آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

نمازی کے آگے سے گذرنے والے کو روکنے کا طریقہ
سوال :- اگر کوئی شخص نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گذر رہا ہو تو نماز پڑھنے والے کو کیا تکبیر کہنی چاہئے ، اشارہ کرنا چاہئے ، یا کسی اور طریقہ پر تنبیہ کرنی چاہئے؟ یا اشارہ بھی کرے اور تسبیح بھی پڑھے ؟ یا ہاتھ پر ہاتھ کو مارا جائے ، پھر ہاتھ پر ہاتھ مارنے کی کیفیت کیا ہوگی اور تسبیح پڑھنے کا طریقہ کیا ہوگا ؟ براہ کرم وضاحت فرمایئے ۔ ( جاوید احمد، ملے پلی)
جواب :- نمازی کے سامنے سے گذرنے والے کو متنبہ کرنے کے لئے مردوں کے لئے دو طریقے ہیں ، اشارہ یا تسبیح ، اشارہ ہاتھ سے بھی کیا جاسکتا ہے ، سر سے بھی ، آنکھ سے بھی ؛ لیکن کسی ایک ہی سے اشارہ ہونا چاہئے : ’’ وھو بالاشارۃ بالید أو بالراس ، أو بالتسبیح‘‘ ۔ (البحر الرائق : ۲؍۲۳)
تسبیح سے مراد سبحان اللہ کہنا ہے ، بعض لوگ سبحان اللہ کے بجائے ’ اللہ اکبر ‘ کہہ دیتے ہیں ، یہ درست نہیں ہے ؛ کیوںکہ اللہ اکبر تو نماز کے اذکار میں شامل ہے ، اگر آپ اللہ اکبر کہہ دیں تو گذرنے والے کو احساس نہیں ہوپائے گا کہ آپ اس کو اس کی حرکت سے روک رہے ہیں اورآپ کا مقصود اس کو منع کرنا ہے ، تسبیح اور اشارہ دونوں کو جمع کرنا مکروہ ہے ، اگر ان دونوں میں سے ایک گذرنے والے کو روکنے کے لئے کافی ہوجائے تو دوسرے طریقہ کو استعمال کرنا بے فائدہ ہے اور نماز میں حتی المقدور بے فائدہ عمل سے بچنا چاہئے : ’’ ویکرہ الجمع بین التسبیح والاشارۃ لأن بأحدھما کفایۃ‘‘ (حوالۂ سابق)البتہ اگر صرف تسبیح یا صرف اشارہ کافی نہ ہو تو ان دونوں میں سے دوسرے طریقہ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے ، گذرنے والے کو متنبہ کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نماز پڑھنے والا اگر سری نماز میں ہو تو ایک آدھ آیت زور سے پڑھ دے اور اگر جہری نماز ہو تو جہر کی مقدار میں اضافہ کردے : ’’ وزاد الولوالجی أن یکون برفع الصوت لقراء ۃ القرآن‘‘ (حوالۂ سابق) جہاں تک ہاتھ پر ہاتھ مارنے کی بات ہے تو اس کا تعلق خواتین سے ہے کہ عورتیں اشارہ کرنے اور تسبیح پڑھنے کے بجائے ہاتھ تھپتھپائیں گی ؛ لیکن ہاتھ تھپتھپانے سے مراد ہتھیلی کو ہتھیلی پر مارنا نہیں ہے ؛ بلکہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر مارنا مراد ہے : ’’ وکیفیتہ أن تضرب بظہور أصابع الیمنی علی صفحۃ الکف من الیسریٰ ولأن فی صوتھن فتنۃ فکرہ لھن التسبیح‘‘ ۔ (حوالۂ سابق)

