Baseerat Online News Portal

موت ایک فطرت کی لے ہے موت ہے ہنگامہ زن……… موت سے اجڑی ہیں بستی اس سے ویراں ہیں چمن

باسمہ تعالی شانہ

منظوم تعزیت نامہ بخدمت

جناب مولانا مفتی محمد اللہ قیصر قاسمی

منجانب محمد طاہر سلیمی

 

موت ایک فطرت کی لے ہے موت ہے ہنگامہ زن

موت سے اجڑی ہیں بستی اس سے ویراں ہیں چمن

اس کی جنبش پر سبھی شاہ و گدا حیران ہیں

عالم عقبی کی گویا یوں ہی ہم پہچان ہیں

 

موت کو ہ و بن میں آۓ موت دریاؤں میں ہے

شہر بھی ہیں اس کی زد پر یہ ہی صحراؤں میں ہے

طفل ہو یا پیر ہو یا کہ کوئی ہو جواں

پھول گلچیں اس کی زد پر اس کی زد پر باغباں

کوئی پیغمبر بچا اس سے نہ کوئی داد گر

انبیاء اور اولیاء کا ہوتا ہے اس سے گزر

اہل حق پر بھی بہ پا ہے اہل باطل پر بھی موت

کنج خلوت میں بھی ٹوٹے اور محفل پر بھی موت

کتنے بچے باپ کو روتے ہوئے پھرتے ہیں آج

کتنے بوڑھے باپ بھی بچوں کا دم بھرتے ہیں

کتنی آغوشیں ہیں سونی ماں کا دل کملا گیا

نوجواں کے حادثے سے خانداں مرجھا گیا

کچھ جنازوں کا سبب بنتی ہے مرگ نا گہاں
سن کے بیٹے کا فسانہ ہو چلی رخصت ہے ماں

ہے غرض قانون فطرت ماوراۓ اختلاف

اس معمے میں نہ سن پائے صدائے اختلاف

یہ طریقہ تا ابد جاری رہے گا اے حبیب

ہر کسی کا آخرش طے ہے اٹل ہے یہ نصیب

والدہ کا سایہ ہے دنیا میں جنت کا نشاں

ایسی نعمت ایسی عظمت ایسی رحمت ہے کہاں

والدہ وہ والدہ جو جاگتی راتوں کو تھی

جس کے دم سے علم و حکمت کی کیاری سج گئیں

جس نے اپنی زندگی بچوں پہ کرڈالی فدا

تم سے رخصت ہوگئی قیصر وہ مولا کی عطا

آپ کامضمون دیکھااشک جاری ہو گئے

غم کے بادل دل کے جنگل میں ہی طاری ہو گئے

اہ کیسی یہ قیامت دل کے ارمانوں پہ ہے

غم کا ابر آبدیدہ ٹوٹا کھلیانوں پہ ہے

حادثہ اےمیرے قیصرآپ کا تنہا نہیں

کون ہمدم آپ کا ہے آج جو روتا نہیں

وہ دعاۓ نیم شب کا آسرا رخصت ہوا

پاک اک کینے سے سینہ بے بہا رخصت ہوا

صبر کا دامن مگر ہاتھوں میں رہنا چاہیے

ان کی خاطر اب دعاؤں کا ہی گہنا چاہیے

آپ ہیں صدقہ سراپا اپنی ماں کے واسطے

آپ ہیں قرآن پہ عامل صدقہ جاری ہے یہ

میرےمولی ا ان کودیدے جنت الفردوس اب

کرلے یہ مقبول مولا ہے دعا جو زیر لب

تعزیت در خدمت قیصر بچشمِ نم کنم

بخش مولی ام قیصر ایں دعا ہر دم کنم

Comments are closed.