Baseerat Online News Portal

رجب المرجب :فضائل ،احکام اور بدعات

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ تعالیٰ نے سال کے بارہ مہینے مقرر فرمائے اور ان میں سے چار مہینوں(ذوالقعدہ، ذوالحج، محرم اور رجب)کو عظمت والا قرار دیا۔ ان میں عبادت کرنے کا اجر وثواب زیادہ ملتا ہے۔ جو شخص ان مہینوں میں برائیوں سے بچتا ہے اسے باقی مہینوں میں برائیوں سے بچنے کی توفیق ملتی ہے۔
رجب کا چاند دیکھنے کی دعا:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ: اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِی رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ۔
(کتاب الدعاء للطبرانی،باب القول عند دخول رجب، الرقم: 911)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا مانگتے تھے: اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما اور ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب فرما۔
فائدہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا رجب میں برکت کی دعا مانگنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مہینہ برکتوں والا ہے۔
رجب کی پہلی رات:
اس مہینے کی پہلی رات کی فضیلت بہت زیادہ ہے اور اس میں دعاؤں کا قبول ہونا حدیث مبارک سے معلوم ہوتا ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں مانگی جانے والی دعاؤں کومسترد نہیں کیا جاتا۔ شبِ جمعہ، رجب کی پہلی رات، پندرہویں شعبان کی رات اور عیدین کی راتیں۔(فضائل الاوقات للبیہقی، باب فی فضل العید، الرقم: 149)
کوئی عبادت خاص نہ کی جائے:
رجب کی پہلی رات فضیلت والی ہے لیکن یہ خیال رہے کہ اس میں اپنی طرف سے یا غیر مستند باتوں کی وجہ سے اس میں کوئی عبادت خاص نہ کی جائے جیسا کہ بعض علاقوں میں بعض لوگوں نے بعض چیزوں کو رواج دے رکھا ہے۔ دوسری یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ نفلی عبادات میں اتنی مشغولیت نہ کی جائے کہ فرائض و واجبات متاثر ہوں یعنی رات بھر تلاوت، ذکر اذکار، استغفار، درود پاک، نوافل وغیرہ اتنی دیر تک نہ کی جائیں کہ فجر کی نمازقضا ہو جائے۔مزید یہ کہ اس میں لوگوں کو عبادت کے لیے بلانے کا اہتمام نہ کیا جائے۔
رجب کے روزے:
حضرت عطاء رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عروہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رجب کے مہینے میں روزہ رکھا کرتے تھے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں روزہ رکھا کرتے تھے اور اس کو عظمت والا مہینہ قرار دیتے تھے۔(جمع الوسائل فی شرح الشمائل، باب ماجاء فی صوم رسول)
رجب کے روزہ داروں کے لیے جنتی محل:
حضرت عامر بن شبل رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوقلابہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جنت میں ایک عظیم الشان محل ان لوگوں کے لیے ہے جو رجب میں روزے رکھنے والے ہیں۔(فضائل الاوقات للبیہقی، الرقم: 17)
رجب میں زکوٰۃ:
بعض لوگ کم علمی کی وجہ سے اس مہینہ کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ زکوٰۃ رجب کے مہینے شب معراج میں فرض ہوئی، حالانکہ یہ درست نہیں۔ زکوٰۃ معراج والی رات فرض نہیں ہوئی بلکہ معراج والی رات نماز فرض ہوئی ہے۔ لہٰذا زکوٰۃ کی شرائط پوری ہوتے ہی جب سال گزر جائے تو رجب کا انتظار کیے بغیر زکوٰۃ ادا کر دینی چاہیے ورنہ انسان گناہ گار ہوتا ہے۔