دو بیویوں میں سے ایک کو بیرونِ ملک ساتھ لے جانا
سوال:- ایک شخص کی دو بیویاں ہیں تو ان دونوں کے درمیان کن چیزوں میں عدل ضروری ہے ، اگر شوہر بیرونِ ملک رہتا ہو تو وہ جس کو چاہے اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے یا دونوں کو اپنے ساتھ رکھنا لازم ہوگا ؟ (عبادہ شارب، ہمایوں نگر)
جواب :- بیویوں کے درمیان عدل اور برابری کا سلوک کرنا واجب ہے ، فقہاء نے اس سلسلہ میں کھانے کپڑے اور شب گذاری کا ذکر کیا ہے کہ ان چیزوں میں دونوں بیویوں کے درمیان برابری ضروری ہے : ’’ وفی الماکول والملبوس … والنوبۃ لھذہ لیلۃ ولھذہ لیلۃ‘‘ ( تاتار خانیہ : ۱۰؍۳۵۷) شب گذاری میں یکسانیت کی ایک صورت یہ ہے کہ باری باری دونوں کے یہاں ایک ایک شب گذارے اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک بیوی کے یہاں چند رات گذارے اور اتنی ہی راتیں دوسری بیوی کے یہاں : ’’ وإن شاء أقام عند کل واحدۃ ثلثۃ أیام ، لأن المستحق علیہ التسویۃ الخ‘‘ (حوالۂ سابق) البتہ میاں بیوی کے خصوصی تعلق میں برابری ضروری نہیں ہے ؛ کیوںکہ یہ مکمل طورپر اختیاری چیز نہیں ہے ؛ بلکہ نشاط اور طبعی آمادگی پر موقوف ہے ؛ البتہ یہ درست نہیں کہ ایک بیوی سے تعلق رکھے اور دوسری سے بالکل بے تعلق ہوجائے ، فقہاء نے یہ صراحت کی ہے کہ اگر شوہر سفر پر جارہا ہوتو بیوی کے درمیان ساتھ لے جانے میں برابری ضروری نہیں ہے ، اگر وہ ایک ہی بیوی کو ساتھ لے جانا چاہتا ہو تو وہ اپنی مرضی سے کسی ایک کا انتخاب کرسکتا ہے ؛ کیوںکہ سفر میں ایسے رفیق کی ضررت ہوتی ہے جو انسان کے لئے معاون و مددگار بنے اور ممکن ہے کہ ایک خاتون میں وہ صلاحیت ہو اور دوسری اس سے خالی ہو ؛ البتہ بہتر ہے کہ ایسی صورت میںقرعہ اندازی کرلے اور جس کے نام کا قرعہ نکلے اس کو اپنے ساتھ رکھے : ’’ والاولیٰ أن یضرب بالقرعۃ لیکون أقرب إلی العدل وأبعد من المیل‘‘ (تاتار خانیہ : ۴؍۳۵۸) مگر سفر سے مراد ایسا سفر ہے جس کا مقصد صرف آمد و رفت ہو قیام نہ ہو ، جو لوگ بیرونِ ملک فیملی کو لے جاتے ہیں ان کا مقصد وہاں مستقل طورپر قیام کرنا ہوتا ہے اور مہینوں بعض اوقات سالوں وہاں قیام کرتے ہیں ، ایسے شخص پر واجب ہے کہ یا تو دونوں بیویوں کو اپنے ساتھ لے جائیں ، یا باری باری ایک مقررہ مدت کے لئے یکے بعد دیگرے دونوں کو لے جائیں ، مثلاً چھ چھ ماہ کے لئے ، اور یہ مدت اتنی طویل نہ ہو جو ساتھ نہ لے جائے جانے والی بیوی کے لئے تکلیف دہ ہوجائے ، یا اس کی وجہ سے اس کی عفت و عصمت کو خطرہ درپیش ہو ، ایک بیوی کو اپنے ساتھ رکھنا اور دوسری کو مستقل طورپر دور رکھنا جائز نہیں ہے اور عند اللہ سخت پکڑ کا باعث ہے ۔

