تعلق بھی نبھاتے ہیں مگر کم ،وہ میرے گھر بھی آتے ہیں مگر کم

?۔۔۔۔۔۔۔غزل۔۔۔۔۔۔?

تعلق بھی نبھاتے ہیں مگر کم
وہ میرے گھر بھی آتے ہیں مگر کم

مراسم بہہ نہ جائیں آنسؤوں میں
انہیں اب بھی رلاتے ہیں مگر کم

غموں کو منہ چڑھاتے ہیں ابھی بھی
ابھی ہم مسکراتے ہیں مگر کم

ستم ڈھانے میں ماہر ہیں بہت وہ
وہ کچھ کچھ رحم کھاتے ہیں مگر کم

زمین و آسماں کیوں ایک کر دوں
یہ مانا وہ ستاتے ہیں مگر کم

کمی الفت میں شاید رہ گئی ہے
سو ہم کو آزماتے ہیں مگر کم

برشتہ اس لیے نہ ہو سکا ہے
ہمارا دل جلاتے ہیں مگر کم

کہیں جب کام سے جاتا ہوں باہر
کوئی تحفہ منگاتے ہیں مگر کم

کبھی جب روٹھ جاتا ہوں میں ان سے
مجھے آ کر مناتے ہیں مگر کم

نسیمِ صبح کے ہمراہ گل سے
چمن کو ملنے جاتے ہیں مگر کم

"نسیم خان”

Comments are closed.