دھر تی میری جان!

افسانہ
ش م احمد
7006883587
’’کالے قانون کی واپسی نہیں ، گھر واپسی نہیں‘‘
اپنے بھاشن کے اختتام پر کسان نیتا کا اتنا بولنا تھا کہ ستنام سنگھ کی رَگ رَگ میں جوش کی بجلی دوڑ گئی:
’’ کسان ایکتا‘‘
ستنام جماوڑے میں اُٹھ کھڑا ہوا ، مٹھیاں بھینچ لیں، ساری قوت کو زبان پر جمع کر کے تین زرعی قوانین کو ردکرنے کا مطالبہ نعرے میں ڈھالا ۔
’’زندہ باد‘‘
ہزاروں آندولن کاری کسانوں نے بآواز بلند نحیف ونزار اور بیمارکسان کے نعرے کا جواب دیا :
ستنام سنگھ نوے سال کی پختہ عمر کابزرگ آندولن کاری کسان ہے۔ باپ دادا سے وراثت میں پائی دس بیگھہ زمین کو اپنا اَن داتا مانتااور کرم بھومی کہتا ہے۔ کھیتی کسانی کے دوران گوربانی وِرد زبان اور بھجن دل کی دھڑکن بنانے والا ستنام آج گھر سے بہت دور دلیکے سنگھو بارڈر پر مورچہ زن ہے ، ا س کےسارے معمولات یکسر بدلے بدلے ہیں، کیوں کہ اس خیمہ بستی میں نعرے ہیں،احتجاجی ترانے ہیں، بھاشن ہیں ، کسانوں کی بھیڑ بھاڑ ہے ، ٹی وی چنلوں کا ہجوم ہے، گرو کے لنگر ہیں ، جلتے الاؤ ہیں ،ہمتوں اور حوصلوں کی آزمائشیں ہیں ، لوہے کی نوکیلی میخیں ہیں ، پولیس کی بھاری نفری ہے، کٹیلی
تار وںکی قلعہ بندیاں ہیں ، آہنی رُکاوٹوں کی دیواریں ہیں ، پانی کی بندش اور بجلی پر قدغن ہے ۔ انہی پر یشان کن مشکلات کے بیچ ستنام کھلے آسمان تلے سڑک کے سنگلاخ فرش کو کافی دنوں سے اپناگھر بنایا ہوا ہے۔ اُس کا صرف ایک غم ہے کہ کوئی نئے کرشی قانون کے بل پر اُس کی زمین ہتھیانہ لے کہ اُس کی خودداری اور خود انحصاری نیلام ہو۔ وہ خوف زدہ ہے کہ دیر سویر کوئی پونجی پتی اپنے لالچ کا پیٹ
بھر نے کے لئےاس کی پونجی پر ہاتھ صاف کرکے رہے گا۔ ستنام کےاحتجاج دھر نے کا لب ِ لباب فقط اپنی موروثی امانت کو خیانت کاروں سے بچا ئے رکھنا ہے۔
ستنام نہتا ہے مگر پھر بھی ایک عجیب جنگ لڑ ے جارہاہے ۔ ۔۔ تشدد سے پاک ، اشتعال انگیزی سے دور ، جذباتیت سے خالی۔ یہ جنگ
اِ تہاس کی وہی جنگ ہے جوغریب کی محرومی اور امیر کی تجوری کے درمیان ہمیشہ سے چلی آرہی ہے، آگے بھی چلے گی۔ ا س وقت یہ جنگ دلی کی سرحدوں سے لے کر ملک میں جگہ جگہ مہا پنچایتوں کی صورت میں برپا ہے ۔ جنگ میں دو فریق آپس میںگتھم گتھا ہیں: تکلیف دینے والا سنگھاسن ، تکلیف سہنےوالا ستنام جیسے لاکھوں بے شمار کاشت کار وں کا مجموعہ۔ تکلیف دینے والا فریق ، اُس کے ڈھنڈور چی ، بانڈوں کی منڈلی سب مل کرکسانوں کی پسپائی کے لئے اُنہیں کیا کیا نہیں کہتے : آنتکی ،خالصتانی، دیش دروہی ، آڑتھیوں کے کاسہ لیس، بچولیوں کے پٹھو، ترنگے کےاِہانت کار،نا سمجھ، دنگائی ، ٹکڑے ٹکڑٹے گینک ، نکسل بادی، ناکام اپوزیشن کے پیادے وغیرہ وغیرہ۔ کسان یہ طعنے اپنے دل پر تیز دھار خنجر کی طرح ضرورلیتے ہیں مگر آپا کھوتے ہیں نہ اپنی بدھی بھرشٹ ہونے دیتے ۔ انوکھی بات یہ کہ مخالفین کا ہر اوچھا حملہ اُلٹا آندولن کاروں کو اپنے موقف پر چٹان کی طرح جماتا جارہا ہے۔
دلی میںآندولن کاروں کی کسانی ہمت کا امتحاں کون نہیں لے رہا؟کٹھور حاکم ، موسلا دھار بارشیں ، کڑاکے کی ٹھنڈ ، دھر نے کی جگہ پر ایک سنت کی خودکشی ،پامال نفسیات کے مارے کئی کسانوں کی آتم ہتھیا ، دل کے دوروں کی تکرار۔۔۔ ستنام دیکھ رہاہے کہ کسان کو نیچا دکھانے کے لئے زمین وآسمان ا س کاکو نسا سخت امتحان نہیں لے رہامگر کسانوں کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں ، اُن کے قدم ڈگمگانے کاسوال ہی نہیں۔ ان لوگوں کا سارا درد آنے والے کل کی نئی آس اور اپنی جیت کی اُمید سہلاتی ہے۔ یہی ان کے حوصلوں مٰں جان ڈالتی ہے :
’’ بھیا ! موت بھی آؤئے ستنام سنگھ کسان آندولن سے نہ ہٹ جاؤئے۔ کل تک جس دھرتی پر فصلیں لہلہائیں ، اگر آج یہ میری جان مانگے، میری جان حاضر ۔۔۔ یہ لوگ ہمارے منہ کا نوالہ چھین لیں تو کیا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ ہم اپنی بھومی سے اپنی مٹی سے دغا کرنے والے نہیں۔ قسم اس کے ذرے ذرے کی، اپنےایک ایک کھیت کی حفاظت پر ہماری سو سو جانیں قربان۔‘‘ ستنام نے چنل والے کے سوال کا د لیرانہ جواب دے کر آس پاس کھڑے لوگوں کی داد حاصل کی اور تالیاں بجیں ۔
’’باباجی! سرکار آپ کی مانگ کو رد کرتی ہے ، کب تک آندولن
چلا ؤگے ‘‘ رپورٹر نے نیاسوال پوچھا
’’ مانگ پوری نہیںہوتی جب تک آند ولن چلتا جاؤے، بھلے یہیں سے ہمار ی اَرتھیاں اُٹھیں، پیچھے نہیں مڑنا ۔۔۔ نا بابا نا، قطعی نہیں۔ انگریج نے بھارت سے نہ جانے کی ٹھانی مگر نکال باہر ہوا، کالے قانون بھی جائیں گے ‘‘ ستنام کےمصمم ارادہ سے اَلاؤ کے چاروں طرف بیٹھے کسانوںنے جوش میں کسان ایکتا زندہ باد کا نعرہ لگا یا ۔
