چشم فلک نے عجب نظارہ دیکھا جنت کو جلتا ہوا شرارہ دیکھا

نوحہ کشمیر

رخشندہ بیگ

چشم فلک نے عجب نظارہ دیکھا
جنت کو جلتا ہوا شرارہ دیکھا
بے گناہ چیخوں کی فریاد سنی
بے گناہ سینے کو نشانہ دیکھا
وہ سیاہ غبار وادی سے لپٹا ہوا
موت کو جھپٹ پڑنے کا بہانہ دیکھا
کیا یاد ہے جنت اسے کہتے تھے !!
چشم نم نے ایسا بھی زمانہ دیکھا
درندگی ناچ رہی ہے آوارہ ہر سو
ہر پھتر سے نکلتا ہوا دیوانہ دیکھا
جواں سینے سے لہو ٹپکتا ہے وہاں
اس قدر خون کو راٸیگانہ دیکھا
ہولی کشمیر تیرے بیٹوں کے خون کی
بڑی دھوم سے شہیدوں کا جانا دیکھا
لٹتی رداٸیں کشمیر کی بیٹیوں کی
ہاٸے یہ کیسا دنیا نے زمانہ دیکھا
قید حیات تنگ قفس میں ہرنفس
اور اس پہ بستیوں کا جلانا دیکھا
کیوں مہربہ لب ہے دنیا اس ظلم پر
نہیں اور کہیں ہم نے یہ فسانہ دیکھا
اے کشمیر ۔۔۔۔۔تیری آہ وفغاں کو
اس زمیں کے خداوں نے ترانہ دیکھا

Comments are closed.