ماں تو ماں ہے!

ماں پھول ہے اس دنیا کا، میرا وہ پھول چلا گیا۔! میرا پھول مرجھا گیا۔! میرا چمن کانٹوں سے بھرا ہے اب! میری زندگی کی خوشیاں میری ماں ہی سے منسلک تھیں۔

کومل ناز (دریا ننگل)
گرمیوں کی شام میں نمل اپنے صحن کے ایک کونے میں مرجھایا ہوا چہرہ لے کر بیٹھی ہوئی تھی۔ سر پر دوپٹہ اور بھیگی ہوئی آنکھیں کسی گہرے کرب کا شکار تھیں۔ کچھ روز پہلے ہی نمل کی ماں اس دنیا فانی سے کوچ کر گئی تھی۔ اور اس کا صدمہ نمل کو کھا گیا تھا۔ وہ چاہ کر بھی یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہ تھی۔
وہ ہر وقت اپنی ماں کو پکارتی اس کی باتیں یاد کر کے زار و قطار رونے لگتی اور پھر کسی کی نہ سنتی۔ اس کی دوست ایمن اس کا حال دریافت کرنے آئی تو اسے اس حالت میں دیکھ کر رو پڑی۔ وہ نمل کو سمجھانے کی کوشش کرتی کہ وہ خود کو سنبھال لے مگر بے سود۔ نمل اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ وہ اپنی ساری باتیں اپنی ماں کو بتایا کرتی  وہ اپنی ماں کی باتیں ایمن کو بتاتی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی۔ ایمن میری ماں میری دوست تھی۔ اس نے کبھی مجھے بیٹی نہیں بلکہ اپنی دوست اپنی بہن کی طرح مجھے پیار دیا۔ میری دوست چلی گئی ایمن وہ زارو قطار رونے لگی۔ ایمن افسردہ ہو گئی ۔ اور نمل کو گلے سے لگا لیا، ماں کے بغیر اس دنیا میں جینے کا کوئی مقصد نہیں ہے، دنیا کانٹوں جیسی ہے ماں جی بغیر۔ ماں پھول ہے اس دنیا کا، میرا وہ پھول چلا گیا۔! میرا پھول مرجھا گیا۔! میرا چمن کانٹوں سے بھرا ہے اب! میری زندگی کی خوشیاں میری ماں ہی سے منسلک تھیں۔
ماں رونق ہے، ماں سکون ہے، ماں خوشی ہے، ماں اطمینان ہے، ماں محبت ہے، ماں رحمت ہے، ماں برکت ہے، ماں کی محبت بے لوث ہے، ماں کی شفقت میں مٹھاس ہے، ماں دنیا کی سبھی عورتوں سے افضل ہے، ماں نور ہے، ماں سرور ہے، ماں ایک جادو ہے، ایک ایسا جادو جو کچھ بھی کر سکتا ہے اور اس جادو کی کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا۔! ماں خوشبو ہے؛ ایسی خوشبو جس کی مہک سے سارا گھر مہک اٹھتا ہے۔ ماں زندگی ہے، زندگی میں چلنے والی ہر سانس ہے ماں، ماں کے بغیر یہ دنیا بہت مشکل ہے! ماں دوست ہے؛ ایسی دوست جو کبھی دھوکہ نہیں دے گی! جو کبھی ساتھ نہیں چھوڑتی، جو خود سے زیادہ محبت کرتی ہے، ماں تو ماں ہے۔! یہ سن کر ایمن رونے لگی اور نمل کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے دلاسا دینے لگی۔

Comments are closed.