رسم تبارک:
بعض لوگ ماہ رجب کے جمعہ والے دن یا کسی اور دن میں ایک مخصوص رسم کرتے ہیں کہ ایصال ثواب کیلیے میٹھی روٹیوں پرسورۃ تبارک الذی(سورۃ الملک)اکتالیس بار پڑھواتے ہیں پھر ان روٹیوں کو کھاتے ہیں۔ ایصال ثواب کا یہ طریقہ درست نہیں، لوگوں نے از خود یہ طریقہ نکال لیا ہے شریعت میں ایصالِ ثواب کے لیے اس طرح کی کوئی قیود نہیں ہیں۔
بڑی بی بی کی کہانی:
بعض خواتین رجب کی بائیسویں رات کو نہا دھو کر بڑے اہتمام کے ساتھ میدہ، شکر، گھی، دودھ اور مختلف میوہ جات سے مرکب ایک پکوان بناتے ہیں اور ایک خاص برتن میں ڈال کر ایک نظم پڑھتی ہیں اور اسے بڑی بی بی کی داستان کے نام سے موسوم کرتی ہیں، اسے داستان عجیب بھی کہتے ہیں بعض خواتین تو اس کہانی پڑھوانے کی منت مانتے ہیں اور اس بے اصل اور غیر مستند کہانی پڑھنے کو باعث ثواب سمجھتی ہیں۔
لکڑہارے کی جھوٹی کہانی:
بعض داستان تراش لوگوں نے ایک کہانی گھڑی ہے کہ مدینہ منورہ کا ایک لکڑ ہارا روزی کمانے کے لیے کسی دوسرے ملک چلا گیا اور اس لکڑہارے کی بیوی نے پیٹ پالنے کے لیے مدینہ کے بادشاہ کے ہاں صفائی کرنے کی نوکری کر لی ایک دن جب وہ صحن میں جھاڑو دے رہی تھی تو امام جعفر صادق اس سے راستے سے گزرے اور یہ فرمایا:’’اگر کوئی مشکل سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہوتو آج بائیس رجب کو پوریاں پکا کر دوکونڈوں میں بھر کر میرے نام کی فاتحہ دلائے تو اس کی ہر مراد پوری ہوگی اگر پوری نہ ہو تو قیامت کے دن اس کا ہاتھ ہوگا اور میرا گریبان۔‘‘
یہ کہہ کر لکڑہارے کی بیوی نے منت مانی کہ میرا شوہر جس کو گئے ہوئے بارہ برس ہوچکے ہیں جیتا جاگتا واپس لوٹ آئے اور ڈھیر سارا مال بھی ساتھ لے آئے تو میں امام جعفر صادق کے نام کے کونڈے کروں گی۔ جس وقت یہ خاتون منت مان رہی تھی عین اسی وقت اس کے شوہر نے ایک جنگل میں سوکھی جھاڑی پر کلہاڑی چلائی تو کسی سخت چیز پر لگی اور گر گئی جس جگہ کلہاڑی گری اس نے وہاں زمین کھودی تو اسے بہت سارا خزانہ ملا۔ وہ اس خزانے کو لے کر مدینہ آیا اس نے ایک خوبصورت محل تیار کرایا اور اپنی بیوی کے ہمراہ اس محل میں ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگا۔ لکڑہارے کی بیوی نے اپنے شوہر کا یہ واقعہ وزیر کی بیو ی کو بتایا اور حضرت امام جعفر صادق کے نام کی کونڈوں کی یہ تاثیر بتلائی تو وزیر کی بیوی نے اس کونڈوں والی بات کو جھوٹ سمجھ کر اس کا انکار کیا۔ جس کی وجہ سے اس پر اسی دن یہ مصیبت آئی کہ بادشاہ نے وزیر کو ملک بدر کر دیا چنانچہ وہ وزیر اپنی بیوی کے ہمراہ محل سے نکلا اور جنگل کی راہ لی۔
راستے میں اس وزیر نے اپنی بیوی سے کچھ رقم لی اورایک خربوزہ خریدا اور خربوزے کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر سفر شروع کیا۔ دوسری طرف یہ ہوا کہ بادشاہ کا بیٹا(شہزادہ)قتل ہو گیا، شہر اور گردونواح میں شاہی پولیس شہزادے کے قاتل کی تلاش میں گھوم رہی تھی جب یہ وزیر اپنی بیوی کے ساتھ ایک جگہ سے گزرا تو ان کے پاس کپڑے میں خربوزہ تھا پولیس نے شہزادے کے قتل کے شبہ میں اس وزیر اور اس کی بیوی کو گرفتار کر لیا اور ان کو دربار شاہی میں لایا گیا۔ بادشاہ کے حکم پر اس کپڑے کو کھولنے کا کہا گیا جس میں خربوزہ تھا۔ بھرے دربار میں جب اس کپڑے کو کھولا گیا تو اس میں خربوزے کے بجائے شہزادے کا خون سے لت پت سر برآمد ہوا۔ بادشاہ اور زیادہ غضبناک ہوا اور حکم دیا کہ کل صبح سویرے ان کو پھانسی دے دی جائے۔ رات جیل میں وزیر اور اس کی بیوی نے بہت غور کیا کہ آخر ہم سے کیا جرم ہوا ہے جس کی ہمیں یہ سزا مل رہی ہے۔ تو وزیر کی بیوی کہنے لگی کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق کے کونڈوں کا انکار کیا ہے جس کی وجہ سے ہم پر یہ مصیبت اور پریشانی نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ جیل اپنے اس جرم پر توبہ کی اور منت مانی کہ وہ امام جعفر صادق کے نام کے کونڈے بھریں گے۔منت ماننے کی وجہ سے ان کی پریشانی یوں ختم ہوئی کہ گم شدہ شہزادہ صحیح سلامت واپس لوٹ آیا جس کی وجہ سے بادشاہ نے ان دونوں کی قید سے رہائی کا حکم جاری کیا۔ بادشاہ نے اس وزیر کو دوبارہ اپنے دربار میں وزیر مقرر کیا اور اس وزیر کی بیوی نے امام جعفر صادق کے نام کے کونڈے بھرنے کی منت پوری کی۔
یہ ہے وہ من گھڑت کہانی جس کی وجہ سے لوگ بائیس رجب کو کونڈے کرتے ہیں۔ اس طرح کی بے اصل بے سند اور فضول واقعہ پر یقین کرنا، اس کو صحیح سمجھنا سب ناجائز اور حرام ہیں۔
کہانی گھڑنے کی وجہ:
اصل یہ ہے کہ اس دن سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یوم وفات ہے بعض بغض صحابہ رکھنے والے لوگوں نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے یوم وفات پر خوشی منانے کے لیے یہ کہانی گھڑی ہے اور ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت جلیل القدر صحابی رسول کے یوم وفات پر خوشی منانے کا پروگرام بنایا۔
ایمان سے محرومی کا اندیشہ:
ہمارے سادہ لوح مسلمان اسے عام خیرات سمجھ کر برکت کے طور پر کھا لیتے ہیں۔ اچھی طرح یاد رکھیں یہ ناجائز اور حرام ہے اور بالخصوص جب جلیل القدر صحابی رسول کے یوم وفات پر خوشی منانے کی وجہ سے ہو تو اندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان سے ہی محروم نہ فرما دیں۔ اس لیے خود بھی اس سے بچیں اور اپنے دوست احباب رشتہ داروں اور دیگر مسلمانوں کو بھی اس سے بچائیں۔
ہزاری روزہ:
بعض لوگ رجب کی ستائیس تاریخ کو روزہ رکھنا ضروری سمجھتے ہیں اور اس کا ثواب ایک ہزار روزوں کے برابر سمجھتے ہیں جبکہ بعض لوگ اس کو مریم روزے کا چاند بھی کہتے ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ ہے اس لیے یہ اعتقاد رکھنا ضعف الاعتقادی ہے۔
صلوٰۃ الرغائب:
بعض لوگ رجب کی پہلی شب جمعہ جبکہ بعض لوگ ستائیسویں رجب کو ایک نماز پڑھتے ہیں جسے ’’صلوٰۃ الرغائب‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی کل بارہ رکعتیں ہوتی ہیں ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور ایک سورۃ ساتھ ملاتے ہیں جب بارہ رکعتوں سے فارغ ہوتے ہیں تو اسی جگہ بیٹھ کر سات بار سورۃ الفاتحہ پڑھتے ہیں اور اس کے بعد سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم چار بار پڑھتے ہیں اور پھر صبح اٹھ کر روزہ رکھتے ہیں۔ اس کے بعد یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے سو سال نیکی کرنے کا ثواب ملے گا۔ یہ سراسر بے بنیاد اور جھوٹ ہے اس طرح کی فضیلت کسی حدیث میں مذکور نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت اسلامیہ کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بے بنیاد من گھڑت باتوں سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

Comments are closed.