قربانی: ایک عظیم اسلامی شعار اور سنتِ ابراہیمی کا تسلسل

 

️ مولانا محمد شبلی القاسمی

ناظم امارت شرعیہ بہار اڑیسہ جھاڑکھنڈ مغربی بنگال

ذی الحجہ کی عظمت: قرآن کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے سورۂ فجر میں فرمایا:

 

> ﴿وَالْفَجْرِ۝۱ وَلَيَالٍ عَشْرٍ۝۲﴾

مفسرین کے مطابق یہاں جن دس راتوں کی قسم کھائی گئی ہے، وہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔ قرآن میں کسی چیز پر اللہ تعالیٰ کا قسم کھانا اس کی بے پناہ عظمت اور اہمیت کی دلیل ہوتا ہے۔ ان دنوں میں عبادت، تسبیح، تہلیل، قربانی، روزہ، صدقہ اور نیک اعمال کی کثرت کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔

وقوفِ عرفہ: قربتِ الٰہی کا دن

ذی الحجہ کا نواں دن یعنی یومِ عرفہ حج کا اہم ترین رکن ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس دن کے روزے کو دو سال کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا۔ (صحیح مسلم)

عرفہ کا دن پوری امت کے لیے بیداری، تجدیدِ عہد اور اللہ کی رحمتوں کے نزول کا دن ہے۔ اور یہی دن قربانی کی تیاریوں کا اوج ہوتا ہے۔

عید قربان ایک عام خوشی کا دن نہیں بلکہ اطاعت، ایثار، خلوص، وفا اور عشقِ الٰہی کی علامت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنے جگر گوشہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا قصد کیا، اور اللہ تعالیٰ نے اس عظیم وفا کو رہتی دنیا تک کے لیے شعائر اللہ میں شامل کر دیا۔

قرآن میں فرمایا:

﴿وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ﴾ (الصافات: 107)

"اور ہم نے اس (قربانی) کے بدلے ایک عظیم ذبیحہ عطا کیا۔”

قربانی کو فقہاء نے مختلف درجوں میں رکھا ہے:امام ابوحنیفہؒ: قربانی ہر صاحبِ استطاعت بالغ مسلمان پر واجب ہے۔ امام مالکؒ و احمدؒ کی ایک روایت: قربانی واجب ہے۔ امام شافعیؒ: قربانی سنتِ مؤکدہ ہے۔ تاہم تمام آئمہ اس بات پر متفق ہیں کہ قربانی ایک اسلامی شعار ہے، اور جو شخص استطاعت رکھتا ہو، اس کا قربانی ترک کرنا سنتِ نبوی ﷺ سے اعراض کے مترادف ہے۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں:

"قربانی صرف تین دن ہے: یوم النحر (10 ذی الحجہ) اور ایامِ تشریق کے دو دن (11، 12 ذی الحجہ)” یہی موقف امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام احمدؒ کا ہے۔ لہٰذا 13 ذی الحجہ کو قربانی کرنا فقہی طور پر غیر ثابت ہے۔

قربانی سے پہلے نمازِ عید ادا کرنا ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ہمارا پہلا عمل نماز ہے، پھر قربانی۔ جس نے نماز سے پہلے قربانی کی وہ صرف گوشت ہے، قربانی نہیں۔”

(صحیح بخاری)

نمازِ عید کا اہتمام جماعت کے ساتھ کھلے میدان میں کرنا سنت ہے، البتہ مجبوری کی حالت میں مسجد میں بھی جائز ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"قربانی کے دن اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل جانور کا خون بہانا ہے۔”

(ترمذی)

"قربانی کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے۔”

(ابن ماجہ)

یہ صرف ایک عبادت نہیں بلکہ ایک روحانی تزکیہ اور قربتِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔

شریعت نے قربانی کے جانور کے لیے چند ضروری صفات بیان کی ہیں:

1. صحتمند اور تندرست ہو 2. اندھا، بیمار، لنگڑا، یا نحیف جانور قربانی کے لائق نہیں 3. عمر پوری ہو: بکری، دنبہ، مینڈھا: کم از کم 1 سال گائے، بیل، بھینس: کم از کم 2 سال اونٹ: کم از کم 5 سال

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

"رسول اللہ ﷺ نے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی دی، اور خود اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔”

(بخاری)

اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا سنت ہے، بشرطیکہ ذبح کے آداب اور احتیاط کا لحاظ ہو۔

گوشت کی تقسیم میں مکمل آزادی ہے، تاہم مستحب طریقہ یہ ہے: ایک تہائی: خود کے لیے ایک تہائی: رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے ایک تہائی: غریبوں اور فقیروں کے لیے

رسول اللہ ﷺ نے ابتدا میں تین دن سے زیادہ گوشت رکھنے سے روکا، بعد میں اجازت دی: "کھاؤ، کھلاؤ، اور ذخیرہ کرو” (مسلم)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"اونٹ اور گائے سات افراد کی طرف سے کافی ہے۔”

(ابوداؤد) اس شرکت میں شرط ہے کہ تمام شریک افراد کی نیت قربانی یا عقیقہ یا صدقہ ہو، مح گوشت حاصل کرنے کی نیت نہ ہو۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"یوم الفطر اور یوم النحر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔”

(بخاری و مسلم)

یہ دن اللہ کی ضیافت اور مہمان نوازی کے دن ہیں، اس لیے ان دنوں میں روزہ رکھنا حرام اور مکروہِ تحریمی ہے۔

اگر کوئی صاحبِ نصاب قربانی کے دنوں میں قربانی نہیں کر سکا تو اس پر واجب ہے کہ: اس کی قیمت صدقہ کرے۔ گوشت کے بجائے مکمل رقم فقرا کو دے تاکہ فائدہ پہنچے۔ یہ محض مالی تلافی ہے، اصل قربانی کا بدل نہیں ہو سکتا۔

قربانی صرف جانور کا ذبح کرنا نہیں، بلکہ یہ اعلان ہے: ہم ابراہیمؑ کی طرح خدا کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کرنے والے ہیں۔ ہم دنیا کی محبت کو اللہ کی رضا پر قربان کر سکتے ہیں۔ ہم دین کے راستے میں نفس، مال، وقت اور خواہشات سب قربان کر سکتے ہیں

ہمیں قربانی کی حقیقت کو سمجھنے، سنت ابراہیمی پر چلنے، اور اسلام کے شعائر کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرما۔

اے اللہ ہماری قربانیاں اپنی بارگاہ میں قبول فرما، اور ان کے ذریعے ہمیں اپنی رضا اور قربت عطا فرما۔تاحیات صراط مستقیم پر گامزن اور استقامت عطا فرما

آمین ثم آمین

Comments are closed.