اگر نماز کے اندر ہی سجدۂ تلاوت یاد آجائے؟
سوال:- اگر ایک شخص نماز میں آیت سجدہ پڑھے ؛ لیکن سجدۂ تلاوت کرنا بھول گیا ، پھر اخیر میں اس کو نماز ہی کی حالت میں یاد آیا تو کیا اسے سجدۂ تلاوت کرنا چاہئے ؟ اب اگر وہ نہیں کرپایا تو ایسی صورت میں اس کے لئے سجدۂ تلاوت کرنے کی کیا صورت ہوگی ؟ (فرازاحمد، حمایت نگر)
جواب :- اگر نماز کے اندر آیت سجدہ پڑھی اور اس وقت سجدہ نہیں کرسکا اور نماز کے اندر ہی یہ بات یاد آگئی تو نماز کے ختم ہونے سے پہلے تک سجدۂ تلاوت کرنے کی گنجائش ہے ، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ بالکل آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے سجدۂ تلاوت ادا کرلے ؛ البتہ اگر نماز کے اندر بھی بعد میں سجدۂ تلاوت کرے گا تو سجدۂ تلاوت میں تاخیر کی وجہ سے سجدۂ سہو بھی واجب ہوجائے گا ، پہلے سجدۂ تلاوت کرے ، پھر تشہد پڑھ کر سلام پھیر کر سجدۂ سہو کرلے : ’’ ولو تذکر سجدۃ التلاوۃ فی آخر الصلاۃ وسجد لھا ، ھل یلزمہ سجود السہو بھذا التاخیر؟ نص علیہ عصام أنہ یلزمہ‘‘ ۔ (تاتار خانیہ : ۴؍۴۱۸)

شک کی وجہ سے طلاق نہیں ہوتی ہے
سوال:- میرے ایک دوست کو شک ہے کہ شاید اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دیا ہے ؛ لیکن وہ یقین کے ساتھ کچھ کہنے کے موقف میں نہیں ہے ، کیا اس صورت میں اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی یا اس سے کہا جائے گا کہ وہ اس عورت سے الگ رہے ؟ ( عبدالباسط، گنٹور)
جواب:- طلاق صرف شک سے واقع نہیں ہوتی ، اگر اس کو طلاق دینا یاد نہ ہو ، نہ ایسے معتبر گواہان موجود ہوں جو اس کے طلاق دینے کی گواہی دیں تو محض شک کی بنیاد پر طلاق واقع نہیں ہوگی : ’’ ومنھا عدم الشک من الزوج فی الطلاق وھو شرط الحکم ، بوقوع الطلاق حتی لو شک فیہ لا یحکم بوقوعہ حتی لا یجب علیہ أن یعتزل امرأتہ‘‘ ۔ (بدائع الصنائع : ۳؍۱۹۹)

آن لائن تجارت کی ایک صورت
سوال:- آن لائن کے کام میں ہمارے پاس کپڑا بیچنے والی کمپنی ہے اور ان کے پاس ہم نے ابھی مال یعنی ساڑی کی خریدی کی نہیں ہے اور دوسری طرف تصویر دکھاکر ہم اس پروڈکٹ کو بیچنے کے لئے رکھتے ہیں ، پھر جب گاہک اس چیز کو پسند کرتا ہے تب پہلا گاہک اس کا سودا کر ڈالتا ہے اور پھر اس چیز کی خریدی کی جاتی ہے ، کیا یہ جائز ہے ؟ ( محمد شاداب، منگلور)
جواب :- کسی چیز کو فروخت کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ پہلے قبضہ حاصل ہوجائے ، بشرطیکہ وہ چیز ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کئے جانے کے لائق ہو ، جیسے : کپڑا ، برتن ، فرنیچر وغیرہ : ’’ لا یجوز بیع المنقول قبض القبض‘‘ (تبیین الحقائق : ۴؍۸۰) اس لئے جب تک آپ اسے خود خرید نہ کرلیں ، اس کا بیچنا جائز نہیں ؛ البتہ اگر آپ کمپنی سے وعدہ لے لیں کہ فلاں فلاں چیز کا آرڈر حاصل کرنے کی ہم کوشش کریں گے ، دوسری طرف آن لائن آپ اس طرح تشہیر کریں کہ اگر کوئی صاحب ان سامانوں میں سے کسی کو خریدنا چاہیں جن کی قیمتیں حسب ِذیل ہیں تو ہم وہ شئے ان کو فراہم کریں گے ، تو یہ آپ کی طرف سے بیچنا نہیں ہے ، بیچنے کا وعدہ ہے ، پھر اگر کوئی آرڈر آئے تو اب آپ ان کو خرید کر بھیج دیں اورکہیں کہ یہ میں نے آپ سے بیچ دیا اور وہ شخص قیمت ادا کردے تو یہ صورت درست ہوگی ؛ کیوںکہ اس صورت میں وعدہ تو قبضہ میں لینے سے پہلے کیا گیا ہے ؛ لیکن فروخت قبضہ میں لینے کے بعد کیا گیا ہے ۔ واللہ اعلم

