اب ایسے دور میں ہم کو یقین کیسے ہو

اسامہ توحید
غزل
اب ایسے دور میں ہم کو یقین کیسے ہو
تمہی بتاؤ تم اتنی حسین کیسے ہو
کبھی تو چھیڑ دو سازِ سکون یارِ من
کبھی تو پوچھ لو اہلِ زمین! کیسے ہو ؟
فقیرِ وقت کی اک بات چبھ رہی ہے مجھے
وہ کہہ گیا ہے غلامِ مشین!! کیسے ہو
یہ جس کا نام ہے دل یہ تو اب خرابہ ہے
تم اس خرابے میں اب بھی مکین کیسے ہو؟
تجھے یہ شوق کہانی کا اختتام ہو بس
مجھے یہ فکر ڈرامائی سین کیسے ہو
خزاں کی رت میں یقینِ بہار مشکل ہے
بتاؤ یار! کہ تم بہترین کیسے ہو؟
Comments are closed.