سات روز پس دیوار زنداں
دوسری قسط

ظفر امام
اسکاؤٹ اینڈ گائیڈ کی تاریخ کافی قدیم ہے،آج سے ڈیڑھ صدی پہلے یعنی ٢٢/ فروری ١٨٥٧ء میں لندن میں رابرٹ اسٹیفنسن سمتھ بیڈین پاویل نام کا ایک بچہ پیدا ہوا،جب یہ بچہ سن شعور کی عمر میں پہونچا تو اپنی خداداد صلاحیتوں سے لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کیا، وہ بیک وقت رائٹر، آرٹسٹ اور فٹبال کا ایک بہترین گول کیپر تھا، اٹھارہ سال کی عمر میں برٹش فوج میں جوائن کیا، انیس سال کی عمر میں سیکنڈ لیفٹیننٹ بن گیا، اس کے بعد لکھنؤآکر (جہاں اس وقت انگریزوں کا اقتدار تھا) سب لیفٹیننٹ میں جوائن کیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب آفاقِ عالم میں انگریزوں کا چراغِ اقتدار پوری شان و شوکت کے ساتھ روشن تھا، اور ہر ملک کے حقیقی باشندے اس چراغ کو گل کرنے اور اپنے ملک عزیز کو انگریزوں کے شکنجے سے آزاد کرانے کے لئے ہرممکن جتن کر رہے تھے، جس کا دفاع انگریز اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر کر رہے تھے،چنانچہ اسی دفاعی سلسلے میں بیڈین پاویل جو اس وقت جنرل کے مقام تک پہونچ چکے تھے اپنی مختصر سی فوج لیکر ١٨٩٩ء میں ساؤتھ افریقہ کے میفنگ نامی جگہ میں پہونچ گئے، جہاں اپنی قلت تعداد کی بناء پر افریقی سولجرز کے نرغے میں آگئے، اور ٢١٩ دن افریقی سولجرز کے نرغے میں گھرے رہے۔
اس وقت نہ موبائل کا زمانہ تھا اور نہ ہی وائر لیس ٹیلیفون کا، لوگ پیغام رسانی کا کام کبوتروں کے ذریعہ لیا کرتے تھے،جب بیڈین پاویل نے افریقی سولجرز کے نرغے سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں دیکھی تو اس کے تخلیقی دماغ میں ایک ترکیب آگئی، اس ترکیب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے محاصرے کی جگہ پھر رہے چھوٹے چھوٹے بچوں سے دوستی کی راہ چلائی، اور انہیں کچھ لالچ وغیرہ دیکر اپنے ہاتھوں میں کرلیا، جب یہ بچے مکمل طور پر ان کے اعتماد میں آگئے تو بیڈین پاویل نے ان کی معرفت پیغام رسانی کا کام لیا، اور ان کے ذریعے برٹش فوج کو (جو وہاں سے کچھ دور ہی خیمہ زن رہا ہوگا)مکتوب بھیجے، جن میں اپنے محاصرے کی روداد لکھی،اور فورا مدد طلب کی،برٹش فوج تک پیغام کا پہونچنا تھا کہ ایک نہ تھمنے والے سیلاب کی طرح برٹش فوج نے افریقی سولجرز پر چڑھائی کردی، جس کی تاب افریقی سولجرز نہ لاسکے اور پس پا ہوگئے، یوں بیڈین پاویل اپنی حکمت عملی اور بچوں کی مدد سے اپنی جماعت کو لیکر ٢١٩ دنوں کے لمبے عرصے کے بعد افریقی سولجرز کے نرغے سے باہر آگئے۔
وہیں سے بیڈین پاویل کے دل میں بچوں کے تئیں ہمدردی اور ان کے مستقبل کے لئے کچھ کرجانے کا جذبہ انگڑائی لینے لگا، چنانچہ انہوں نے کافی سوچ بچار اور غور و فکر کے بعد اگست ١٩٠٧ء کو محض بیس لڑکوں کو لیکر براؤن سی آئیلینڈ ( لندن کا ایک جزیرہ) میں پہلا اسکاؤٹنگ کیمپ کیا، اور پہلی بار اس جزیرے میں رات کے وقت کیمپ فائر ہوا، جس کی رسم آج تک چلی آرہی ہے۔
آپ کی دلچسپی لئے بتادوں کہ ” کیمپ فائر“ اسکاؤٹنگ کا ایک نہایت دلچسپ اور پرلطف حصہ ہے، دوران ٹریننگ ہر رات کے دوسرے پہر اسکاؤٹنگ کا آخری سیشن منعقد ہوتا ہے، جس میں سارے پٹرول اکٹھے ہوتے ہیں،ہالہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں، سامنے ٹرینر حضرات براجمان ہوتے ہیں، ایک پٹرول لیڈر ٹرینروں کو شمع روشن کرنے لئے مدعو کرتا ہے، شمع روشن ہونے کے بعد جب سب اکھٹے ہوکر پرسوز لے میں لے ملاکر یہ نظم۔
آگ ہوئی ہے روشن آؤ
آؤ آگ کے پاس
آگ سے روشن اپنی بستی
کیسی بلندی کیسی پستی
رنج و الم کو بھولو بھلاؤ
آؤ آگ کے پاس
سورج ڈوبا نکلے تارے
ختم ہوئے سب کام ہمارے
مل کر بھاگ جگاؤ
آؤ آگ کے پاس
پڑھتے ہیں تو سماں میں وجد اور کیف طاری ہوجاتا ہے، جسم کے روئیں روئیں میں لطیف ارتعاشی لہر دوڑ جاتی ہے،اس کے بعد پھر ٹرینڈوں کا ثقافتی پروگرام منعقد ہوتا ہے، ہر کوئی اپنی بساط بھر اپنا جوہر دکھلاتا ہے۔
ظفر امام، کھجور باڑی دارالعلوم بہادرگنج ٣١/ مارچ ٢٠٢١
Comments are closed.