’’کاہے کو کالے قانون بنائے ؟ ہم نے تھوڑی کہا مائی باپ یہ مہربانی کرو؟ اور تم انہیںکرشی سدھار قانون بولو یا سورگ کی کنجیاں بتاؤ، ہمیں یہ چاہیے نہیں ، بات ختم۔ ارے بابا یہ قانون سب کے منہ کا نوالہ چھین لینے کی رَن نیتی ہے، ایک کسان کیا آگے جنتا بھی روئے گی ،سب کے گلے میں پونجی پتیوں کی غلامی کا پھندا ڈالنے کا پربند ھ ہورہا ہے بھئی ۔ پرجا ہٹ ہے کہ قانون واپس لو، راج ہٹ ہےکہ واپسی نہیں ہوگی ۔ ۔۔ دیکھتے ہیں کس کی چلتی ہے۔۔۔ نیتا لوگ اپنے اَن داتا سے چھل کریں ، شوق سے کریں ، کسان اپنے اَن داتا کی سنتان ہے ، وہ اپنے کھیت کھلیان کا استھان نیلامی نہ چڑھاوئے‘‘ ستنام سنگھ نے تیکھے لہجے میںاپنی بات رکھی ۔
بوڑھے کاشت کار کے دل میں یہ بات پتھر کی لکیر کی طرح نقش ہےکہ کھیت کھلیان میں اس کی روزی روٹی ہی نہیںپُر کھوں کی آشیرواد بھی پوشیدہ ہے ، زمین کی جُتائی بوائی کٹائی میں کسان کا گہنہ ہے ، زمین ہاتھ سے گئی تو بھوکوں مر نا ہے۔ ا سی لئے جب بھی کسی بیٹے نے گاؤں میں زمینیں بیچ کر شہر جا بسنے کی تجویز دی توستنام بہت بگڑ گیا:
’’ تم مجھے اپنے اَن داتا کا اَپمان کر نے کو کہتے ہو ؟؟؟ باڑھ میں جائے تم اور تمہارا شہر۔ پیدائش یہیں ،پالن پوشن یہیں ، انتم سنسکار بھی یہیں ۔‘‘
ایک بار دلال رنجیت سنگھ نے سرگوشی میں ستنام سے راگھو سنگھ زمیندار کے ہاتھ موٹے داموں کے عوض اپنی زمین بیچنے کی صلاح دی:
’’موقع غنیمت ہے بابا ‘‘
ستنام کا پارہ چڑھ گیا اور اپنا غصہ ایک زناٹے دار تھپڑ سے نکالا کہ رنجیت کا گال لال کرڈالا:
’’کم بخت اَ ن داتا کو بیچ کھاؤں؟ یہ میرا گرودوراہ ہے ، نظروں سے دورہوجا۔‘‘
حالانکہ کھیتی کسانی کی سخت جان مشقت اٹھانے کے باجود ستنام کی غربت کا زخم کبھی مندمل نہ ہوا ، احسا س ِ محرومی نے عمر بھر ا ُس کاساتھ نہ چھوڑا۔ اُسےغریبی سے مسلسل دودو ہاتھ کر نا، موسموں کی مارسہنا ، بنک قرضوں تلے دبے ر ہنا منظور ہے مگر ایک بالشت بھرزمین ہاتھ سے جائے ،یہ اُسے قبول نہیں ۔ اپنی موروثی پونجی کی محبت میں گرفتار بوڑھا کسان ہمیشہ’’ میرے دیش کی دھرتی سونا اُگلے ، اُگلے ہیرےموتی، میرے دیش کی دھرتی‘‘ گنگناتا ہے۔
ستنام کے گھر آنگن میں برسوں سےخوشیاں راستہ بھول کر بھی نہیں آئیں مگر غم دھڑا دھڑڈیرا جمائے بیٹھے رہے۔ سپاہی بیٹا گرونام سنگھ کرگل ید ھ میں کام آیا ، ستنام کے کندھےپر دو معصوم پوتوں اور بیوہ بہو کا مزیدبوجھ آن پڑا۔ وہ تو اُوپر والے کی دَیا تھی کہ گرونام کی تھوڑی بہت پنشن سے اس کے پریوار کی سانسیں چلتی رہیں ۔ محاذ ِ جنگ پر فوجی بیٹے کی ہلاکت سے اُس کی ماں گرمیت ٹوٹ کر بہت جلد پرلوک سدھارگئی۔ گرمیت کی موت سے ستنام مزید اکیلا پڑگیا۔ دوسرا بیٹا اَجے سنگھ کھیتی کسانی میں من لگاکر خون پسینہ ایک کرتا مگر گزارہ چلانا دشوار سے دشوار تر ۔ اَ جے نےہل جوتنے کی بجائے ٹریکٹر کے پہیوں سے اپنے حسین سپنے جوڑکر بنک قرضہ اُٹھایا ۔قرضہ کی چگتا ئی ا س کے لئے کوہ کن کا کدال بنا ۔ ساہو کار بنک نے پیسوں کا تقاضا کیا، مگر برسات وقت پر نہ ہونے سے اَجے کے پاس اب پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔ وہ اپنی کھڑی فصل کی خرابی کا رونا روتا ، اپنے پیارے منے کی بیماری کا دُکھڑا سناتا ، اپنی مجبوریوں کی دہائیاں دیتا مگر اُ س سے نہ بنک کھاتے میں اصل رقم سے زیادہ بیاج بڑھانے والی سوئی رُک جاتی نہ پیٹ کی آگ سر دہوتی ۔ آخر عدم ادائیگی کے اژدھے سے خوف زدہ ہوکر اَجے نے خودکشی کر کے شمشان گھاٹ میں اپنے خوابوں کی کہانی ختم کی ،جاتے جاتے اپنے بزرگ باپو کے سر ایک اور بیوہ اور دو بچوں کا بوجھ ڈال کی اس کی کمر مزیددوہری کردی ۔ ستنام نے اجے ہمت بڑھا ئی مگر وہ مرنے پراٹل رہا۔ باپ نے دوسری بیوہ اور بچوں کا بوجھ اُٹھانے میں دلداری اور انسانیت کی اچھوتی مثال قائم کی۔ گھر میں دوبیواؤں اور یتیم بچوں کی کفالت بھی کھیت کھلیان سے جڑی ہے۔ ستنام کا چھوٹا بیٹا کرپال سنگھ محاذ پر ڈیوٹی کر رہاہے، وہ بھی اپنےباپو کی طرح دونوں بھابیوں اور یتیم بچوں کو ایک پل بھی باپ کے سائے سے محروم ہونے کا احساس نہیںدیتا۔
وقت کاسردو گرم سہنے والےبوڑھے کسان میں محبت، ہمت ، آستھا اور وشواس کا وسیع خزانہ موجود ہے۔ اچھی فصل پر اوپر والے کی جے جے کارمیں دان پنیہ کرنا ، فصل کی خرابی پر ٹوٹ کر مہینوں دُکھ کی ندی آنسو ؤں کی شکل میں آنکھوں کے پرنالے سے نیچے گرانا،اس کامعمول رہا ہے لیکن اب کی بار اس کی آنکھوں میں صدمے کے آنسو نہیں بلکہ غم و غصہ کی سلگتی چنگاریاں بھڑک رہی ہیں ۔ وجہ ایک ہے، نئے زرعی قوانین۔ان قوانین کی دُھوم سے گاؤں دیہات میں ہرطرف بے چینی ہلچل مچی۔ کسان ایک ایک کر کے کرشی قانون کی مخالفت پر ہمہ تن ڈٹ کر اِکھٹ کرگئے۔ راستہ روکو ، دھرنے، ہڑتالیں، مورچہ بندیاں ، لاٹھی چارج ، پتھراؤ۔ یہ لوگ چشم ِتصور سے صاف دیکھ رہے ہیں کہ لٹیرے گھات میں بیٹھے ہیں کہ کب قانون کی وردی پہنے وہ کسانوںکی زمینیں ہڑپ لے جائیں اور غریبوں کو بھوکا ننگا چھوڑ کر دھرتی کے خدا بن جائیں۔
