یا اس کی وجہ سے مرض کے جڑ پکڑ لینے کا خطرہ ہو ، تو اس کے لیے تیمم جائز ہے، اور اسے کسی علامت یا تجربہ کے ذریعہ غلبہ ظن سے یا کسی مسلمان ماہر ڈاکٹر جس کا فسق ظاہر نہ ہو ، کے بتانے سے جانا جاسکتا ہے۔

پلاسٹک کا مصلی
سوال:- آج کل پلاسٹک کی جائے نماز کا رواج ہوگیا ہے، خاص کر سفر میں ایسے مصلی استعمال کئے جاتے ہیں ، اگر ایسا مصلی ایسی جگہ پر بچھا دیا جائے ، جہاں نجاست ہو تو کیا اس پر نماز ادا کی جاسکتی ہے؟(شمس الدین احمد،حمایت نگر )
جواب:- نماز کے لئے ایسی جگہ تلاش کرنی چاہئے جو پاک بھی ہو اور صاف بھی ،اور طبیعت کو وہاں نماز ادا کرنے میں پورا انشراح ہو ، اس سے نماز میں خشوع و خضوع کی کیفیت باقی رہتی ہے ، جب قلب کو اطمینان نہ ہو توعبادت بھی بے لطف ہوجاتی ہے ؛تاہم اس سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ اگر نجاست خشک ہو تب تو اس مصلی پر نماز پڑھنا درست ہے، اگر مرطوب نجاست ہو اور نجاست کا اثر نیچے کی سطح سے اوپر تک نہیں پہنچ پائے اور اوپری سطح پر نجاست کی بو محسوس نہیں کی جائے تو اس پر نماز ادا کی جاسکتی ہے ،فقہاء نے ایسے موٹے کپڑے پر نماز ادا کرنے کی اجازت دی ہے ، جس کو مرطوب نجاست پر ڈال دیا جایا جائے اور کپڑے کے اوپر بو محسوس نہ ہو۔ (طحطاوی علی مراقی الفلاح: ۱۱۲)

بلیچنگ مخلوط پانی سے وضو و غسل
سوال:- پانی میں بلیچنگ پاؤ ڈر ملانے سے ایک قسم کی بو پیدا ہوجاتی ہے، اس پانی سے وضو یا غسل کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ ( ایاز پاشا، گنٹور)
جواب:- بلوچینگ پاؤڈر میں کوئی ایسی چیز نہیں جو ناپاک ہو؛ اس لئے جب تک اتنی مقدار میں نہ ملایاجائے کہ جس سے پانی کا سیلان اور بہاؤ متأثر ہوجائے، اس سے وضو و غسل کیا جاسکتا ہے ۔

اقامت کا جواب
سوال:- جس طرح اذان کا جواب دینا ہے ، کیا اسی طرح اقامت کابھی جواب دینا ہے ؟ (معاذ احمد، میل کھیڑلا)
جواب:- جی ہاں! اذان کی طرح اقامت کا بھی جواب دینا چاہئے، فرق یہ ہے کہ اذان کا جواب دینا بعض حضرات کے نزدیک واجب ہے، اور اقامت کاجواب مستحب، اقامت میں ’’قدقامت الصلاۃ ‘‘ کے جواب میں ’’ اقامھا اللّٰہ وأدامھا (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۵۲۸)کہنا چاہئے : ویجیب الإقامۃ ندبا إجماعا کا لأذان ویقول عند ’’قد قامت الصلاۃ ‘‘ أقامھا اللّٰہ وأدامھا (درمختار علی ہامش الرد:۲؍۷۱)

سجدہ میں دعا کی ہیئت
سوال:- سجدہ میں دعا کرنے کی ہیئت کیا ہونی چاہئے ؟ (سلیم الدین، کوٹہ)
جواب:- نفل نمازوں کے سجدہ میں عربی زبان میں دعا کی جاسکتی ہے ،(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:۸۷۷) اس کے لئے کوئی خاص ہیئت مقرر نہیں ؛ بلکہ سجدہ کی جو معروف کیفیت ہے ، اسی میں دعا کرنا چاہئے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے نماز تہجد میں دعا کرنا ثابت ہے ۔ بعض لوگ سجدہ میں دعا کرنے کے لئے ہاتھوں کو اس طرح بچھا دیتے ہیں کہ پشت زمین پر ہوتی ہے اور ہتھیلی اوپر کی طرف ، یعنی ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کی مشابہت اختیار کی جاتی ہے ، یہ درست نہیں ہے کہ اس طرح کا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:۸۷۹)

تعلیم و تربیت کے لئے بچہ کا جہرًا ظہر ادا کرنا
سوال:- ایک طالب علم امامت کے فرائض انجام دے ، اور ظہر کی نماز بآواز بلند پڑھے؛ تاکہ دوسرے بچے جو اس کے پیچھے نمازپڑھ رہے ہیں ، ان کو معلوم ہوجائے کہ کس رکن میں کیا پڑھنا ہے ،تو کیا اس طرح نماز پڑھانا جائز ہے ؟ (عبدالستار،سنتوش نگر )
جواب:- اگر یہ نابالغ بچے ہوں اور امامت کرنے والا بچہ بھی نابالغ ہو ،تو ازراہ تربیت نماز ظہر، اور آہستہ پڑھے جانے والے اذکار کو زور سے پڑھنے کی گنجائش ہے؛کیونکہ نابالغ احکام شرعیہ کے مکلف نہیں ہیں ، اور ان بچوں کے حق میں یہ نمازیں بھی نفل کے درجہ میں ہیں ، اور نفل نمازوں میں بہ مقابلہ فرض نمازوں کے احکام کے اعتبار سے زیادہ وسعت ہے ، سلف صالحین سے بھی تعلیم و تربیت کے مقصد سے گاہے گاہے آہستہ پڑھے جانے والے اذکار کو زور سے پڑھنا ثابت ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک بار انہوں نے ’’ ثناء ‘‘ کو جہر کے ساتھ پڑھا ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک موقعہ پر ’’ تعوذ ‘‘ کو زور سے پڑھنا منقول ہے،(زادالمعاد:۲۷۵۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دفعہ ’’ آمین ‘‘ زور سے کہی ہے ، اس کے بارے میں حدیث کے راوی حضرت وائل بن حجر فرماتے ہیں : ماأراہ إلا لیعلمنا (التعلیق الحسن علی اٰثار السنن:۱؍۱۸۷) میرے خیال میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل تعلیم کی غرض سے تھا ۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.