مقروض سے برائے نام کرایہ پر مکان حاصل کرنا
سوال:- میرے پاس مکان ہے جو دو لاکھ ڈیپازٹ اور سو روپیہ کرایہ سے دیا ہے ؛ کیوںکہ مجھ پر دو لاکھ کا قرض تھا جو مجھے چکانا تھا تو کیا یہ جائز ہے یا نہیں ؟ (ذکی احمد، ناندیڑ)
جواب :- اگر وہ مکان عام حالات میں سو روپے ماہانہ کرایہ پر نہیں مل سکتا اور قرض کی وجہ سے اتنے کم کرایہ پر دیا گیا تو یہ جائز نہیں ، یہ گویا اس قرض کے بدلہ مکان کی رہائش کا فائدہ پہنچانا ہے ، جو جائز نہیں ہے ، یہ بالواسطہ طورپر سود لینے اور دینے کی ایک شکل ہے اور اس صورت میں قرض لینے والا مکان کے کم سے کم واجبی کرایہ کا مستحق ہے جو قرض کی رقم میں سے منہا ہونا چاہئے : ’’ ولو استقرض دراہم وسلم حمارہ إلی المقرض لیستعمہ إلی شھرین حتی یوفیہ دینہ ، او دارہ لیسکنھا فھو بمنزلۃ الاجارۃ الفاسدۃ ان استعملہ فعلیہ اجرمثلہ ولا یکون رہنا‘‘ ( ردالمحتار : ۰۱؍ ۸۷) — البتہ اس مکان پر مارکٹ میں جتنا کرایہ ہوسکتا ہے ، اس میں سے کم سے کم کرایہ طے ہوجائے تو اس کی گنجائش ہے ، مثلاً ایک جگہ کا کرایہ پانچ ہزارسے دس ہزار تک ہوسکتا ہے اور پانچ ہزار کرایہ طئے کیا تو اس کی گنجائش ہے ۔

آرڈر پر بک کئے ہوئے فلیٹ کو بیچنا
سوال:- کہیں اپارٹمنٹ بنتا ہو ، وہاں ٹوکن کے روپے ( ایک لاکھ یا دو لاکھ) دے کر فلیٹ بک کراسکتے ہیں اور اسے کسی اور کو بیچ سکتے ہیں ؛حالاںکہ قبضہ ملا نہیں ہے ؟ (ابو حماد،سعیدآباد)
جواب :- کسی شئے کو بیچنے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں تین باتیں ہوں ، اول یہ کہ وہ شئے موجود ہو ، ایسا نہ ہو کہ ابھی وہ چیز وجود میں نہیں آئی ہو اور اس کو بیچا جائے ، دوسرے : وہ چیز حلال و جائز ہو ، حرام شئے کی خرید و فروخت درست نہیں ، تیسرے : اگر وہ شئے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کئے جانے کے لائق ہو تو اس پر بیچنے والے کا قبضہ بھی ہوچکا ہو ، ہاں جو شئے اس نوعیت کی نہ ہو یعنی ناقابل انتقال ہو جیسے زمین بلڈنگ وغیرہ تو ان کو قبضہ سے پہلے بیچنا بھی جائز ہے — بلڈنگ ایک حلال اور جائز شئے ہے ، اگر بلڈنگ موجود ہو تو اس کو بیچنے کے لئے قبضہ ضروری نہیں ؛ البتہ جو شئے ابھی وجود ہی میں نہ آئی ہو ، اس کو عمومی طورپر بیچنا جائز نہیں ہے ، اس سے دو صورتیں مستثنیٰ ہیں : سلم اور استصناع ، استصناع سے مراد یہ ہے کہ کوئی چیز آرڈر پر بنوائی جائے تو جس نے آرڈر پر دیا ہے ، اس سے آرڈر لینے والے نے جو خرید و فروخت کا معاملہ طے کیا ہے وہ تو جائز ہے ؛ حالاںکہ آرڈر کے وقت وہ چیز موجود نہیں ؛ لیکن اب اس کا کسی اور سے بیچنا جائز نہیں ہے ؛ کیوںکہ یہ غیر موجود شئے کا بیچنا ہے ، اس لئے جو صورت آپ نے لکھی ہے وہ جائز نہیں ہے ، یہ ایک شئے کے وجود میں آنے سے پہلے ہی اس کو بیچنے کی شکل ہے ۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.