’’ نہیں ہی ہی ہی ہی۔۔۔ تم ہمارے پُرکھوں کی سمپتی لوٹ نہیں سکتے، مکار پونجی پتیو میں تمہارا خون پی جاؤں گا، نیتاؤں کو خرید رکھا ہے نا، سنوہم غریب سہی، مشکلوں کے بھنور میںآتم ہتھیا کر نے والے بزدل کہلاتے مگر جانتے ہو ہماری ہمت کی رَگوں میں غیرت کا گرم خون دوڑ رہاہے ۔ یہ خون قطرہ قطرہ دھرتی کی رکھشا میں بہے گااور تمہاری حرام کمائی سے بنیں حویلیوں کو جلا کر راکھ کر دے گا‘‘ سڑک روکو مورچہ کے دوران ستنام ایک موقع پربے اختیاری کے عالم میں چلّا چلّا کر بولا۔
کسانوں کے اعصاب پر اُن کی زمینیں اُچک لئے جانے کی فکروتشویش سوار ہے ۔ زمینوں کے بچاؤ کی دُھن ان کے مضطرب دلوں میں موجزن ہے ۔ یہی دُھن ستنام کو کھیتی کسانی، گھربار اور اپنی بے خوابی کی شدید تکلیف کو نظرانداز کر نے پر آمادہ کر گئی۔ اس نے گاؤں کے دوسرے کسانوں کے ہمراہ اپنے پوتے اجیت سنگھ کے ٹریکٹر میںدلی دھر نے میںپہنچ جانے کا صبر آزما فیصلہ لیا ۔ بہوؤں سے وداع لیتے ہوئے ستنام نے ترنگا اور نشان صاحب ساتھ اُٹھائے، ایک چھوٹی سی پُڑیا میں اپنے کھیت کی مٹی رکھ دی اور احترام کے ساتھ اپنی پگڑی میں چھیایا تاکہ ا س کی سگندھ ستنام کو اپنے فرض کی کھونٹی سے بندھا رکھے :
’’ بابا! آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں، نہ جائیں دلی، اجیت اکیلا جائے گا‘‘ ستنام کی بیوہ بہو نے کہا۔
’’ کنول جیت ! کوئی غم نہیں بیٹا ، ساری دوائی اُٹھالی ہے ۔ واہے گرو سب ٹھیک کرے گا ۔۔۔ ترنگا میرے دیش کا رکھوالا ہے ، نشان صاحب میرے دھرم کا محافظ۔ تینوں کا لے قانون کیا گئے، اجیت کے ساتھ اُلٹے پاؤں واپس آجا ؤں گا۔ فون جیب میں ہے ، روزبات کریں گے،بچوں کو اسکول کالج بھیجتی رہنا، بھینس کو میری غیر حاضری کا کبھی پتہ بھی نہ چلے ، خیال رکھنا سب کا، ست سری اَکال‘‘ ستنام فون ، دوائیوں کا تھیلا ، ٹرانزیسٹر ، تھوڑی بہت نقدی لے کر ٹریکٹر میں دلی کو روانہ ہوا۔
بوڑھے کاشت کار کا چہرہ جھریوں کا جنگل ، ہاتھوں میں رَعشہ کی تھرتھراہٹ ، ٹانگیں تیزہوا میں کسی کمزور پودے کی مانند تھرتھرکا نپتی ہوئیں ، آنکھوںپر پُرانا چشمہ ، کمر خمیدہ مگر سماعت اور گویائی بالکل دُرست۔ بوڑھی ہڈیوں میں اتنی ساری حرارت کہ آدمی دنگ رہے کہ یہ ضعیف العمری اور بے پناہ جرأت ، اَٹل ارادہ ، غیر متزلزل عزم ۔ وہ پہلے دن سے لے کر اب تک کسان آندولن میں شامل ہے اپنی بیماریوں سے لاپرواہ ہوکر ۔ مختلف پرانتوں اور جاتیوں سے آئے کسان ستنام سنگھ کو پریم اور آدر کے ساتھ چاچا ، تایا، بابا پکارتے ہیں۔ اُس کی بزرگی کے پیش نظر ہرکوئی اس کا خاص خیال رکھ رہا ہے، بلکہ اس کو دیکھ دیکھ کر لوگ باگ اوراونچا اُڑنے کا حوصلہ پاتے ہیں ۔ نیند تو پہلے ہی ا س سے روٹھ چکی ہے مگر افسوس آج سہ پہر سے اس کی طبیعت بہت زیادہ ناساز ہے ۔ شاید ۲۶ ؍ جنوری کو ہوئے ٹریکٹرمارچ کی دل خراش یادیں اُس کے دل میں چھریاں پیوست کررہی ہیں ۔ وہ دیکھ رہاہے کہ کسانوں کو کیسے کیسے مشکوک بنایا جارہاہے، اُن پر بڑبولے کس دھڑلے سے تخریب کاری کا جھوٹا الزام دھرے جارہے ہیں، ان پر بدنامی کی کالک کس لاپروائی سےتھو پی جارہی ہے ۔ اتنا کچھ کیا کم پڑا کہ فولادی دیواروں اورنوکیلی میخوں کے جنگل میں انہیںمحصور کیا گیا ۔ یہ میخیں ستنام اپنے دل میں چبھی محسو س کر رہاہے۔ اس وقت ستنام اپنے کٹے پھٹے ٹینٹ میں لیٹا ہوا ہے ، بخار سے جل رہاہے ، نبضیں ڈوب رہی ہیں، آنکھیں نیم وا ہیں، جسم پر کپکپاہٹ ہے۔ اجیت اور گاؤں کے کئی کسان تیمارداری میں لگے ہیں، کوئی نبض ٹٹول رہاہے ، کوئی آہیں بھر رہاہے۔ ڈاکٹر نے ملاحظہ کرکےکچھ دوائیاں دیں مگر افاقہ نہیں ہورہا۔ ہر گزرتے پل کے ساتھ تکلیف میں شدت بڑھ کر ستنام کی بے قراری میں بتدریج اضافہ کررہی ہے۔ اجیت کی آنکھوں میں آنسو کا سیلاب لاکھ روکے نہیں رُک رہا ، اپنے ہمت والے داد اکی مردنی ا س سے دیکھی نہیں جاتی۔ تمام کسانوں کے چہرے اُتر ے ہیں اور غم کی پرچھائیاں جماوڑے کو سوگوار کر رہی ہیں۔ یکایک بے قراری میں ہانپ رہے ستنام نے نیم مردہ آنکھیں کھولیں ، بڑی آہستگی کے ساتھ اجیت کا سہارا لیا ،تھوڑاسا اوپر اُٹھ کر تکیے سے ٹیک لگائی ۔۔۔ اجیت نے پانی پلایا ، مشکل سے دوایک گھونٹ لئے ، اپنی پگڑی سے مٹی کی پڑیا نکالی ، ہلکی مسکان ہونٹوں پر پھیلی، تھوڑا سادَم سادھ کر مشکل سے بولا:
’’ بے بے بے بیٹے۔۔۔ اجیت ۔۔۔ سمئے گھر واپسی کا ۔۔۔ بیٹا۔۔۔ گرمیت بلائے ، گرنام کہے آؤ باپو، اجے آواز دے۔۔۔ مٹی پکارے۔ ۔۔ دھرتی بانہوں میں لے۔۔۔ میںجارہاہوں۔۔۔ شَو ٹریکٹر میں۔۔۔ ترنگا، نشان صاحب ٹریکٹر پر لہرا نا۔۔۔ مٹی کی پُڑیا سینے پر باندھ لینا ۔۔۔آتما کو شانتی۔۔۔ آندولن ج ج ج جاری۔۔۔ کالے قانون۔۔۔ نہیں نہیں چ چ چ چاہیے۔۔۔ شانتی شانتی شانتی۔۔۔‘‘
نبض ڈوب گئی اور زبان ہمیشہ کے لئے خاموش۔

Comments are closed.