قرآنی آیتوں کے خلاف یاوہ گوئی اور ہماری ذمہ داری

عمر عابدین قاسمی مدنی
(نائب ناظم المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد، جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل تلنگانہ)

خبریں آرہی رہیں کہ آلہ آباد ہائی کورٹ میں قرآن مجید کی چند آیتوں کے خلاف ایک درخواست دی گئی ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان آیتوں کو قرآن مجید سے حذف کر دیا جائے۔
ہندوستان کی تاریخ کا یہ شرمناک واقعہ بلکہ حادثہ ہے، اس کے پس پشت ہندو انتہا پسند و فرقہ پرست ذہنیت کارفرما ہے۔ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ایک سماج اپنے فرسودہ نظریات، عقل و دلیل سے محروم روایات اور بے بنیاد عقائد کی وجہ کر نئی نسل پر اپنی گرفت کھوتا جارہا ہے، وہ نظریاتی طور پر خوف و شکست سے دوچار ہے، اس لیئے بوکھلاہٹ میں قرآن مجید اور پیغمبر اسلام ﷺ پر انگشت نمائی کرتا پھرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید انسانی تاریخ کی واحد مستند آسمانی کتاب ہے، دیگر تمام کتابیں نہ اپنی سند رکھتی ہیں اور نا ہی استناد۔

قرآن مجید کی ان آیتوں کے خلاف ایک دہائی پیشتر VHP نے بھی منفی پرچار شروع کیا تھا، مگر ان کی یہ شرانگیزی کامیاب نہیں ہوپائی۔ ظاہر ہے اس طرح کی حرکت کا مقصد شرانگیزی اور فتنہ پروری کے سوا اور کچھ نہیں۔

ایسے حالات میں ہمیں علمی اور اکاڈمک جواب دینا چاہیئے، نیز تقابلی مطالعہ کے ذریعہ دیگر مذہبی کتابوں سے انہیں آئینہ بھی دیکھانا چاہیئے۔

یادش بخیر فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے ماضی میں VHP کی جانب سے پیش کردہ اعتراضات کا علمی جواب دیا تھا، ان آیتوں کے حقیقی پس منظر اور مراد کو واضح کیا تھا، نیز ہندو مذہبی اور دیگر آسمانی کتابوں کے حوالے سے مختلف اقتباسات پیش کیئے تھے، اور اس طرح انہیں آئینہ بھی دیکھایا تھا۔ یہ کتاب "24 آیتیں” کے نام سے طبع ہوچکی ہے،اور حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب نے اس کا ہندی ترجمہ بھی شائع کیا تھا۔ اس موقع پر کتاب "24 آیتں” سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

ایسے حادثات بلاشبہ پوری امت کےلیئے تکلیف دہ اور دل گرفتگی کا سبب ہوتے ہیں، ہمیں اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا اور اپنا احتجاج درج کروانا چاہیئے، اسی طرح قرآن مجید سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا چاھیئے۔

Comments are closed.